کیونکہ وائرس ووٹر نہیں ہوتا


ایک ایسے وقت جب بھارت کوویڈ متاثرین کی شکل میں امریکا اور برازیل جیسے سب سے زیادہ متاثر ممالک کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے، خود نریندر مودی کو اپنے ماہانہ ریڈیو خطاب میں اعتراف کرنا پڑ گیا ہے کہ یہ وہ بحران ہے جس نے بھارت کو ہلا ڈالا ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دنیا سے ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے۔ امریکا ، جرمنی اور فرانس نے مہارت اور آلات کی شکل میں فوری مدد پہنچانے کی حامی بھری ہے۔ مگر مصیبت کی اس گھڑی میں بھی کوویڈ تعصبات کو ہلاک کرنے میں ناکام ہے۔

عالمی طاقتوں میں سب سے پہلے چین نے گزشتہ ہفتے اپنے سب سے بڑے ہمسائے کی اپیل سے بھی پہلے مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کھلے الفاظ میں کہا کہ ہم حکومتِ بھارت کی اس کڑے وقت میں ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ پاکستانی کی فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن اور پھر حکومتِ پاکستان نے مدد کی پیش کش کی مگر تاحال مودی حکومت نے شکریہ تو درکنار پاکستان اور بھارت کی جانب سے مدد کی پیش کش کا رسمی شکریہ تک ادا کرنا گوارا نہیں کیا۔

ایک ایسے وقت جب بھارت کی دردناک تصاویر عالمی میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ مودی حکومت کو اس بحران سے تیزی سے نمٹنے کے بجائے اپنے امیج کی کہیں فکر پڑی ہوئی ہے۔ آج بھی اسے اتنی فرصت ہے کہ اس نے ٹویٹر کو کوویڈ سے متعلق سرکاری حکمتِ عملی پر تنقید کرنے والے ایک سو اکاؤنٹس کو بند کرنے کے لیے قانونی نوٹس بھجوایا ہے۔

بجائے یہ کہ آر ایس ایس اپنے تیس لاکھ سے زائد کارسیوکوں ( رضا کاروں ) کو آکسیجن کی فراہمی کی پہرے داری اور لوگوں کی شہر شہر مدد کے لیے متحرک کرتی، اس کی قیادت کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ کہیں اس وبا کی سنگینی کی آڑ میں ملک کے اندرونی و بیرونی دشمن بھارت کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی کارروائی نہ کر ڈالیں۔

کل میں بھارت کے سرکردہ صحافی اور دی پرنٹ کے ایڈیٹر شیکھر گپتا کا ایک تجزیہ پڑھ رہا تھا۔ ان کے بقول ’’ ہم سب واقف ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ، جے بولسنارو ( برازیل کے صدر )، نیتن یاہو یا نریندر مودی جیسے طاقتور کہلانے کی شوقین شخصیات میں ایک بنیادی قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان کی پوری توجہ اپنے ووٹ بینک کو یکجا رکھنے پر ہوتی ہے۔ مضبوط لیڈر کی آج کل ایک نشانی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ وہ کبھی اپنی ناکامی یا چھوٹی سے چھوٹی کمزوری کا اعتراف نہیں کرتا، بھلے اس کے آس پاس کی دنیا اینٹ اینٹ بکھر رہی ہو۔

اس کے بارے میں تاثر ابھارا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کے سامنے پلک نہیں جھپکتا۔ ووٹ بینک انھی خوبیوں کے سبب اپنے لیڈر پر لٹو رہتا ہے۔ ووٹ بینک تصور ہی نہیں کر سکتا کہ اس کے لیڈر کے منہ سے کبھی ایسے فقرے نکلیں گے جیسے ’’معافی چاہتا ہوں دوستو! میں اس صورتحال کو غلط سمجھا ‘‘۔ غلطی کے اعتراف کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ بھی کسی دوسرے انسان کی طرح خطا کے پتلے ہیں۔ آپ بھی دیوتا یا اوتار نہیں ہیں۔ آپ سے تو ہماری ہمیشہ یہی توقع رہے گی کہ آپ مٹی کو بھی چھو لیں تو وہ سونا بن جائے۔ آپ کا ہر قدم ماسٹرا سٹروک ہو اور جس کام میں بھی ہاتھ ڈالیں اس میں کامیابی آپ کے پاؤں چھوتے ہوئے پیچھے پیچھے چلے۔

مگر گزشتہ ہفتے پہلی بار ایسا لگا کہ ’’ناقابلِ تسخیر قیادت’’ کے بھی تھوڑے بہت ہاتھ پاؤں پھولے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اس آفت سے نپٹنے کے لیے ویکسینیشن میں تیزی لانے سمیت مودی جی کے نام اپنے خط میں جو بھی تجاویز دیں، لگتا ہے حکومت اعتراف کیے بغیر ان پر عمل درآمد کرنے پر خود کو مجبور پا رہی ہے۔ وزیرِ اعظم نے عین آخری دن بادلِ نخواستہ اعلان کیا کہ وہ مغربی بنگال کی انتخابی مہم میں آخری بڑے جلسے سے خطاب کرنے نہیں جا رہے۔ مگر مودی بھگتوں کو اب بھی امید ہے کہ جیسے ہی مغربی بنگال کے ریاستی انتخابات میں اگلے ہفتے بی جے پی کی کامیابی کا گجر بجے گا، بھارت واسی کوویڈ شوویڈ بھول بھال کر پھر سے نریندر مودی بھائی کی شاندار شخصیت کے سحر میں مبتلا ہو جائیں گے اور اس کامیابی کے شور میں کوویڈ ہاتھ سے نکلنے کا غل غپاڑہ کہیں دب دبا جائے گا۔

مشکل یہ ہے کہ دنیا کے بہترین سائنسی دماغ آج بھی کوویڈ کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں کچھ دماغ ہیں جو بہت پہلے ہی معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں۔ پر کیا کیا جائے کہ یہ کم بخت وائرس ووٹر نہیں ہوتا۔ نہ ہی اسے پرواہ ہے کہ کون ہارا کون جیتا۔ اسے انسانوں کی طرح تقسیم بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا کام تو سیاسی و مذہبی عقائد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بس تکلیف، بیماری اور موت پھیلانا ہے۔ اس نے حال ہی میں امریکا ، برازیل اور برطانیہ جیسے ممالک کی قیادت کے حد سے زیادہ اعتماد کو بھی پارہ پارہ کر دیا اور اب بھارت کی باری ہے۔

کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے لیڈر (مودی) نے جنوری میں ڈیوس میں ہونے والے عالمی اکنامک فورم کے اجلاس میں چھپن انچ کا سینہ پھلاتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ ’’جب کوویڈ شروع ہوا تو دنیا بھارت کے بارے میں پریشان ہونے لگی کہ کوویڈ کا سونامی ٹکرانے والا ہے۔ سات سو سے آٹھ سو ملین بھارتی اس سے متاثر ہوں گے اور بیس لاکھ سے زائد اموات ہوں گی۔ مگر بھارت نے نہ صرف ایسا ہونے نہیں دیا بلکہ دنیا کو بھی ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔ ہم نے اپنی صلاحیتوں کو بلا تاخیر بڑھایا۔ ملک میں دنیا کا سب سے بڑا ویکسینشن پروگرام شروع کیا۔ دو میڈ ان انڈیا ویکسینز تیار کی گئیں اور باقی تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔ اور اب بھارت اس قابل ہے کہ وہ ان ویکسینز کی برآمد کے ذریعے باقی دنیا کی مدد کر سکے‘‘۔

پھر فروری میں بی جے پی کی ایگزیکٹو کے اجلاس میں ایک قرار داد کے ذریعے کوویڈ پر فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ ہمیں فخر ہے بھارت نے نہ صرف نریندر مودی کی فعال اور ویژنری قیادت تلے کوویڈ کو شکست دی بلکہ ہر بھارتی کو یہ اعتماد بخشا کہ ایک خودکفیل بھارت کی تعمیر ممکن ہے۔ پارٹی بھارت کو دنیا کے سامنے کوویڈ کو شکست دینے والی قوم کے طور پر پیش کرنے پر اپنی قیادت کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتی ہے‘‘۔

شکر ہے کہ اس قرار دار میں ایک عظیم الشان مہرابِ فتح تعمیر کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے اس لمحے کی یاد دلا دی جب نعرہ لگا تھا کہ ’’ اندرا ہی انڈیا ہے ‘‘۔ مگر مسئلہ پھر وہی ہے کوویڈ نہ صرف ناخواندہ ہے بلکہ اندھا اور بہرا بھی ہے۔ اسے تو بس یہی یاد رہتا ہے کہ کب غافلوں پر پہلے سے بڑا شبخون مارنا ہے۔ اسی دوران ہاروڈ یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کا بھی ڈھنڈورا پیٹا گیا جس میں اتر پردیش میں کوویڈ کے حملے کو روکنے کے لیے وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کی کوششوں کو سراہا گیا۔

فروری کے وسط میں پنجاب ، کیرالا اور مہاراشٹر کی حکومتوں نے مرکز سے درخواست کی کہ وبا کا تیسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے لہٰذا انھیں تیزی سے ویکسین فراہم کی جائے۔ مگر چونکہ ان تینوں ریاستوں میں حزبِ اختلاف کی حکومتیں تھیں لہٰذا مرکز نے ان کی اپیل کو شیر آیا شیر آیا والا واویلا سمجھ کر سنجیدگی سے نہیں لیا۔

آج کوویڈ ہر طرف سے ہر کسی کو کھا رہا ہے مگر مودی حکومت نے جنوری اور فروری میں آتے ہوئے طوفان کو دیکھنے کے بجائے عالمی اور مقامی سطح پر فتح کے جو لمبے لمبے دعوی کیے اب انھیں نگلے کیسے اور کیسے تسلیم کرے کہ ہم سے سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ وہ ذہن ہے جو کوویڈ سے بھی بڑی مصیبت ہے۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments