سلیم راز صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے!


16 مئی اور 17 مئی سن دو ہزار اکیس یک کے بعد دیگرے ایسے سانحات لے آئے کہ پشتون سیاست اور ادب دونوں سکتے میں رہ گئے۔ سولہ مئی کو آئرن لیڈی محترمہ ( مور بی بی ) بیگم نسیم ولی خان اس دار فانی سے کوچ کر گئیں اور ابھی یہ غم تازہ ہی تھا کہ مرد آہن سلیم راز صاحب بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا کو الوداع کر گئے۔ محترمہ نسیم ولی خان پر تو ان پر لکھے ہوئے کالم میں لشٹم پشٹم اپنے جذبات کا ذکر کر چکا ہوں۔ اب جب میں سلیم راز صاحب پر کالم لکھ رہا ہوں تو ان کے جنازے کا اعلان ہو چکا ہے کہ آج رات آٹھ بجے ان کا جنازہ ان کے گاؤں سکڑ دوابہ چار سدہ میں ادا کی جائے گی۔

ابھی ابھی ان کے بڑے بیٹے شاعر اور ادیب ارشد سلیم سے تعزیتی گفت گو ہوئی، لازمی بات ہے افسردہ تھے ان کے والد تھے۔ جس کی موت پر ہر وہ شخص جو پشتو اور اردو ادب سے شغف رکھتا ہو وہ افسردہ اور غمگین ہو جن کا ان سے ادبی تعلق رہا ہے تو جو ان سے پدری شفقت کا تعلق دار ہو تو ان کا تو کلیجہ منہ کو آیا ہوا ہوگا۔ میں نے سلیم راز صاحب پر لکھے ہوئے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ سلیم راز صاحب، صاحب فراش ہیں۔ اور ان کی ادبی اور سیاسی خدمات پر ایک لفظ بھی نہیں لکھا کیونکہ وہ اپنی آخری ریکارڈڈ ویڈیو میں ایسے پرامید اور حوصلہ مند تھے کہ لگ رہا تھا کہ بقول ان کے عید بعد ملاقات کریں گے۔

اور وہ مزید زندہ رہنا چاہتے ہیں اور رہیں گے لیکن یہی زندگی ہے جو اپنی بے ثباتی کی اپنی مثال آپ ہے۔ ملتی بھی بغیر مرضی کے اور رخصت بھی ہوتی ہے انجانے میں۔ اور میں نے لکھا تھا کہ کارنامے تب ایک بندے کے لکھے جاتے ہیں جب وہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ تو آج میں ان کی ادبی کارناموں پر بحث تک محدود رہوں گا۔ کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں کہ ان کے ادبی کارناموں کو نہ صرف سراہا جائے بلکہ اجاگر بھی کیا جائے۔ میں نے اگر سب سے پہلی کتاب راز صاحب کی پڑھی ہے تو وہ تنقیدی ہے۔

( تنقیدی سطریں ) ۔ یہ پشتو ادب کے ادبی شخصیات پر تنقیدی لب و لہجے میں لکھی ہوئی کتاب ہے۔ اس کتاب میں جس انداز اور شائستہ لہجے میں شخص در شخص تنقید کی گئی ہے۔ اس کا اندازہ صرف اس ایک جملے سے کیجئے کہ جب پشتو ادب کی شاعرات کے صف اول کی شاعرہ س۔ ب۔ ب یعنی سیدہ بشری بیگم کی ادبی تعطلی کو زیر بحث لاتے ہیں تو دھیمے سے لہجے میں بولتے ہیں پھر ان سے اپنی وقت کی گاڑی نکل چکی تھی۔ یعنی قلم کا نشتر اس طرح چباتے کہ درد کا احساس بھی نہ ہو اور چبھن بھی محسوس ہو۔

اس طرح اس کتاب میں ہاشم بابر کی شاعری پر مقالہ اس بات کا ثبوت ہے کی وہ کتنے بڑے اور کھرے نقاد تھے یعنی وی شاعر جس کو سمجھنا دشواری کی علامت تھی ان پر راز صاحب تنقیدی مقالہ بھی لکھ بیٹھے۔ اس طرح ان کی دوسری کتاب میں نے ان کی شاعری کی کتاب زہ لمحہ لمحہ قتلیگم پڑھی تھی۔ جس کی شاعری پشتو ادب کے نوجوانوں میں اتنی مقبول ہے کہ میرے خیال میں آدھی شاعری سب کو یاد ہے کیونکہ اس شاعری میں راز صاحب ایسے رومانس پرور واقع ہوئے تھے کہ جوان ان کے خیالات کو اپنے خیالات سمجھتے تھے۔ اور جب بندہ اتنا صاف گو ہو کہ بڑھاپے میں کہے کہ

مینہ زائے لری نہ عمر
زما خپلہ تجربہ دہ
یعنی محبت نہ موقع محل دیکھتا ہے اور نہ عمر

یہ میرا اپنا تجربہ ہے! تو اس شاعر نے اپنی جوانی میں کیا غضب ڈھایا ہوا ہوگا۔ اور مزید یہ کہ اپنی ترقی پسند نظریات کے بڑے کھلم کھلا پرچارک تھے۔ جیسا کہ

کہ د تیارو سرہ نسبت یہ نہ وے

ما بہ د زلفو عبادت کو لے یعنی میں زلفوں کی عبادت کیا کرتا تھا اگر ان کی نسبت اندھیروں کے ساتھ نہ ہوتی۔ یا پھر یہ کہ

سرحدونہ میں نظر کہ نہ زائیگی
د نڑی د ہر ہیواد زہ باشندہ یم

میری نظروں پر کسی ملک کی سرحدوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ میں دنیا کے ہر ملک کا باشندہ ہوں۔ یا یہ کہ ماشومان کہ د مشرق کہ د مغرب دی

د جڑا او د خندا انداز یہ یو دے
بچے مشرق کے ہوں یا مغرب کے۔ ان کے ہنسنے اور رونے کا انداز ایک جیسے ہوتا ہے۔ یا یہ کہ
احساس شعور نہ لرے دا خلق دی بس رازہ
روان دی دیوالونہ راروان دی دیوالونہ
یعنی احساس اور شعور سے پرے یہ لوگ راز!

بس مانند آتی جاتی دیواریں ہیں (چلتی پھرتی دیواریں ہیں)

اس طرح ان کے فن اور شخصیت پر ان کی زندگی میں ہمارے دوست ڈاکٹر پروفیسر حنیف خلیل نے پشتو، اردو اور انگریزی میں ان پر لکھے ہوئے مضامیں کو یکجا اور مرتب کر کے چھاپ چکے ہیں۔ اور ہمارے ایک اور دوست شاعر ادیب اور صحافی روخان یوسفزئی نے بھی ان کی فن و شخصیت پر ایک کتاب لکھی ہے جو ادبیات پاکستان نے معماران پاکستان کے سلسلہ میں چھاپی ہے۔ ان کی ایک رپورتاژ لہ باڑے تر باڑا گلے میری ذوق مطالعہ کا باعث بنی ہے اور میں نے اس طرح سے مزے لے لے کے اس کتاب کو پڑھا جیسے میں اس سفر میں ان کے ساتھ شامل تھا یہ ان کے ادب سے لگاؤ اور قلم پر عبور کا نتیجہ تھا۔

اس طرح پشتو انشائیہ پچاس سال اور پشتو سفر نامہ پچاس سال ان کی تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد یقین ہونے لگتا ہے کہ میں نے یہ کتاب پڑھ کر نہ وقت ضائع کیا اور نہ پیسہ بلکہ یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ کتاب مجھے بہت پہلے پڑھ لینی چاہیے تھی۔ اس طرح دراز پہ لٹون یعنی راز کی تلاش میں وہ انٹرویوز ہیں جو راز صاحب نے وقتاً فوقتاً شعبۂ زندگی کے مختلف لوگوں کو دی ہیں ان کی پوری زندگی اور جدوجہد کا نچوڑ ہے۔

اس طرح رحمان بابا یو تنقیدی مطالعہ (رحمان بابا ایک تنقیدی مطالعہ) وہ کتاب ہے کہ جب لوگ رحمان بابا میں صرف صوفی ازم کی تلاش سے ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے راز صاحب کو ان کے افکار میں ترقی پسندانہ سوچ اور اپروچ نہ صرف نظر آئی بلکہ لوگوں کو بھی دکھلایا۔ ادب اور تنقیدی مثائل ان کی مختکف موضوعات پر لکھی ہوئی کتاب ہے جو ان کی ترقی پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی ادب سال 1947 سے لی کر 2008 تک پشتو کی شاعری کا انتخاب ہے صدارتی ایوارڈ یافتہ تھے، کئی ممالک کے ادبی سفر کیے، اپنے جیون میں عمرے کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے جس کے بعد چھوٹی چھوٹی داڑھی بھی رکھ لی۔

پیش لفظ لکھنا تو جیسے ان کا اولین فریضہ تھا اور نئے لکھاری ان کا لکھا ہوا پیش لفظ اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے، اور ان پیش لفظوں کا حال ہی میں مجموعہ بھی چھپ چکا ہے۔ اس طرح دیگر موضوعات پر بھی ان کی کتابیں چپ چکی ہیں اور پشتو ادب کے لیلی ’کے ماتھے کا جھومر بن چکی ہے۔ راز صاحب کٹر ترقی پسند تھے۔ ترقی پسند مصنفین کے صدر رہے۔ جنرل سیکریٹری رہے۔ ہشتو عالمی کانفرنس کے بانی اور تاحیات چئیر میں تھے۔ دو پشتو عالمی کانفرنسز کے انعقاد کا سہرا اپنے سر سجا چکے ہیں۔

پشتو ادب کی محفلوں کی جان تھے۔ ہر محفل میں شرکت کرنا اور کرسی صدارت پر براجمان ہونا جیسے لازم اور ملزوم ہو۔ مہا کے سچے لکھاری تھے تو تقریر کے بھی غازی تھے۔ کمٹمنٹ، عہد اور قول کے پکے تھے۔ فعل کے بھی کوئی کم نہ تھے لیکن کبھی کبھی ہم جیسے کم فہم اور کم علم لوگوں کے لئے فیل بھی ہو جاتے تھے تاکہ ہماری زندگی گزارنے سے متعلق ڈھارس بندھی رہے۔ وہ ان گنت رسالوں اور اخبارات سے منسلک رہے کئی کے مدیر بھی رہے۔

وہ غیر جانبداری کو گناہ کبیرہ اور جانبداری کو کار خیر سمجھتے تھے۔ اب ہم کہاں سے ان جیسا بھرپور اور کامل ادبی شخصیت لائیں؟ اب ہم سے کون ہزاروں میل دور فون پر بات اس لئے کرنا چاہ رہا ہوگا کہ بس ویسے آپ کی خیریت پوچھ رہے تھے اور یہ احساس دلاتے کہ آپ لوگ مسافر ہیں غریب الدیار ہیں ہم تو پھر بھی اپنے وطن اور مٹی پر شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ اب کراچی آرٹس کونسل میں زاہدہ حنا صاحبہ کن کے لئے بولیں گی کہ میرا ان پر سلام کہنا۔

اب پروفیسر جعفر احمد کن کے بارے میں بولیں گے کہ ان سے سے گفتگو لاسٹ سنڈے ہوئی تھی، کراچی آنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اب خادم حسین تھیم ایڈووکیٹ چلتے چلتے ہائی کورٹ میں بلند اوز سے کن کیے لئے بولیں گے خٹک ان کو سلام کہنا۔ اب سندھی ادبی سنگت کے روح رواں ڈاکٹر ذوالفقار سیال کن کے لئے بولیں گے کہ اس بار پھر ان کو بین السانی مشاعرے میں بلایا ہے۔ حیدراباد پریس کلب اکٹھے چلیں گے۔ اب مسلم شمیم کے دفتر کن کے ساتھ جائیں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم ادبی طور پر یتیم ہو گئے ہوں۔ ہمارا ادبی سہارا ملیامیٹ ہو گیا ہو۔ لیکن وہ ادبی طور ہر اتنے امیر اور صاحب استطاعت تھے کہ اتنا کچھ ادبی وراثت میں چھوڑ چکے ہیں جس پر ہم اپنی ادبی زندگی اچھی طرح گزار سکتے ہیں اگر ہم ان کے ادبی جانشینی کے لٰے کمربستہ ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments