ایک قابل اعتراض اشتہار (مکمل کالم)


آج ایک عجیب معما درپیش ہے۔ ایک موضوع پر کالم لکھنا چاہتا ہوں پر سمجھ نہیں آ رہی کہ کیسے آغاز کروں۔ موضوع قطعاً اچھوتا نہیں بلکہ سچ پوچھیں تو خاصا گھسا پٹا ہے تاہم لکھتے ہوئے جو ’اصطلاحات‘ استعمال کرنی پڑیں گی انہیں سوچ کر الجھن میں ہوں۔ اگر وہ اصطلاحات استعمال کرتا ہوں تو خدشہ ہے کہ کہیں مدیر صاحب اُنہیں فحش قرار دے کر قینچی نہ چلا دیں اور اگر اُن اصطلاحات کا کوئی شریفانہ متبادل استعمال کرتا ہوں تو کالم مضحکہ خیز ہونے کا احتمال ہے۔ خیر کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک اشتہار نظر سے گزرا، یہ اشتہار اُس’مانع حمل شے‘ کا تھا جسے کیمسٹ سے طلب کرتے وقت اچھے خاصے پہلوان کا چہرہ بھی عفت مآب بی بی کی طرح شرم سے سرخ ہو جاتا ہے۔ اشتہار کچھ یوں تھا۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے، خاتون خانہ، جو کہ مشہور ماڈل متھیرا ہے، دروازہ کھولتی ہے، سامنے مستری کھڑا ہے، وہ اسے اندر بلاتی ہے، مستری کوئی چیز مرمت کرکے چلا جاتا ہے۔ اگلے روز پھر دستک ہوتی ہے، اب بھی وہی مستری ہے مگر اُس کے چہرے پر کچھ شرمندگی ہے، وہ خاتون سے کہتا ہے کہ اِس مرتبہ گارنٹی ہے کہ ’بالکل نہیں ٹوٹے گا‘۔ یہی عمل لگاتار تین چار دن جاری رہتا ہے، مستری روزانہ آ کر خجالت آمیز انداز میں کوئی چیز مرمت کرکے چلا جاتا ہے، آخر میں دکھاتے ہیں کہ مستری خاتون خانہ کا ٹوٹا ہوا پلنگ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور خاتون نائٹ سوٹ میں معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل رہی ہے۔ ساتھ ہی اشتہار کی ٹیگ لائن چلتی ہے جسے یہاں بیان کرنا مناسب نہیں، عقل مند کے لیے اشارہ اور متھیرا، دونوں کافی ہیں۔

پہلی مرتبہ جب یہ اشتہار دیکھا تو مجھے یقین نہیں آیا۔ تشکیک پسند فلسفیوں نے چونکہ میری مت ماری ہوئی ہے اِس لیے یقین کرنے کے لیے بار بار اشتہار دیکھنا پڑا اور ہر مرتبہ میں ایک ہی نتیجے پر پہنچا کہ یہ اشتہار کسی پاکستانی ٹی وی چینل پر نشر کرنے کے لیے مناسب نہیں۔ یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ اشتہار مناسب نہیں تو پھر اُس ’شے‘ کے لیے کس قسم کا اشتہار بنایا جائے جو ٹی وی پر بھی نشر ہو سکے اور نا مناسب بھی نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے خیال میں اِس قسم کی چیزوں کا اشتہار سرے سے چلایا ہی نہیں جانا چاہیے کہ ہر بالغ شخص کو اِن چیزوں کا پتا ہے کہ کہاں سے ملتی ہیں اور کس کام آتی ہیں سو کیا ضرورت ہے بلا وجہ ایسے اشتہارات بنانے کی جو بندہ اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھتے ہوئے شرمندہ ہو جائے۔ میری رائے میں مانع حمل اشیا کے اشتہارات چلائے جا سکتے ہیں مگر معقولیت اور شائستگی کے ساتھ تاہم مذکورہ اشتہار میں یہ دونوں باتیں نہیں تھیں۔ دنیا میں contraceptive جسے ہم آسانی کے لیے protection کہہ لیتے ہیں، دو وجہ سے استعمال کی جاتی ہے۔ ایک، ضبط تولید، دوسرے، بیماری سے بچاؤ کے لیے جسے STD کہتے ہیں۔ اِس اشتہار میں جو مقصد دکھایا گیا ہے اُس کا اِن دونوں باتوں سے نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں بلکہ جس ذو معنی انداز میں دکھایا گیا ہے وہ بھی مناسب نہیں۔ ماضی میں اِن چیزوں کے اشتہارات نشر ہوتے رہے ہیں مگر کسی نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ اُن کا مقصد لوگوں میں اِس بات کا شعور اجاگر کرنا تھا بچوں کی پیدایش میں وقفہ ضروری ہوتا ہے، یہ بے ضرر اور معلوماتی نوعیت کے اشتہارات تھے جو ذو معنی تھے اور نہ ہی اِن میں بد ذوقی کا کوئی عنصر تھا۔ جس اشتہار کی تفصیل بیان کرکے میں نے گناہ کمایا ہے، میری رائے میں اُس پر پابندی لگنی چاہیے کہ یہ اشتہار ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر کیے جانے کے قابل نہیں۔ میں نے عمداً کہیں بھی فحاشی کا لفظ استعمال نہیں کیا اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ فحاشی کی تعریف ہر بندے کے لیے مختلف ہے۔ کون سی چیز فحش ہے اور کون سی نہیں، اِس بات کا انحصار ہر شخص کے ماحول، رسم و رواج، مذہبی تربیت، پرورش اورثقافت پر ہے۔ ہر معاشرے میں مختلف مزاج کے لوگ ہوتے ہیں، کسی کے نزدیک عورت کا بغیر نقاب کے ٹی وی پر آنا فحاشی ہو سکتی ہے تو کسی کے نزدیک بکنی پہنی ہوئی عورت بھی اشتہار کی ضرورت کے مطابق دکھائی جا سکتی ہے۔ لیکن معاشرے اِس قسم کے انتہا پسندانہ رجحانات رکھنے والے لوگوں کی خواہشات کے مطابق فحاشی کا معیار طے نہیں کرتے، سوسائٹی میں اِس کام کے لیے معتدل نظریات کے حامل لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ میری دیانتدارانہ رائے میں یہ اشتہار معتدل لوگوں کے میعار پر بھی پورا نہیں اترے گا۔

یہاں کچھ ذکر اُن دوستوں کا بھی ہو جائے جو گاہے بگاہے ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں، ہمارے یہ دوست مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور انہیں اِس بات کا ملال ہے کہ باقی لکھاری کیوں اِس مسئلے پر آواز نہیں اٹھاتے۔ دراصل جو گلہ ہمارے اِن دوستوں کو لبرل کالم نگاروں سے ہے وہی شکایت آزاد خیال لکھاریوں کو اپنے اِن پیٹی بند بھائیوں سے ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ مذہبی رجحان رکھنے والے کسی لکھاری نے کبھی مندر ڈھائے جانے کے خلاف، ہندو بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب کے خلاف، اسلام کے نام پر جلاؤ گھیراؤ کرنے والی تنظیموں کے خلاف یا مسیحیوں کی عبادت کے لیے مختص جگہ پر قبضے کے خلاف لکھا ہو۔ اسی طرح ہمارے اِن دوستوں میں سے کسی نے اُس اخبار کے خلاف بھی آوازنہیں اٹھائی جس نے کچھ عرصہ پہلے صفحہ اول پر شہ سرخی میں عورت مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین کے خلاف گندی گالی لکھی تھی۔ اور نہ ہی اِن عزیز دوستوں کے قلم نے اُس وقت شعلے اگلے جب ایک مذہبی تنظیم نے پورے شہرکو یرغمال بنا کرمفلوج کر دیا تھا اور پولیس کے جوان شہید کر دیے تھے، ذرا سوچیے کہ یہ کام عورچ مارچ والوں نے کیاہوتا تو ہمارے دوستوں نے اُن کا کیا حال کرنا تھا!ادھر لبرل کالم نگار بھی مذہبی شخصیات کی تعریف کے معاملے میں قدرے کنجوس واقع ہوئے ہیں، پاکستان میں بڑی فلاحی تنظیمیں مذہبی رجحانات رکھنے والے نیک اور صالح لوگ چلا رہے ہیں مگر ہمارے لبرل دوستوں نے شاید ہی کبھی اُن کی تعریف میں دو چار جملے لکھے ہوں۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے اپنے نظریات کے حصار میں قید ہیں، ہمیں وہی بات درست نظر آتی ہے

جو ہمارے لگے بندھے نظریات سے مطابقت رکھتی ہے۔ ایسے ہی اپنے ایک دوست سے جب میں نے متھیرا والے اشتہار کا ذکر کیا تو اُس نے کہا کہ اگر تمہیں وہ اشتہار قابل اعتراض لگا ہے تو اُس پر ضرور لکھنا چاہیے اور ’اپنے لبرل دوستوں کو ناراضی کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ ‘یہ بات چونکہ عزیز دوست نے کی تھی اور دوستوں سے محبت ہوتی ہے سو میں نے بحث نہیں کی اور ’جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا۔ ‘ پہلی مرتبہ مجھے ٹی وی پر ایک اشتہار قابل اعتراض لگا اور میں نے بلا جھجک اور بلا تاخیر اُس پر قلم اٹھایا حالانکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف لکھنا زیادہ ضروری تھا۔ اب گیند مذہبی دانشوروں کے کورٹ میں ہے، دیکھتے ہیں کب وہ اسی شدت کے ساتھ پولیس کے غریب جوانوں کو شہید کرنے والی تنظیم کے لتے لیتے ہیں جس شدت کے ساتھ وہ ہر دوسرے دن عورت مارچ کی خبر لیتے ہیں!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments