رکھنا قدم وادی غربت میں۔۔۔



ایک گھر سے دوسرا گھر ایک شہر سے دوسرا شہر بدلنا تو زندگی کا معمول تھا اور زندگی کا ایک خاصا بن چکا تھا۔ اور ایک عرصے سے خانہ بدوشی والی زندگی گزر رہی تھی۔ لیکن اس دفعہ یہ ہجرت ملک سے دیار غیر کی طرف تھی۔ لہٰذا اب کی بار کام بہت زیادہ اور تھکا دینے والا تھا۔ گھر کی چھوٹی سے بڑی چیز کو ٹھکانے لگانا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ پیار اور محبت سے بنائی جانے والے سامان کو اونے پونے بیچ کر رخت سفر باندھا۔ گھر اور سامان کو چھوڑنا تو ایک آسان کام ہے۔

لیکن اپنے سے منسلک رشتوں کو بڑے سے کارٹن میں پیک کر کے اسٹور میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے دل میں یادوں کو بسا کر سفر کا آغاز کرنا پڑتا ہے۔ کورونا وائرس نے جہاں پر زندگی ہر انداز کو بدل دیا ہے اسی طرح بین الاقوامی پرواز کے لئے بھی کورونا ٹسٹ کو لازم کیا گیا ہے۔ لہٰذا اب ہاتھ میں ٹکٹ اور پاسپورٹ کے علاوہ کورونا ٹیسٹ کا بھی ہونا لازم ہے۔ ہم بھی ہاتھ میں تینوں چیزوں پکڑے ائرپورٹ میں داخل ہوئے۔ سامان کی بکنگ کا مرحلہ با آسانی سر ہو گیا کیوں کہ معمول کا رش نہیں تھا صرف ایک فلائٹ کو روانہ ہونا تھا۔

ہم اپنے ساتھ چھوٹے بچے کو اٹھائے ہوئے تھے اس لئے ہینڈ کیری کو اٹھا کر بیلٹ پر رکھنا مشکل تھا اس کے لئے انتہائی مودب انداز میں ڈیوٹی پہ موجود خاتون کو مدد کے لئے کہا جس نے ٹکا سا جواب دے کر اپنے فرض شناس اور کام سے محبت کا ثبوت دیا۔ ایسی فرض شناسی کا مظاہرہ صرف ہمیں اپنے دیس میں ہی دھکیلنے کو ملا۔ باقی ہر جگہ پر چونکہ ہمارے ساتھ بچے تھے ہمارے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا گیا۔ جیسے ہی ہم ویٹنگ لاؤنج میں پونچھے وہاں پر موجود چند افراد نے بار بار آ کر پوچھنا شروع کر دیا اپ کھانے میں کیا لیں گی؟ ہمارا یہ مینو ہے۔ ہمارے بار بار منع کرنے کے باوجود ان کی مستقل مزاجی قابل تعریف تھی آخر ہم ہارے اور کچھ خریدنے پر مجبور ہو گے۔

سمجھ نہیں آتا اتنی مستقل مزاج قوم ترقی میں اتنا پیچھے کیسے رہ گئی ہے۔ لاؤنج میں انتظار میں بیٹھے لوگوں نے کھانے پینے والی اشیا کے لفافے زمین اور کرسیوں پر پھینکے ہوئے تھے باوجود اس کے کچرا دان جگہ جگہ پر موجود تھے۔ شاید یہ لوگ وطن عزیز کو کچرا دان ہی سمجھتے ہے۔ یہی لوگ جیسے ہی دوسرے ملک میں لینڈ کرتے ہے یہ قانون پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہے۔ ہم چونکہ قطر ایر لائن سے امریکا جا رہے تھے۔ اس لئے ایک گھنٹہ کا قیام ہمارا قطر ائرپورٹ پر تھا۔

قطر ائرپورٹ پر دو پاکستانی بھائیوں نے ہمیں ہمارے مطلوبہ سٹیشن پر پہنچے میں مدد کی۔ اللہ ان کو آخرت میں اجر دے۔ کچھ ہمارے پاکستانی بھائی ایسے مددگار بھی ہوتے ہے۔ ہمارے ساتھ بچے تھے اس لئے ہمیں دوبارہ بورڈنگ کے لئے لائن میں سے نکال کر ہمارا پراسیس فوراً کیا گیا۔ بچوں کی وجہ سے لمبی لائن میں کھڑے ہونے سے ہماری بچت ہو گئی۔ خیر اب ایک لمبی فلائٹ ہماری منتظر تھی۔ جہاز میں زیادہ وقت بچے سوئے رہے جس کی وجہ سے سفر کچھ پرسکون رہا۔

جس کی توقع نہیں تھی۔ آخر کار سولہ گھنٹے کی طویل فلائٹ اختتام پذیر ہوئی اور ہم خیریت سے منزل پر پہنچ گئے۔ لیکن ابھی کام تمام نہیں ہوا تھا۔ امیگریشن کی ایک لمبی قطار تھی۔ تین ہینڈ کیری کے ساتھ قطار میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہنے نے تھکن کو مزید بڑھا دیا۔ اللہ اللہ کر کے امیگریشن سے فارغ ہو کر اپنے سامان کو لینے کے لئے کنویئر کی طرف لپکے۔

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments