نوع انسانی کی شدید تر ہوتی امن عالم کو خواہش


تہذیب کے معنی و مفہوم میں ایسی تخلیقات شامل ہیں جن کو کوئی مقصد ہو۔ جو سماجی اقدار کا ایسا نظام ترتیب دیں جس سے معاشرے کے رویے میں تبدیلی آئے۔ کسی بھی معاشرے کی زندگی کے طریقے اور فکر و احساس کی اصل ہی انسان کو مہذب بناتی ہے۔ آلات و اوزار، پیداواری طریقے، سماج کے رشتے ناتے، رہن سہن کا انداز، فنون لطیفہ، عشق و محبت کے وظائف اور طرز عمل، ایک خاندان کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہی کسی تہذیب کو مفہوم عطا کرتے ہیں۔

مغربی دنیا خود کو بہت مہذب تصور کرتی ہے اور ایسا دکھتا ہے ہے کہ ان کی ذہنی صحت عمومی معیار سے بہت بلند ہے۔ ذہنی امراض کا تصور کرنا نا ممکن سا لگتا ہے۔ کیا واقعی مغرب کی تہذیب ایسی ہے کہ وہاں انسانی زندگی کا معیار بہت بلند ہو گیا ہے۔ گزشتہ سالوں کے اندر مغرب نے اپنے استعماری ایجنڈے کے ذریعے سے بہت دولت پیدا کر لی ہے۔ ان کے پاس دولت کی فراوانی ہو گئی ہے اتنی بڑی دولت کی مقدار کسی اور معاشرے میں وجود نہیں رکھتی۔

لیکن دولت کی فراوانی کے باوجود کیا وہ تہذیبی رویوں کو اپنے ذات میں سمو لیے ہیں کہ انسانیت کو ان کی زندگی ایک مثالی حیثیت سے دکھائی دینے لگے۔ لیکن غور کیا جائے تو یہ ایک دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں کو قتل کیا گیا۔ اور اس قتل کرنے کا عنوان ’جنگ‘ ہے۔ جنگ کی بنیاد نظریہ تھا۔ 1870 ء، 1914 ء اور 1939 ء میں بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ اس نے انسانیت کو تہ تیغ کرنے کے سوا کوئی انسانیت کی خدمت نہیں کی۔

اس جنگ میں شریک ہونے والوں کو یقین واثق تھا کہ وہ انسانیت کے لیے خدمات بجا لا رہے ہیں۔ اپنی ان جنگوں کے ذریعہ وہ دنیا کو ایسے لوگوں سے بچا رہے ہیں جو شرپسند ہے۔ جن کا نظریہ زندگی انتشار پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انھیں لگتا تھا وہ اپنے دفاع کے لیے لڑ رہے ہیں۔ وہ انسانیت کو محفوظ بنا رہے ہیں۔ انھیں لگتا تھا کہ وہ انسانیت کے وقار، اس کی عظمت اور سر بلندی کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ یا پھر شاید اپنے خدا کو خوش کرنے کے لیے جنگ کے نام پر قتل و غارت کی جار ہی تھی۔

یہ مقدس جنگ لڑنے والے یا یوں کہیں انسانیت کے تحفظ کی جنگ لڑنے والے دراصل جس گروہ کے ساتھ بر سر پیکار ہوئے انھیں اس قدر ظالم اور نامعقول سمجھا جاتا تھا کہ ان کو اگر دنیا سے ختم نہ کیا گیا تو دنیا نیست و نابود ہو جائے گی۔ ان کو ایک بدی تصور کیا جاتا اور اس بدی سے انسانیت کو بچانا ان پر فرض ہے۔ لیکن المیہ اس وقت اور شدید ہو جاتا ہے جب باہمی قتل و غارت گری کے بعد کچھ عرصہ میں ہی ان کی دوستی پروان چڑھنے لگتی ہے۔

آج کا دشمن کل دوست بن جاتا ہے۔ لیکن انسانیت نئے بلاک بنا کر ایک دفعہ پھر سیاہ و سفید رنگوں کی تمیز میں الجھ پڑتی ہے۔ مزید یہ کہ سائنس جہاں طب اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ترقی کر کے انسانیت کو فوائد سے نواز رہی ہے وہاں ایسے ہتھیار، آلات و اوزار بھی انسانیت کو عطا کرتی جا رہی ہے جو چشم زدن میں انسانیت کو اس دنیا سے نیست و نابود کر سکتی ہے۔ سائنس کی یہ عظیم دریافتیں کی انسان کی عظمت کو خاک میں نہیں ملا رہی ہیں۔

انسانیت کا امن عالم کا پیغام اور بھائی چارے کی خواہش کو کس درجے میں رکھا جائے جبکہ انسان اپنے ہاتھوں سے ایسے آلات بنائے جا رہا ہے جو اس کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ اجنبی ستاروں کی مخلوق تو شاید کبھی اس زمین کی تلاش اور کھوج میں کامیاب نہ ہو پائیں لیکن انسانیت خود اپنی ہستی کو نیستی میں بدلنے کا سامان کیے جا رہی ہے اور روز بروز اس میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور انسانیت سیکورٹی اور تحفظ کے نام پر ہتھیاروں کا ذخیرہ کرتی جاتی ہے جو کہ کسی بھی وقت انسانیت کو اپنے ساتھ دفن کر دے گا۔

ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی ہے
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ

نوع انسانی عالمی سیاست و سیادت کے رہنماؤں کی جانب دیکھ رہی ہے۔ نوع انسانی کی یہ خواہش شدید تر ہوتی جا رہی ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو۔ ایسی زندگی جو خوف سے لبریز ہے اس زندگی سے وہ تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اب انسانیت چاہتی ہے کہ جنگوں کی بجائے غربت و افلاس اور جہالت کو ختم کرنے کے لیے پروجیکٹس کا آغاز ہو۔ اچھی زندگی جینے کی تمنا لیے لوگ دنیائے سیاست کے نمائندوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر دنیائے سیاست ان کے ان جذبوں کی قدر کرے اور امن عالم کو یقینی بنائے میں اپنا کردار ادا کرے تو لوگ ان کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائیں گے۔

لیکن دنیائے سیاست نوع انسانی کی اس خواہش کا صحیح ادراک نہی کر پا رہی۔ لیکن کیا کیجئے دنیائے سیاست ہی جنگ کا باعث بنتی رہی اور امن عالم میں رکاوٹ پیدا کرتی رہے ہے۔ عام طور پر وہ اپنے بڑے عزائم کی بجائے ان امور کی غیر معقول بد سلیقگی کے باعث جنگ کا موجب بن جاتے ہیں جو ان کے سپرد کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر چربولیز آٹھ سو ایسے معاہدوں کا ذکر کرتے ہیں جو امن عالم قائم کرنے کے لیے کے گئے۔ ہر معاہدہ کرتے وقت یہی فرض کر لیا جاتا تھا کہ اب نوع انسانی امن عالم کا آفتاب روشن دیکھے گی۔

لیکن افسوس کہ ان معاہدوں کی عمر دو سال سے زیادہ کی نہیں ہے۔ اپنی عمر کے پورا ہوتے ہی وہ اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ انسانیت کو پھر نئے سرے سے امن کی بیٹھک سجانی پڑتی ہے۔ لیکن آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نوع انسانی ایسے معاہدات اور اصول وضع کرے جو انسانیت کو بلا رنگ و نسل اور مذہب و نظریہ کی تفریق کے اچھی زندگی گزارنے کا موقع دے۔ دنیا میں امن پیدا کرے۔ جغرافیائی، مذہبی، سیاسی، معاشی، سیاسی، ثقافتی، تہذیبی تفریق انسان کو قعر مذلت میں نہ ڈالیں۔ بلکہ ان تفریق میں سے ہی ایسے اصول وضع کیے جائیں جو انسانوں میں اعتدال پیدا کریں۔ ان میں برداشت کی آبیاری کریں تا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments