سعید اختر مرزا صاحب کی فلمیں


سعید اختر مرزا ہندی سینما کے ایک اہم ہدایت کار ہیں۔ فلمی حوالے سے ان کا کام نہایت ہی منفرد رہا ہے جیسے منفرد ان کی فلموں کے نام ہیں۔

اروند دیسائی کی عجیب داستان ( 1978 )
البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے ( 1980 )
موہن جوشی حاضر ہو ( 1984 )
سلیم لنگڑے پہ مت رو ( 1989 )
نسیم ( 1995 )

جیسا کہ ناموں سے ظاہر ہے، مرزا صاحب اپنی فلموں کے کرداروں پر بہت توجہ دیتے ہیں، کردار ان کی فلموں کی جان ہیں شاید ہی کوئی ایسی فلم ہو جس کے مرکزی کردار کو بھلایا جا سکے۔

”اروند دیسائی کی عجیب داستان“ کا ”اروند“ امیر ہونے کے باوجود نا آسودگی کا شکار ہے، جسے اپنی زندگی بے معنی سی لگتی ہے۔ اور پوری فلم میں اپنی بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنے کی ناکام کوششیں کرتا رہتا ہے۔ انتہائی منفرد کردار، یہ فلم موضوع کے لحاظ سے بھی بے حد دلچسپ ہے۔

”البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے“ کا ”البرٹ“ ایک زود رنج مکینک ہے۔ نصیر الدین شاہ نے اس کردار کو اس طرح نبھایا ہے کہ شاید۔ یہ فلم مرزا صاحب کی سب سے مقبول فلم ہے۔

”بھیشم ساہنی“ کو ”موہن جوشی“ اور ”پون ملہوترا“ کو ”سلیم لنگڑے“ کے یادگار کردار دینے والے بھی مرزا صاحب ہی ہیں۔

saeed akhtar mirza

مرزا صاحب کی فلموں کے اکثر کردار نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فیکٹریوں کے مزدور، سیلز مین، پنواڑی، مکینک، چور، دلال، کال گرلز؛ یہ ایسے کردار ہیں جو ان کی فلموں میں جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ نچلے طبقے کرداروں کی ناکامیوں، محرومیوں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور غموں کو جس خوبصورتی سے مرزا صاحب اپنی فلموں میں دکھاتے ہیں، اس طرح بہت کم ہندوستانی فلموں میں نظر آتا ہے۔ ان کی اکثر فلموں میں ہمیں ”طبقاتی کشمکش“ صاف دکھائی دیتی ہے۔

”ہماری مانگیں کچھ زیادہ ہیں کیا؟ کیا مانگ رہے ہیں ہم؟ بنگلا مانگ رہے ہیں؟ کوئی لاکھ روپیہ مانگ رہے ہیں، کوئی موٹر گاڑی تو نہیں مانگ رہے ہیں ناں؟ ہم صرف عزت سے جینا مانگتے ہیں بس۔ ہر چیز کا بھاؤ اوپر جا رہا ہے اس حساب سے پگھار نہیں بڑھنا چاہیے کیا؟“

(فلم : البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے )

” یہ میرا ابو ہے، کپڑا مل میں کام کرتا تھا، اکھا انڈیا میں ہڑتال ہو گیا، مل واپس چالو ہوا، اس کو واپس نہیں لیا، پچیس برس مگج ماری کیا نوکری کر کے، اور قسم سے ایک منٹ میں نکال کے رکھ دیا۔“

(فلم : سلیم لنگڑے پہ مت رو)

اس حوالے سے نچلے طبقے کے لوگوں کی فرسٹریشن بھی دیکھنے لائق ہے۔ جب وہ اپر کلاس کے لوگوں کی عیش و عشرت بھری زندگی دیکھتے ہیں۔ ”سلیم لنگڑا“ ایک نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والا کردار، جب ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں امیر باپ کی اولادوں کو عیش و عشرت میں مگن دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے۔

”کام دھندا پیار محبت سالا کسی بات کی فکر نہیں، سب بل باپ کے نام۔ کبھی کبھی سالا دل کرتا ہے کہ تھوبڑا بگاڑ ڈالیں ان کا، ان کی تو۔“

فلم میں کسی خاص نظریے کی پرچار کے لیے لمبی لمبی تقریریں فنی حوالے سے فلم کو کمزور کر دیتی ہیں۔ مرزا صاحب کی فلموں میں بھی ایسے مناظر نظر آتے ہیں، جن سے ان کی فلمیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے ”سلیم لنگڑے پہ مت رو“ میں ”اسلم“ کی لمبی تقریر فلم کی خوبصورتی کو بہت ہی بری طرح متاثر کرتی ہے۔

سلیم لنگڑے پہ مت رو ”اور“ نسیم ”میں ہندوستان کے مسلم معاشرے کی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ ہندو انتہا پسندی کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کتنے تنگ ہیں ان کی جھلک ہمیں دونوں فلموں میں صاف دکھائی دیتی ہے۔

فلم ”نسیم“ بابری مسجد کے انہدام کے پس منظر میں بنائی گئی ہے۔ فلم کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں اردو کے نامور شاعر ”کیفی اعظمی“ بطور اداکار دکھائی دیتے ہیں گو کہ ان کی اداکاری متاثر کن نہیں مگر ان کا کردار بہت دلچسپ ہے۔ اس فلم کو دیکھتے، نندتا داس کی شاہکار فلم ”فراق“ یاد آ جاتی ہے۔ دونوں فلموں میں کافی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ ”فراق“ کا پس منظر گجرات کے فسادات ہیں۔ ”فراق“ کا ”خان صاحب“ اور ”نسیم“ کا ”دادا جان“ دونوں ہندو مسلم اتحاد پر یقین رکھتے ہیں اور انسانیت کی بات کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ دونوں کردار ماضی کے ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ایک ایسا ہندوستان جہاں ہندو اور مسلمان پیار اور محبت سے ایک ساتھ رہتے تھے۔ یہ دونوں کردار عصری حالات سے بے خبر رہتے ہیں۔ ممکن ہے نندتا داس نے ”نسیم“ سے اثر قبول کیا ہو۔

فلمی دنیا کے علاوہ مرزا صاحب ٹی وی سے بھی وابستہ رہے۔ مشہور ٹی وی سیریل ”نکڑ“ اور ”انتظار“ کی ہدایت کاری کے ساتھ متعدد ڈاکومنٹری فلمیں بھی بنائیں۔ انھیں اپنے کام کے لیے متعدد ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments