پوپ فرانسس کو ہدیہ حب و احترام


گزشتہ دنوں اخبارات اور سوشل میڈیا پر پوپ فرانسس کی سندھی ٹوپی پہننے کی تصاویر اور وڈیو کا خاصہ چرچا رہا۔ ہماری معلومات کے مطابق اس وڈیو کو ٹک ٹاک پر 12 مئی تک کوئی ٹوپی کے ہدیہ کرنے کے بعد ایک ہی دن میں 40 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا گیا۔ ہمیں نہیں علم کہ بارہ مئی کو، کہ جس تاریخ سے پاکستان کی تاریخ کا خونی سیاہ بابت وابستہ ہے، اس دن کو اس قسم کی کارروائی اتفاق محض تھی یا قصد و ارادہ سے کی گئی لیکن یہ بات اس حوالہ سے ہمارے لیے خوشگوار رہی کہ اس سے دنیا کو انسانیت اور محبت کا آفاقی پیغام پہنچ سکا۔

لباس تہذیب ہی کی علامت نہیں بلکہ قومی ثقافت اور شناخت کا بھی اہم حصہ ہے۔ اور ٹوپی دنیا بھر کی تہذیبوں میں اس حوالہ سے بلند مقام رکھتی ہے کہ آپ اسے سر پر رکھتے ہیں۔ ٹوپی نہ صرف زیب و زینت کا باعث ہے بلکہ یہ آپ کے سر کو موسم کے سرد و گرم اثرات سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اور یہ کسی بھی طرح سے کوئی قابل اعتراض شے نہیں۔ بلکہ عام طور پر ہر مذہب میں اسے تقدس حاصل ہے اور ہر ثقافت کے لیے یہ سرمایہ افتخار ہے۔

مشرق میں ٹوپی اور پگڑی کو خاص اور خاصی اہمیت حاصل ہے اور پاکستان کی تہذیبوں میں بھی ٹوپی/پگڑی ہماری ثقافتوں کا اہم حصہ ہے۔ اور پورے پاکستان کی طرح سندھ میں بھی پگڑی اور ٹوپی نہ صرف عزت اور احترام کی علامت ہے بلکہ ایک عرصہ سے اجرک اور مخصوص طرز کی ٹوپی جسے سندھی ٹوپی بھی کہا جاتا ہے سندھی تہذیب کی شناخت کی علامت بھی گردانی جاتی رہی ہے۔

سندھ میں سندھی ٹوپی عرصہ دراز سے خاص طور پر نوجوان میں خاصی مقبول ہے۔ شادیوں میں اجرک کے ساتھ ساتھ سندھی ٹوپی دولہا کے لباس لازمی حصہ ہے۔ جبکہ سندھی ٹوپی پاکستان کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور یورپ تک تحفتا بھیجی جاتی ہے۔ سندھ کے یہ دونوں تحائف اجرک اور ٹوپی نہ صرف سندھ میں مشہور ہیں بلکہ ملک کے چاروں صوبوں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، چین، ایران، سعودی عرب، ترکی اور دیگر ممالک میں بھی۔

ایک روایت کے مطابق سندھ میں بلوچوں کے وردو کے ساتھ ہی سندھی ٹوپی جیسی ٹوپی بھی لائی گئی تھی لیکن بلوچ قبائل اکثر ٹاٹ کی سخت ٹوپی پہنتے تھے جب کہ سندھ میں نرم ٹوپی کو پسند کیا گیا۔ سندھ میں ایک زمانے میں ننگا سر (عورتوں خواہ مردوں کا) اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور اس لیے نہ صرف عورتیں سر ڈھانپتی تھیں بلکہ مردوں کے لیے سر پر بھی ٹوپی یا پگڑی رکھنا لازم تھا۔

سندھی ٹوپی کو نہ صرف سندھ میں قومی حیثیت حاصل ہے بلکہ یہی ٹوپی سرائیکی، بلوچ اور پشتون بھی پہنتے ہیں اور اب افغانستان میں بھی مقبول ہے۔

سندھی ٹوپی سر کے محیط کی مطابق گول ہوتی ہے لیکن پیشانی کی جگہ پر ایک محراب نما کٹاؤ اس کو اس قسم کی دیگر ٹوپیوں سے زیادہ منفرد بنا دیتا ہے۔ جب کہ اس پر شیشے کا یا پھر اقلیدسی نمونوں کا کام اس کے حسن و جمال کا ضامن ہے۔

علی انس گھانگھرو اپنے ہم سب میں ہی مطبوعہ ایک مضمون ‏میں رقم طراز ہیں کہ: ”مولانا محمد ہاشم ٹھٹوی سندھ کے بہت بڑے بزرگ عالم ہو کر گزرے ہیں، انہوں نے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ سندھی ٹوپی اسلامی ٹوپی ہے۔ یہ واحد ٹوپی ہے جس میں مسجد کا محراب بنا ہوا ہے۔ جب آپ نماز پڑھتے ہیں تو آپ کو سجدہ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ آپ کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہوتی یہ ٹوپی بھی تب ہی بنائی گئی تھی تاکہ پہننے کے ساتھ نماز میں بھی کام آ جائے۔“

جیسا کہ ہم نے ان سطور کی ابتدا میں کہا کہ : ٹوپی کسی بھی طرح سے کوئی قابل اعتراض شے نہیں۔ بلکہ تقریباً ہر مذہب میں اسے تقدس حاصل ہے اور ہر تہذیب میں یہ سرمایہ افتخار سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اس وقت سندھ میں ایک سیاسی بھونچال آ گیا تھا جب 2009 میں ایک مقبول ٹی وی اینکر نے صدر وقت جناب آصف علی زرداری کے دورہ افغانستان کے دوران میں سندھی ٹوپی پہننے پر ان کو یا سندھی ٹوپی ہدف تنقید بنایا۔ ان کے مطابق شاید ایک ”وفاقی عہدیدار“ کا ”علاقائی لباس“ پہننا قابل اعتراض بات تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کیسے صدر ہیں وہ جب باہر دورے پر جاتے ہیں تو سندھی ٹوپی نہیں اتارتے۔ جس پر سندھ میں اس بات پر پی پی سمیت ان کے پارٹی کے مخالفین اور عوام نے بھی اس پر شدید مذمت اور غصہ کا اظہار کیا۔

ہم نہیں جانتے کہ صدارتی ڈریس کوڈ کیا ہے اور پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق صدر کو سندھی ٹوپی پہننی چاہیے یا نہیں لیکن ہم یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کے صدور و وزرائے اعظم فخریہ اپنے ثقافتی لباس پہنتے ہیں اور ہمارے پڑوسی بھارت کی مثال لیں تو وہ ہمیشہ اپنے روایتی یا قومی لباس میں جو کہ دنیا کا سادہ ترین لباس ہے اس میں تمام تر تقاریب میں شرکت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کبھی کسی نے کسی کو ہدف تنقید نہیں بنایا۔

لیکن اس شر سے یہ خیر برآمد ہوا کہ سندھ کے سینئر صحافی اور کاوش گروپ آف پبلیکیشن کے سابق اور ٹائم نیوز کے موجودہ سربراہ علی قاضی کی جانب سے مذکورہ اینکر پرسن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ اب سے ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کو یوم ثقافت سندھ منایا جائے گا۔ اور اس کے بعد یہ دن ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے منایا جا رہا ہے۔ اور اب یہ دن کسی فرد یا ادارے سے منسوب نہ ہو کر عوامی طور و سطح پر منایا جاتا ہے۔

دلچسپ بات کہ صوبائی عصبیت کے الزام کے تحت منایا جانے والا یہ دن اب نہ صرف پاکستان بھر میں بلکہ پوری دنیا میں بغیر کسی سرکاری سرپرستی کے منایا جا رہا ہے اور اس دن کو سندھ اور دنیا بھر میں اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر منایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں جہاں بھی سندھی یا سندھ سے محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں وہاں اجرک اور ٹوپی کا بطور تحائف تبادلہ بھی کیا جاتا ہے اور کتنے لوگ مشاہیر کو بھی سندھی ٹوپی اور اجرک بطور تحفہ پیش کرتے ہیں جو کہ مسرت و انبساط کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں گزشتہ سالوں میں جہاں بشمول اداکاروں، فنکاروں، سفارتکاروں اور عوام و خواص کو یہ تحفہ پیش کیا گیا وہیں مذہبی قائدین کو بھی اجرک اور ٹوپی پیش کی گئی جب کہ حالیہ دنوں میں پوپ فرانسس کو یہ تحفہ ان کی چھ ماہ رخصت کے بعد ان کی سان ڈیمو سا کورٹیارڈ میں عوامی آمد پر ایک سندھی پادری کی طرف سے بغیر کسی تقریب کے پیش کیا گیا جو کہ انہوں نے حیرت اور مسرت سے قبول کیا۔

ابراہیمی مذاہب کے اکثر پیشوا، پادری، مولوی اور ربی کسی نہ کسی قسم کی ٹوپی سر پر رکھتے ہیں۔

سان ڈیموسا کورٹیارڈ میں موقع ملنے پر کوئی بھی پوپ سے مل سکتا ہے اور گفتگو کر سکتا ہے۔ اسی موقعے سے فائدہ اٹھا کر مذکورہ مداح پادری نے انہیں سندھی ٹوپی پیش کی۔ اگرچہ اس ٹوپی کا مذہبی جذبات سے کوئی بھی واسطہ نہیں لیکن یہ پوپ فرانسس کے لیے پاکستان میں بسنے والی سندھی برادری کی طرف سے ہدیہ حب و احترام تھا۔ پاکستان کی اس برادری کی طرف سے، جس کا امیج موجودہ دور میں ایک مختصر سے گروہ کی طرف سے مختلف قسم کی منفی کارروائیوں اور کارستانیوں سے بگاڑا جا رہا ہے، لیکن جو حقیقتاً انسانیت کا بلا رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے امتیاز احترام کرتی ہے۔

جب کہ یہ عمل پاکستان بشمول سندھ اور خصوصاً ہمارے مسیحی بھائیوں کے لیے بھی فخر اور انبساط کا موقع ہے۔ یقیناً دنیا کے اہم مذاہب میں سے ایک مذہب مسیحیت کے عظیم پیشوا پوپ فرانسس کو سندھی ٹوپی ہدیہ کرنے کا یہ عمل تہذیبی تصادم کے اس نام نہاد دور میں نہ صرف ثقافتی افہام و تفہیم کا باعث ہوگا بلکہ مذہبی رواداری اور عالمی بھائی چارے کے فروغ کا بھی باعث بنے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments