کرونا آزاد اور تعلیمی ادارے بند!


ہمارے ملک خداداد میں کہنے کو تو سب کچھ ہے لیکن سہنے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ جب بھی کوئی آفت یا سانحہ آتا ہے تو ہم منصوبہ بندی، طویل پروگرامنگ اور کل وقتی تدارک کے بجائے غیر منصوبہ بندی ’عجلت، لیپا پوتی اور جز وقتی لیت و لعل سے کام چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ظاہر یوں کرتے ہیں کہ ہم جیسے مسئلے کے تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور اس مسئلے کو جڑ سے ہی ختم کر نے والے ہیں۔ بجائے اس کے کہ میں لمبی بحث کے بعد اپنے مدعا پر آؤں، براہ راست موجودہ کرونا کے مسئلے پر آ جاتا ہوں کیونکہ یہ اب ایسا مسئلہ یا بیماری رہی ہی نہیں کہ کوئی اس کے راز یا کاز کو جانتا نہ ہو۔

پشتو میں کہاوت مشہور ہے کہ باران پہ تیراو اوشو اؤ خرہئے د باڑے یوڑل۔ یعنی بارش تیراہ پر برسی اور گدھے باڑے کے بہا کے لے گئے۔ کرونا چین سے آیا وہاں ختم بھی ہوا ہے۔ زندگی وہاں رواں دواں ہیں، اور ہم ہیں کہ سارے ملک کو عموماً اور تعلیمی اداروں کو خصوصاً بند کیے ہوئے ہیں۔ ہم کرونا کو بھی دہشت گردی کی طرح خوف اور دہشت کی طرح پیش کرتے ہیں۔ اپوزیشن کہتی ہے کی جہاں ہم جلسہ یا جلوس کا کہتے ہیں وہاں ہم سے پہلے کرونا کے کیسز پہنچ جاتے ہیں لیکن جیسے ہی جلسے جلوسوں کا دن گزر جاتا ہے وہاں پھر کوئی کرونا ورونا نہیں ہوتا۔

تو میں تعلیمی اداروں کیے بند ہونے کی بات کر رہا تھا، ویسے تو ٹرانسپورٹ بند ہے، شادی ہال بند ہیں، ریسٹورنٹس بند ہیں، پارکس بند ہیں، وغیرہ وغیرہ اور اب وزیر موصوف جناب اسد عمر نے کہا ہے کہ بتدریج لوک ڈاؤن میں نرمی کی جائے گی اگر ویکسی نیشن کے پروسس کو جاری اور ساری رکھا گیا۔ اور یہ انھوں نے درست کہا ہے کی ویکسی نیشن کا عمل ہی ہم کو اس وبا کے چنگل سے نکال باہر کر سکتا ہے۔ اب میں جو تعلیمی اداروں کی بندش کی بات کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ ٹھیک ہے تعلیمی ادارے بند ہو گئے تو بس اس کے بعد ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی۔

بلکہ ہم نے تو ان تعلیمی اداروں کی بندش کو چھٹیوں سے تشبیہ دی اور فل انجوائے منٹ میں لگ گئے۔ پکنک پر جا رہے ہیں، بازاروں اور مارکیٹس میں چل پھر رہے ہیں، رشتہ داروں سے گھل مل رہے ہیں۔ شادی بیاہ میں ناچ گانے اور دیگر گھریلو اور غیر گھریلو تقریبات میں آپس میں مل بیٹھ رہے ہوتے ہیں۔ گلی محلے کے بچے گلیوں میں اکٹھے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ بچے رمضان میں تراویح اور افطاری کی پارٹیوں میں بڑوں کے ساتھ ساتھ رہے۔

عید کے دنوں میں تمام تر پروگراموں می بچے بڑوں کے ساتھ ساتھ رہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ جب بچوں کو پکنک پر جانے سے کرونا نہیں ہو رہا، جب بچوں کو بازاروں اور مارکیٹس میں گھومنے پھرنے سے کرونا نہیں ہوتا، جب بچوں کو رشتہ داروں کے ہاں جانے سے کرونا نہیں ہوتا، جب بچوں کو شادی بیاہ میں ناچ گانے کی تقریبات میں شرکت سے کرونا نہیں ہوتا، جب بچوں کو رمضان میں افطار پارٹیوں میں اکٹھے کھانا کھانے سے کرونا نہیں ہوتا، جب بچوں کو عیدی دینے سے کرونا نہیں پھیلتا، جب بچوں کو عید ملن پارٹیوں میں شرکت کرنے سے کرونا نہیں ہوتا تو پھر یہ کرونا آخر خصوصی طور پر سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں کیوں کر لگ جاتا ہے۔

کیا کرونا کا تعلق کسی نصابی سرگرمی سے ہے؟ سپریم کورٹ بھی کہ چکی ہے کہ شام کے بعد لاک ڈاؤن لگانے سے کیا کرونا کہیں اور ہوتا ہے یا شام سے پہلے کرونا نے نہ لگنے کی کمٹمنٹ کی ہوئی ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کسی مسئلے کو ٹھیک طور پر منصوبہ بندی اور ذمہ داری سے ہینڈل نہیں کیا جاتا تو پھر وہ طنز اور مزاح جیسے تلخ و ترش جملوں کے حملوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ اور ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم سنجیدگی کو سنجیدہ نہیں لیتے تو طنز و مزاح تو درکنار، پہلے ہمیں طنز و مزاح کو سمجھنا اور پھر اس کو سیریس لینا ہوگا تب جاکر کہیں ہمارے مزاج کا حصہ بنے گا اور ہم صرف ایک ہی جملے کے کسنے سے پہلے پہلے سدھار کی طرف لپکیں گے اور دوسرے جملے کے کسنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ اعلی ظرف لوگ اہل ظرافت کا جواب اس طرح دیتے ہیں لیکن آلہ ظرف لوگ اہل ظرف لوگوں کے جملے ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ کیا کسی کارٹونسٹ کا یہ سکیچ ہمارے لئے بس نہیں کہ گھروں سے نکلنے والے تمام راستے ہر جانب رواں دواں ہیں لیکن سکولز۔ کالج اور یونیورسٹیز جانے والے راستے بیچ میں بند یا بلاک کیے گئے ہیں۔ یہ بظاہر سکول، کالج اور یونیورسٹیز کے راستے بند نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری ترقی اور مستقبل کی جانب جانے والے راستے بند ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments