او آئی سی: تن مردہ میں جان ڈالنے کی ضرورت


فلسطینیوں پر اسرائیل کے تازہ حملوں نے ایک بار پھر ظلم اور بربریت کی انتہا کردی ہے۔ امت مسلمہ جو اب صرف ایک روحانی تصور تک محدود ہے جب کہ سیاسی تصور کب کا معدوم ہو چکا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا نظریاتی بنیادوں کی بجائے معاشی مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتی نظر آ رہی ہے۔ اسلامی ممالک کے تعلقات کو سیاسی اور معاشی مفادات کے تناظر میں دیکھیں تو یمن میں سعودی جارحیت، ایران سعودیہ کشمکش، سعودی بھارت تعلقات، اسرائیل اور عرب ممالک کے حال ہی میں استوار ہونے والے تعلقات اس کی تازہ مثالیں ہیں۔

یہ سیاسی اور معاشی مفادات ہی ہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب میں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازے جاتے ہیں اور اسلامی کانفرنس تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں بھارتی وزیر خار جہ سشما سوراج کو شرکت کی خصوصی دعوت دی جاتی ہے۔ سیاسی اور معاشی مفادات ہی کی مجبوری ہے کہ مئی 2017 ء میں ریاض میں ”عرب اسلامی کانفرنس“ برپا ہوئی تھی جس کی خاص بات یہ تھی کہ صدر ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا جس کی میزبانی کا ”اعزاز“ بھی اسی کانفرنس کو حاصل ہوا۔ ریاض میں ان کا غیر معمولی استقبال ہوا اور ان کی بیٹی اور داماد کو تحفوں سے بھر دیا گیا۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ایران اور حماس کو دہشت گردی کا نمائندہ قرار دیا اور جواب میں اسرائیل اور بھارت کی چیرہ دستیوں کو سامنے لانے کی بجائے ہمارے مسلم سربراہوں کی زبانیں

گنگ رہیں۔ شاید حسین شہید سہروردی مرحوم نے اسی لیے کہا تھا کہ اسلامی ممالک 0 + 0 + 0 = 0 کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سیاسی اور معاشی مفادات کا ہی کھیل ہے کہ حسب روایت او آئی سی ممالک کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں کشمیر پر بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور مشترکہ اعلامیہ میں ان مظالم کا ذکر گول کر دیا گیا۔ یہ معاشی مفادات ہی تھے کہ چین، روس، برطانیہ اور یورپی یونین نے پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرنے کی بجائے پاکستان اور بھارت کو کشیدگی کم کرنے کی تلقین کی۔ چین جو سی پیک منصوبے کا بانی اور سرخیل ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی درآمدات پر بھاری ڈیوٹی عائد کرنے کے بعد سوا ارب آبادی کے ملک بھارت کے ساتھ تجارتی حجم بڑھا رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کے منصوبوں کی باعث بھارت کی مخالفت سے گریز اختیار کی۔

57 اسلامی ممالک کی اس تنظیم کے قیام اور اجلاسوں کا مقصد ایسا لائحہ عمل تجویز کرنا تھا جس سے مسلم امہ کو اندرونی اور خارجی سطحوں پر درپیش چیلنجوں کا تدارک کیا جاسکے۔ لیکن اپنے قیام سے لے کر آج تک اسلامی دنیا کو اندرونی خلفشار اور غیر اسلامی

ممالک کی جانب سے جن بحرانوں، حملوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ان میں یہ کانفرنس عضو معطل کے طور پر سامنے آئی۔ حالانکہ کانفرنس کے چارٹر میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ ”تمام ارکان اپنے باہمی تنازعات پرامن طریقے سے حل کریں گے اور باہم جنگ سے حتی الامکان گریز کریں گے“ ۔ لیکن عملی طور پر اس کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کے قیام کے بعد پہلا عظیم المیہ اس وقت رونما ہوا جب 1971 ء میں بھارت کی مداخلت سے پاکستان دولخت ہوا۔

1982 ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے، افغانستان میں روسی جارحیت، ایران عراق جنگ، کویت پر عراقی حملہ، عراق پر امریکی جارحیت، عرب بہار کے نام پر خزاں کا راج، سعودیہ ایران اور سعودیہ یمن کشیدگی، ان تمام معاملات پر اسلامی کانفرنس تنظیم کا کردار سوالیہ رہا ہے۔ سوائے قرار دادیں منظور کرنے کے کوئی بھی عملی قدم مسلم ممالک کو درپیش تنازعات کے لیے نہیں اٹھایا گیا۔ اسی طرح ستر کی دہائی میں مصر۔ لیبیا، سوڈان لیبیا کے تنازعات میں بھی او آئی سی کا کردار ایک تماشائی کا رہا ہے۔

تنازعات کے خاتمے میں او آئی سی کے خاموش تماشائی کا تاثر اسی کی دہائی میں ہونے والی عراق ایران جنگ نے مزید پختہ کر دیا۔ چند سالوں سے شام میں ایران کی حمایت او ر سعودی مخالفت نے مسلم امہ کے فرقہ وارانہ اختلافات بھی کھل کر دنیا کے سامنے آ گئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے دو سلگتے ہوئے مسائل ہیں لیکن او آئی سی ان مسائل کو حل کرنا تو دور کی بات بین الاقوامی برادری کو بھی کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم کے خلاف اپنا ہم نوا نہیں بنا سکی ہے۔ اسی طرح ایران کو جس طرح تنہا کیا جا رہا ہے اور اس پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اس کے تدارک میں او آئی سی ناکام دکھائی دیتی ہے۔

او آئی سی کے کامیاب نہ ہونے کی بنیادی وجہ ارکان کے مابین اعتماد اور دور اندیشی کا فقدان ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے باہمی تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے قیام کے تقریباً آٹھ سال بعد 1977 ء میں لیبیا میں منعقد ہونے والے آٹھویں اجلاس میں شام، ایران اور سوڈان نے میزبان ملک لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باعث شرکت نہیں کی تھی۔

او آئی سی کے موثر نہ ہونے کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ اب تک تنازعات کے خاتمے کے لیے ٹریک ون ڈپلومیسی کو اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ ٹریک ون سفارت کاری میں اس طریقہ کار کو کہا جاتا ہے جس میں دو ملکوں کے درمیان روابط کو باضابطہ سرکاری طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ سفارت کاری کے ماہرین اور تجزیہ نگار تنازعات کے حل کے لیے او آئی سی کے لیے ٹریک ون ڈپلومیسی کے ساتھ ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی اختیار کرنے کی تجویز بھی دیتے ہیں۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں غیر سرکاری طور پر ممالک کے دوران روابط اور ڈائیلاگ کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو اختیار کرنے سے او آئی سی ممالک کے مذہبی رہنما، رائے عامہ ہموار کرنے والے لکھاری، دانشور اور سول سوسائٹی تنازعات حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments