اپنی تاریخ سے خوفزدہ ہم الباکستانی


حال ہی میں ہم سب پر ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں مضمون نگار نے تاریخ میں موجود ابہام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا اور صاحب علم لوگوں کو دعوت فکر دیتے ہوئے چند سوالات پیش کیے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاتا اور ان صاحب کی تصحیح کی جاتی لیکن ہوا وہی جو آج کل ہمارے معاشرے کا خاصا بن چکا ہے۔ ایک طرف جہاں مصنف کو تجدید ایمان کی صلاح دی گئی تو دوسری طرف ان کے ایمان کو محمد بن قاسم کے زور بازو کا مرہون منت گردانا گیا۔ پہلی بار کمنٹس پڑھ کے ہم پے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اسلام اصل میں محمد بن قاسم اور ان کے ہمعصروں نے تلوار کے زور پہ پھیلایا ورنہ ہم تو آج تک اس کے الٹ ہی سمجھتے رہے تھے۔

آئیے اس مرد مجاہد کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، عبدالملک بن مروان کے زمانہ خلافت 75 ہجری میں حجاج بن یوسف کو مشرقی ریاستوں کا حاکم اعلیٰ متعین کیا گیا۔ حجاج بن یوسف نے اپنے ہی ثقفی خاندان کے قاسم نامی شخص کو بصرہ کا گورنر بنایا۔ ولید بن عبدالملک کے دور میں جب حجاج ہی عراق کا گورنر تھا اور محمد بن قاسم کی عمر پندرہ سال تھی، اس وقت پہلی مرتبہ 708 ء میں قاسم ہی کے بیٹے محمد بن قاسم کو ایران میں کردوں کے خلاف سپہ سالار بنایا گیا۔ سترہ سال کی عمر میں محمد بن قاسم کو شیراز کی گورنری سونپی گئی۔

مشہور مفسر قرآن، فقہہ اور تاریخ دان ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید المعروف الطبری نے محمد بن قاسم سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب تاریخ طبری میں یوں لکھا ہے کہ ”حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن سعد عوفی (تابعی) کو طلب کر کے ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے ان کو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علی پر سب و شتم کریں۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے۔ اس واقعے کے بعد وہ خراسان چلے گئے۔ وہ حدیث کے ثقہ راوی ہیں“ ۔

سندھ کے حوالے سے سب سے اوائلی تاریخ چچ نامہ ہے۔ چچ نامہ قاضی محمد اسماعیل بن علی کی تالیف ہے، جو سندھ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم کی طرف سے اروڑ کے قاضی مقرر کیے گئے تھے۔

چچ نامہ کے مطابق محمد علافی عمان سے بھاگ کر اپنے پانچ سو ساتھیوں کے ہمراہ مکران میں پہنچا، جہاں راجا داہر کی حکومت تھی۔ راجا داہر راجا چچ کے سب سے چھوٹے بیٹے اور کشمیری برہمن خاندان کے آخری حکمران تھے، انہوں نے ان لوگوں کو پناہ دی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ سلطنت کے باغی ( اموی سلطنت کے مظالم سے بھاگنے والے لوگ خصوصاً خاندان رسولﷺ کے چاہنے والے ) اس خطے میں روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔ چنانچہ حجاج نے 93 ہ میں محمد بن قاسم کو ایران سے ہندوستان پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا۔ محمد بن قاسم نے حملہ کیا، چچ نامہ کے مطابق راجہ داہر دس دن تک دیدہ دلیری سے لڑا، لیکن 10 رمضان 93 ہ ( 712 ء) کو دسویں روز لڑتے لڑتے مارا گیا۔

تاریخ طبری کے متابک عتیہ بن سعود والے واقعہ کے بعد عمان میں معاویہ بن حارث علافی اور ان کے بھائی محمد بن حارث علافی نے امویوں کے خلاف علم بلند کیا تھا اور عمان کا گورنر اس کے نتیجے میں مارا گیا تھا۔

اسکے بعد اپنے 500 ساتھیوں معہ اہل وہ اعیال راجہ دہر کی امان میں آیا تھا۔ جو فتح سندھ کے اسباب میں سے اہم سبب تھا (نہ کہ تبلیغ اسلام) ۔

رہی بات سندھ کو باب الاسلام بنانے کی تو سندھ پے حملوں کی داغ بیل خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ کے دور خلافت سے ہی پڑ چکی تھی۔ خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے دور خلافت میں الحاکم جبالاح الاعبدی نے مکران تک فتوحات کا سلسلہ بڑھایا تھا۔ اسی سے متاثر ہو کر کئی جاٹ ہندوں نے نا صرف اسلام قبول کیا بلکہ حضرت علی کی طرف سے جنگ جمل میں بھی حصہ لیا اور 40 ہجری تک سندھ کا اہم شہر مکران اموی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔

اسی حوالے سے بلاذری اپنی تصنیف ”فتوح البلدان“ میں پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے کئی دہائیاں قبل مسلمانوں کے قدم برصغیر پاک و ہند کے بقیہ حصوں میں پڑ چکے تھے۔

کیا خوب لکھا ہے ایک قلمکار علی زین نے ”کہ تکنیکی طور پر پاکستان کو عرب دنیا سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ان کی بیٹیوں کے اغوا پر معافی مانگے، مگر عجیب بات ہے کہ بیٹیوں کے اغوا کار کو ہیرو بنایا جا رہا ہے، عرب دنیا کو چاہیے کہ وہ بنو امیہ کے جرائم کے خلاف ڈٹ کر عرب بیٹیوں کی حفاظت کرنے والے راجہ داہر کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پاکستان سے اظہار تشکر کرے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments