سوچ کے دو مختلف پہلو


جیسا کہ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ ہر تصویر کے دو مختلف پہلو ہوتے ہیں اور ہر بندہ ایک ہی تصویر کو مختلف زاویہ سے دیکھتا ہے بالکل اسی طرح ہماری سوچ کے بھی دو منفرد پہلو ہوتے ہیں۔ جن کو مثبت اور منفی کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالٰی نے ہم تمام انسانوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے بلکہ منفرد صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔ اسی طرح ہر بندے کی سوچ مختلف ہے چیزوں کو دیکھنے ’پرکھنے کے ساتھ ساتھ انداز فکر بھی مختلف ہے۔

ہماری سوچ کا دار و مدار حالات اور ماضی کے واقعات اور تجربات پر ہوتا ہے۔ اگر ہمارا ماضی کانٹوں اور پر خار جھاڑیوں سے بھرا ہوا ہے تو ہمارا حال بھی اسی کی طرح تار تار ہو گا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ماضی میں رہنا نہیں بلکہ اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور کی گئی غلطی کو دہرانا نہیں چاہیے یہی عقلمندی کا ثبوت ہے۔

ہماری زندگیوں میں ہماری سوچ ’خیالات اور عمل کا کافی عمل دخل ہوتا ہے۔ سوچ سے ہی عمل بنتا ہے۔
بقول شیکسپیئر ”ہم وہ نہیں ہوتے جو کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتے ہیں جو ہم سوچتے ہیں“

ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں وہ زندگی میں کچھ نہ کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے یا کسی مقام تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اگر وہ یہ سوچ لے کہ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں مجھے اپنی صلاحیتوں پر اور اپنے اللہ پر پورا بھروسا ہے تو وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے گا ہاں دیر سویر ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ یہ سوچے کہ میں یہ کام کر ہی نہیں سکتا یا یہ میرے بس کی بات ہی نہیں یا کام شروع کرنے سے پہلے ہی ناکامی کا ڈر اپنے دل میں پال لے تو وہ پہلا قدم بھی نہیں اٹھا پائے گا اور قدم اٹھا بھی لے تو اس کے اندر کا خوف اس کو ناکامی کی طرف ہی لے کر جائے گا۔

جب ہم اچھا یا مثبت سوچتے ہیں اور صحیح سمت میں محنت کرتے ہیں تب کائنات کا خالق بھی مدد کرتا ہے اور کی گئی محنت کو ضائع نہیں جانے دیتا۔

ہماری مثبت اور اچھی سوچ ہی ہے جو ہمیں کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ جبکہ بری ’منفی یا مطلبی سوچ ہمیشہ ناکامی اور بے سکونی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔

سوچ کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے یہ مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کون سی سوچ کو اپناتے ہیں اور آنے والی منفی سوچ کو کس طرح مثبت پہلو کی طرف موڑتے ہیں۔ ہماری سوچوں پر ہمارا پورا پورا اختیار ہوتا ہے ہم ان کا رخ اپنی قوت ارادی ’مستقل مزاجی اور سب سے بڑھ کر اللہ پر قوی یقین ہونے کی بدولت موڑ سکتے ہیں۔

اب ضروری نہیں کہ ایک سوچ آئی اور ہم اس پر عمل درآمد شروع کر دیں۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ ہم اس سوچ پر کام کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ کیا کیا پہلو ہو سکتے ہیں ’اس کام کے رستے میں آنے والی کیا کیا رکاوٹیں ہو سکتی ہیں‘ ہمارے اس عمل سے کسی کو نقصان تو نہیں ہو گا؟ جب ہم ساری ورکنگ کر لیتے ہیں پھر ہم اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیں اس سفر میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوں لیکن تجربہ ضرور ہو جاتا ہے اور آگے بڑھنے کی ہمت بھی مل جاتی ہے۔

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہوتا نہیں ہے اور کئی بار ہمیں اپنی سوچ کو اپنی کی گئی منصوبہ بندی کو وقت اور حالات کے مطابق بدل بھی دیتے ہیں یا اس میں تبدیلیاں لے کر آتے ہیں۔ ہم میں اتنی لچک ’ہمت و حوصلہ ہونا چاہیے کہ ہم آنے والی تبدیلیوں کو خوش آمدید کہہ سکیں۔

کسی مشکل کو سہنے اور بڑے فیصلے کرنے کی ہمت بھی تبھی آتی ہے جب ہم کچھ کرتے ہیں۔ زندگی میں فیصلے لیتے ہیں ’ان فیصلوں پر قائم رہتے ہیں استقامت اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نقصانات کو برداشت کرتے ہیں اور کی گئی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔

مشکلات ’پریشانیاں اور مصائب زندگی کا حسن ہوتے ہیں جو اپنی سوچ پر کام کر کے اپنے اعصاب پر قابو پا لیتے ہیں وہ زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنا لیتے ہیں۔ ہر اندھیری رات کے بعد روشن صبح کا اجالا پھیلتا ہے اسی طرح ایک در بند ہونے کے بعد نیا اور بہتر در کھل جاتا ہے۔

اکثر ہم نقصان سے دل برداشتہ ہو کر سب چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں یہ عمل سراسر غلط ہے۔ ہمیں ہمارے تجربات ہی سکھاتے ہیں اور یہ چھوٹی چھوٹی ناکامیاں ہمیں ہمارے بڑے مقصد کے قریب کرتی ہیں۔ صرف سوچ کو بدلنے سے سارا منظر بدل جاتا ہے۔

بقول مائیکل جورڈن ”میں زندگی میں ہارا ’پھر ہارا اور ہارا تبھی جا کر جیت کا مزہ پایا“

سارا کھیل ہی سوچ کا ہے۔ ہمارے اردگرد کے لوگ اور ماحول اس سوچ کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک سادہ سی مثال ہے جب استاد یا ماں بچے کو کہتے ہیں کہ ہاں تم یہ کر سکتے ہو تو بچے کے اندر یہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ کر سکتا ہے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ لہٰذا لفظوں کا استعمال بھی انتہائی اہم ہے یہ کسی کو کامیابی کی طرف بھی لے جاتے ہیں اور ناکامی کی طرف بھی۔

سوچ سے خیال ’خیال سے نظریہ‘ نظریہ سے مقصد ’مقصد سے تحریک‘ تحریک سے جستجو اور جستجو سے کامیابی ملتی ہے۔ یہ سوچ ہی ہے جو ہمارے جذبات و کردار کی آبیاری کرتی ہے لہٰذا اس پر سب سے زیادہ کام کی ضرورت ہے۔

نورمن ونسٹ پیل کہتے ہیں کہ ”اپنی سوچ بدلیے ’آپ کی دنیا بدل جائے گی“

ہمیں اپنی سوچ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ”ہمارے اندر بڑا کھدڑ پھوس جمع ہو جاتا ہے جس کی صفائی بہت ضروری ہوتی ہے اس کے لئے اپنے وجود کی تلاوت کرنی چاہیے مطلب اپنے وجود کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے۔ خود کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ خواہش تو کریں کہ ہم ٹھیک ہو جائیں تو اس سے بھی بڑا فرق پڑ جاتا ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments