ہائے! صحافت اور صحافی


صحافت عربی زبان کا لفظ بتایا جاتا ہے جو صحف اور صحیفہ سے اخذ کیا گیا ہے، جس کی لغوی معنیٰ کتاب، جریدہ یا رسالہ بتائی جاتی ہے۔ اس کا مفہوم یوں بیان کیا جاتا ہے کہ کسی بھی معاملے کی بغور تحقیق کے بعد ایمانداری سے بغیر کسی اضافی چٹ پٹاخ اور چاشنی کے شایع کیا جائے۔ یہ تو ہو گئی صحافت کی لغوی معنیٰ اور مفہوم اب تھوڑا آگے بڑھتے ہیں۔

ہائے، وہ بھی کیا صحافت تھی جب مولوی محمد باقر دہلوی جنہوں نے 1836 میں پہلا ہفت روزہ اردو اخبار نکالا، انہیں انگریزوں نے توپ سے باندھ کر مار دیا لیکن وہ صحافتی اصولوں اور سچ کا سوداگر نہ ہوا۔ اور ان کی تربیت تو ملاحظہ فرمائیے کہ مولوی محمد باقر دہلوی کا بیٹا بھی صحافی بنا اور وہ بھی سدا انگریزوں کے نشانے پر رہا۔

دور حاضر میں رواں صحافت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ بھی کیا تین مدہ خارج صحافی ہوں گے، جنہیں سر بلندی اسلام کے لئے ملک پر دھاک جمانے والے جنرل ضیاء الحق نے کوڑے رسید کروائے۔

یہ تو تھی ’ان‘ دنوں کی بات اب ’ان‘ دنوں کی صحافت پر نظر ڈالیں تو کچھ عرصہ قبل کہیں پڑھا تھا کہ ’پاکستان میں کسی کو بھی شعبہ صحافت میں قدم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ محض اسے یہ خیال آ جائے کہ اسے صحافی بن جانا چاہیے‘ ۔

ابھی بیٹھ کر اردگرد کے حالات کا جائزہ لے رہا تھا تو یہ فقرہ کافی معقول سا معلوم ہوا۔

نہ جانے اس خیال میں کون سی کشش اور جادہ سمایا ہوا ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ تھوڑی دیر پہلا اچھا بھلا چلتا پھرتا شخص اب باقاعدہ سے صحافی بن چکا ہوتا ہے۔ اور کسی نکڑ پر کیبن لگائے شخص اسے آواز دے کر کہتا ہوتا ہے کہ اوئے! یہ ساتھ والے گھر میں پھڈا پڑ گیا ہے، ذرا خبر تو لینا۔

ان حالات میں اگر ’بابائے صحافت‘ ظفر علی خان ہوتے تو وہ احتجاجاً ’بابائے صحافت‘ کا خطاب ہی واپس کر دیتے۔

وکیل کو وکالت کے لئے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنی پڑتی اور پھر بار کا لائسنس درکار ہوتا ہے تب جاکر وہ وکالت کے قابل بنتا ہے۔ انجینئر کو انجنیئرنگ کی ڈگری اور اسی طرح ڈاکٹر کو متعلقہ ڈگری درکار ہوتی ہے۔ لیکن صحافی بننے کے لئے کیا ضروریات درکار ہیں؟

ملک کے بڑے بڑے صحافی حضرات خود یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے پاس ڈاکٹر کی ڈگری ہے یا ان نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، صحافت میں تو بس شوق تھا اس وجہ سے کود پڑے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ بھائی، صحافی بننے کا اتنا ہی شوق تھا تو صحافت کی ہی تعلیم حاصل کرتے نا۔

اگر بات کریں چھوٹے شہروں، دیہاتوں اور قصبوں کی تو یہاں پر حالات اور بھی زیادہ منہ چڑاتے ہیں۔ یہاں پر صحافی بننا محض سمارٹ فون سے مشروط ہے۔ جس کے ہتھے سمارٹ فون لگ گیا وہ ایک دم سے صحافت کے میدان عمل میں سرگرم دکھائی دیتا ہے۔ تعلیم، تجربے، مہارت کے کسی معیار کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ بعض صحافی تو صحافت کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کی ملازم بھی ہوتے ہیں۔

اور تو اور یہ خودساختہ صحافی صحافت کے اصول جاننے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔ کئی صحافی، صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹی کے عہدیدار ہونے کے بھی فرائض سرانجام دیتے رہتے ہیں اور یوں صحافت کے اصولوں کو بے قدری سے کچلا جاتا ہے۔

موضوع کی مناسبت سے یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ ہمارے ہاں متعدد ادیب مختلف اخبارات میں کالم لکھتے رہتے ہیں اور انہیں بھی صحافی مانا جاتا ہے۔ حالانکہ کالم لکھنے سے کوئی صحافی ہرگز نہیں بنتا۔ ادیب اور صحافی میں فرق ہے۔ لیکن، یہ صاحب خود کو صحافی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ڈھیرہا ادیب جنہوں نے صحافت کی تعلیم بھی حاصل نہیں کی وہ بھی ہمارے نوجوان صحافیوں کو صحافت پر لیکچرز دیتے نظر آتے ہیں۔ کہیں پڑھا تھا کہ کالم کسی بھی طرح سے ادب کی صنف نہیں ہے۔ تو اس بات سے ان صاحبان کی صحافت سے آشنائی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

میرا ان خودساختہ صحافیوں اور ادیبوں سے ایک معصومانہ عرض ہے کہ برائے مہربانی آپ کو جن چیزوں کا علم نہیں اس میں مت کودیں۔ آپ لوگ ہر کام میں ماہر نہیں ہوسکتے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ ہاں آپ نے تاریخ پر بے تحاشا کتب پڑھیں ہوں گی، تاریخ کے بارے میں آپ سے زیادہ کسی کو علم نہیں ہوگا، آپ کو ادب کا بڑا پتا ہوگا، حالات حاضرہ سے اچھے طرح واقف ہوں گے، بین الاقوامی امور پر آپ کی کڑی نظر ہوگی، آپ لکھتے اچھا ہوں گے، پڑھتے اچھا ہوں گے، بولنے میں تو واللہ! لیکن، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ آپ صحافی ہی کہلانا شروع کردیں۔ اگر آپ کو صحافی کہلانا اتنا ہی پسند ہے تو صحافت کی ڈگری ہی حاصل کرلیتے۔ آپ جن چیزوں میں ماہر ہے وہاں جا کر اپنی توانائی صرف کریں تاکہ اس ملک و قوم کا کوئی فائدہ بھی ہو سکے۔ خدارا صحافت پر رحم کریں۔

مقامی و قومی سطح پر صحافت کے یہ حالات نئے آنے والے ڈگری یافتہ یا زیرتعلیم نوجوان صحافیوں کے لئے مایوسی کا سبب بن رہے ہیں۔ بعض لوگ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی مانتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے صحافت کا ایک معیار مقرر کرے اور اس کے لئے واضح اور جامع پالیسی مرتب کرے تاکہ ریاست کے اس چوتھے ستون کو مزید کمزور ہونے سے بچایا جائے اور صحافت کی بدولت لوگوں کے حقیقی مسائل اجاگر ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments