ایک خط جو کبھی لکھنے والے کو مل نہیں سکے گا


پیارے نانا ابو
اسلام و علیکم

میں اتنی ٹھیک تو نہیں جتنا ٹھیک آپ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتی ہوں۔ اس جملے پہ آپ کو اعتراض ہو جانا ہے۔ یاد ہے آپ کہتے تھے کہ یہ جملہ درست نہیں ہے۔ آپ کہتے تھے یا تو خیریت چاہتی ہوں لکھو یا پھر خیریت مطلوب ہے لکھو۔ اور میں کہتی تھی کہ آنے والے خطوں میں تو یہی لکھا ہوتا ہے۔ جواباً جیسی گالی اور گھوری مجھے ملتی تھی وہ میں کیسے لکھوں۔

ہوش سنبھالنے پہ جس مرد کی پہچان ہوئی، اس میں پہلے مرد آپ تھے۔ دھندلی سی شبیہ یاد آتی ہے کہ ایک گرے بیگ میں سے میرے لیے ایک گڑیا نکلتی ہے۔ جسے دیکھ کر جو خوشی مجھے ہوئی تھی وہ آج تک بیان نہیں ہو سکی۔ کیونکہ وہ میری زندگی کی پہلی گڑیا تھی۔ اور محلے میں جب دوسری بچیوں کے پاس گھر کے کپڑوں، کترنوں سے بنی گڑیائیں تھیں۔ میرے پاس پلاسٹک کی بنی گڑیا تھی۔ جسے فخر سے اٹھائے ہوئے پھرتی تھی جیسے کوئی قیمتی خزانہ ہو۔ میرے نزدیک بچیوں کی گڑیا ان کے لیے خزانے جیسی ہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ گڑیائیں پہلی رازدار جو بنتی ہیں۔

ہوش آنے تک جب میں سب کے گھروں میں دیکھتی کہ ان کے گھروں میں نانا ابو نہیں صرف ابو ہیں۔ اور میرے پاس ابو نہیں نانا ابو ہیں۔ تو سخت الجھن ہوتی۔ میں جب بھی یہ سوال کرتی کہ میرے ابو کہاں ہیں تو آپ کہتے میں ہوں ناں۔ پھر میں کہتی کہ آپ تو نانا ابو ہیں امی کے ابو۔ تب کوئی بھی اس سوال کا جواب نہ دیتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں سمجھ آ ہی جاتی ہیں۔ مجھے بھی آتی گئیں۔ مجھے پتہ ہوتا تھا کہ جس چیز پہ کوئی نہیں مانے گا آپ نے مان جانا ہے۔ اور منوا بھی لینا ہے۔ بس اگر آپ مجھے گانا سیکھنے دیتے اور ڈراموں میں آنے دیتے تو مزہ ہی آ جاتا۔ مگر تب آپ نانا نہیں دانا بن جاتے تھے وہ بھی اپنے تئیں۔

آپ کو آج یاد کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ مجھے بھول گئے ہیں تو میں یاد کر رہی ہوں۔ ایسا نہیں کیونکہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ میں نے آپ کی کمی نہ محسوس کی ہو۔ میری تحریروں سے لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید مجھے مردوں سے نفرت ہے۔ یا شاید میں مردوں پہ تنقید کرتی ہوں تو غلط کرتی ہوں۔ میں ان سب کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ مرد کو میرے نانا جیسا ہونا چاہیے۔ جن کی کمی محسوس ہو۔ جن کے نہ ہونے سے کسی قیمتی شے کے کھو جانے کا احساس ہو۔ مرد کو مرد سے زیادہ انسان ہونا چاہیے۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ میں یعنی آپ کی نوچھی ایسی باتیں کیسے کر رہی ہے۔ تو یاد کریے جب آپ فوت ہونے والے تھے تو کچھ دن پہلے آپ نے مجھ سے کتنی باتیں کی تھیں۔ آپ نے مجھ سے کتنا لتاڑا (ٹانگیں دبوانا) کروایا ہے۔ اور جب میں ٹانگیں دبا رہی ہوتی تو آپ مجھے نصیحتیں کرتے جاتے تھے۔ اس وقت وہ نصیحتیں میرے سر سے ٹپے مار کے گزر جاتیں۔ مگر نانا ابو بعد میں ان کو یاد کر کے میں بہت روتی تھی۔ اب بھی روتی ہوں۔

آپ نے ایک دن کہا نوچھی پتر یہ سب جو آج تم لوگوں سے پیار جتاتے ہیں، یہ تب تک ہے جب تک میں زندہ ہوں۔ میرے مرنے کے بعد یہ تمہیں بھگو بھگو کے جوتے ماریں گے۔ یاد ہے ہے میں کتنا ہنسی تھی کہ نانا ابو جس نے جوتے مارنے ہوں گے وہ تو ویسے بھی مار سکتا ہے۔ بھلا کون جوتا گیلا کر کے مارے گا۔ اور آپ نے کہا تھا تیریاں ایہو گلاں دی وجہ توں میں بوہتا پریشان آں۔ تیرا او حال اے جنہے لائیا گلی اودے نال ٹر چلی۔ نانا ابو آج بھی یہی حال ہے سمجھ نہیں آتا کیسے ٹھیک ہوں گی میں۔

جب میں آپ کو یہ کہتی تھی کہ آپ کو مجھ سے زیادہ کاشی سے پیار ہے تو آپ تڑپ اٹھتے تھے۔ پھر آپ اس بات کو میرے دل سے نکالنے کے لیے مجھے پانچ روپے رشوت دیتے تھے۔ مجھے یہ کہہ کر کہ کاشی کو پتہ نہ چلے اگلے پانچ منٹ بعد آپ اسے بھی پانچ کا نوٹ دے دیتے۔ اور پھر کہتے ہن او منہ ویکھے گا ناں تیرا چنگا نہیں لگدا۔ آپ نے غیر محسوس طریقے سے کچھ چیزیں میری گھٹی میں ڈال دیں۔ کسی کے ساتھ چیز شیئر کرنا کسی کی مدد کرنا لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا اور ہر طرح کے بندے کے ساتھ بیٹھ کے چائے کھانا کھا لینا۔ آپ کے جانے کے کئی سال بعد تک بلکہ چند سال پہلے تک بھی وہ انکل موچی جن کے ساتھ آپ چائے پیتے تھے۔ میرے سر پہ شفقت سے پیار دے کر ملتے رہے۔ آپ نے سکھایا کہ انسان پیسے سے نہیں اخلاق سے بڑا ہوتا ہے۔

آپ نے ہی نظریاتی طور پہ میرے دماغ کو کلیئر کرنے میں پہلا کردار ادا کیا۔ آپ کے ساتھ نہ رہتی تو شاید ذہنی بلوغت میں باقی کے خاندان کا رنگ نمایاں ہو جاتا۔ اور اچھا ہوا کہ ویسا نہ ہوا۔ ورنہ آج میں یہ خط لکھنے کی بجائے آپ کے نام پہ اگربتیاں جلا کے بیٹھی ہوتی۔ اگر بتیاں جلانا بری بات نہیں اگر میٹرو ملن کی ہوں اور صرف خوشبو کے لیے جلائی جائیں۔ اگلی بات خود ہی سمجھ جائیں۔ خیر مجھے تب بہت غصہ آتا تھا جب آپ کے پاس کام کروانے والوں کا رش لگا ہوتا۔ اور آپ بنا کوئی فائدہ لیے لوگوں کے کام کروانے کبھی اے جی آفس جاتے کبھی سیکرٹریٹ جاتے۔ لیکن میں نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب آپ کو ضرورت تھی تو کسی نے بھی ساتھ نہیں دیا۔

آپ ہمارے لیے کھانا بناتے۔ نوالے بنا بنا کے ہمارے منہ میں ڈالتے۔ جس دن مچھلی بناتے میں شور ڈال دیتی میں نہیں کھاوں گی۔ اور آپ مجھے ڈانٹ کے ٹیبل پہ بٹھا کے کانٹے نکال کے دیتے اور ساتھ ساتھ گالیاں بھی کہ تمہارا کیا بنے گا۔ مجھے جوتوں میں تسمے آج بھی نہیں ڈالنے آتے۔ مگر یہ ٹرک مجھے سمجھ آ گیا کہ جب آپ کاشی کو ساکس پہناتے تھے تو الٹی ساکس پکڑے ہوتے مگر جب پہناتے تو وہ سیدھی ہوتی۔ میں سکول میں ہاف ٹائم تک یہی سوچتی رہتی تھی کہ شاید نانا ابو کو جادو آتا ہے۔

آپ کو شاید واقعی جادو آتا تھا کہ آپ کو ہمیشہ پتہ لگ جاتا تھا کہ میں کس وقت ماں کی کمی زیادہ محسوس کر رہی ہوں۔ تب آپ فوراً کال بک کرتے اور امی کو کہتے کہ پاکستان آ۔ بچے اداس ہیں۔ نوچھی نے بخار چڑھا لینا۔

مجھے کبھی یہ پتہ ہی نہیں چلنے دیا آپ نے کہ سب مردوں کی عادتیں آپ جیسی نہیں ہوتیں۔ رشتے داروں کی کچھ چیزیں تھیں جو مجھے تکلیف پہنچاتی تھیں مگر میں کہتی نہیں تھی۔ امی ہمیشہ کہتی تھیں کہ بڑوں کی شکایت نہیں لگاتے۔ تو میں نے کبھی ماموؤں اور خالاؤں کی کوئی بات آپ سے کہی ہی نہیں۔ کیونکہ تب آپ کے اندر کا فوجی جاگ جاتا تھا۔ اور مجھے لڑائی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ ہماری خاطر آپ نے کتنی بار ماموؤں اور خالاؤں سے جھگڑے کیے تھے۔ گھر آنے پہ پابندی لگا دی تھی۔ کاش آپ کو پتہ ہوتا کہ وہ آپ کے جانے کے بعد ہم سے گن گن کر بدلے لیں گے۔ اگر آپ کے بس میں ہوتا تو آپ مرنے کے بعد بھی انہیں ضرور کٹ لگا جاتے۔ مگر موت تو موت ہے ناں۔

ہمیں امی سے مار پڑنے پر آپ اپنے بیگ میں کپڑے رکھ کے گھر چھوڑنے کی دھمکی دیتے۔ اور امی ہمیں مارنا چھوڑ کے آپ سے لڑ پڑتیں کہ آپ ہمیں بگاڑ رہے ہیں۔ یوں ہم بچ جاتے اور بعد میں آپ سے دو دو روپے بھی ملتے۔ ساری مار وار بھول جاتی۔ اور پھر آپ ہمیں کہتے نہ تایہ (تنگ کرنا) کرو ماں نوں۔ آپ کی اتنی ساری باتیں ہیں اور اتنی مزے دار یادیں ہیں کہ ایک کالم میں کیسے پوری ہو سکتی ہیں۔ مادھوری ڈکشٹ پہ آپ کو کرش تھا (یہ لفظ آج کل ان ہے ناں ) ۔ جب مادھوری کی فلم آتی فوراً لے کر آتے یا منگواتے بھلے بیس روپے کرایہ دینا پڑتا۔ اور پھر تھرماس بھر کے چائے کا فلم دیکھ کے ہی اٹھتے۔ میں تب سوچتی تھی نانا ابو اتنے بڈھے ہیں اور مادھوری کتنی جوان و پیاری ہے۔ اگر اسے پتہ چلے کہ نانا ابو اسے پسند کرتے ہیں تو وہ کہیں بستی نہ کر دے۔ اس ممکنہ بستی کو روکنے کے لیے میں بڑے پلان کرتی تھی۔ آپ کے چہرے کی وہ مسکراہٹ جو مادھوری کی مسکراہٹ دیکھ کے آتی تھی۔ مجھے اب بھی یاد ہے۔

آپ کی پیٹھ پیچھے آپ کی اولاد آپ کو مذہب بیزار کہتی۔ ان کے بقول لوگوں کے بوڑھے اس عمر میں اللہ اللہ کرتے ہیں۔ ساڈا بوڑھا مدھوری دیاں فلماں ویکھدا اے۔ آپ کے سامنے نہیں کہہ سکتے تھے نہ کیونکہ پھر آپ سے جو عزت افزائی ان کی ہوتی وہ کون برداشت کرتا۔

آپ کو مرتے دم تک میں نے ایک بے ضرر انسان پایا۔ بطور انسان آپ واقعی انسانیت کی معراج پہ تھے۔ آپ کے نانی اماں سے اختلافات کے باوجود میں نے آپ کو کبھی ان کو ہیومیلیٹ کرتے نہیں دیکھا۔ ہو سکتا ہے آپ کی جوانی میں آپ اور نانی اماں کی نہ بنتی ہو۔ مگر میں اب تجزیہ کرتی ہوں تو مجھے دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ٹھیک لگتے ہیں۔ وہ جوائنٹ فیملی میں ایک کولہو کا بیل بنی رہتیں۔ آپ مہینوں فوج میں ہونے کی وجہ سے گھر نہ آ پاتے۔ تو فیر لڑائی تے بندی سی۔

میں نے ٹین ایج تک آپ کو دیکھا آپ کے ساتھ رہی۔ آپ نے ہمیں کبھی ماں باپ کی کمی نہیں ہونے دی۔ کبھی کبھار ڈانٹا اور ایک بار جب مارا تو کئی دن تک معافیاں مانگتے رہے۔ ہماری پسند کی چیزیں پکاتے رہے۔ ایکسٹرا جیب خرچ دیا کہ ہم اس مار کو معاف کر دیں۔ اور ہم دونوں اتنے کمینے تھے کہ اندر ہی اندر کمینی سی خوشی محسوس کرتے کہ اب نانا ابو ہمیں پیسے زیادہ دیتے ہیں۔

آپ کی زندگی کے آخری دن پانی جیسے یاد ہیں مجھے۔ دماغ میں فوراً سب گھومنے لگتا ہے۔ ہمارے لیے آپ کی پریشانی عروج پہ تھی کہ ماں کے حوالے کر کے دنیا سے جانا چاہتے تھے۔ مگر اسی دکھ کے ساتھ چلے گئے۔ آپ کی موت کے دن سے ہماری آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔ جب میں نے دیکھا کہ ایک ماموں نے سیکو فائیو اتار کے جیب میں ڈالی۔ دوسرے نے الماری کی چابی نکالی۔ اور پھر ہم نے کیا کیا نہ دیکھا۔ کاش ہم آپ کے ساتھ ہی مر جاتے۔ کہ جو ہم نے دیکھا وہ بتاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کیوں بتاتے ہو۔ چھپاتے ہیں تو اندر آگ بھڑکتی ہے۔ کسی کو یہ پتہ ہی نہیں کہ جو بتاتے ہیں وہ تو شاید اس کا دس فیصد بھی نہیں۔ جو برداشت کیا۔ آج بھی آپ کہیں نہ کہیں اپنے ساتھ محسوس ہوتے ہیں۔ تو آپ سے گلے شکوے کرتی ہوں۔ دکھ بیاں کرتی ہوں۔ جو کسی سے نہیں کہہ سکتی آپ سے کہتی ہوں۔

جب آپ تھے تو میں آپ سے لڑتی تھی کہ میرا نام نوشی ہے نوچھی نہیں۔ آج ترستی ہوں ایک بار آپ نوچھی کہہ کے پکار لیں تو لائٹ کی سپیڈ سے دوڑی آؤں۔

میں بچوں کو آپ کی باتیں بتاتی ہوں۔ اور وہ بہت انجوائے کرتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں میں آپ کا ذکر کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں ایسا نانا ہمیں کیوں نہیں ملا۔ کیسے ملتا آپ تھے ہی میرے نانا ابو۔ میں تو کسی کو نہ دیتی۔ شیئر کر لیتی وہ الگ بات ہے۔ پر کسی کو لے جانے نہ دیتی۔ میں آپ کے نام بہت سارے خط لکھوں گی جو میں لکھنا چاہتی تھی۔ پر میری ہمت ہی نہیں پڑتی تھی کہ خط کا جواب تو آنا چاہیے نا۔ اور نہ تو یہ خط آپ کو ملنا ہے نہ اس کا جواب آنا ہے۔ یہ کیسا دکھ ہے کاش آپ جان سکتے۔ آپ ہوتے تو آج میں وہ ساری سیاسی نظریاتی بحثیں آپ سے کرتی جو میں گھر میں کسی سے نہیں کر سکتی۔ موت والے سسٹم میں کچھ ایسا ہونا چاہیے تھا کہ ہم جانے والوں سے سال دو سال بعد ہی سہی کچھ وقت کو مل سکتے۔ کتنا اچھا ہوتا۔ پر ہوا نہیں۔

اب میں بس کرتی ہوں اس خط پہ بھی لوگوں نے کہہ دینا ہے کہ لو اب یہ مرے ہوؤں کو بھی خط لکھنے لگی۔ مگر میرے نزدیک مرے ہوؤں کو خط لکھنا زندہ لوگوں کو خط لکھنے سے بہتر ہے۔ کچھ بظاہر زندہ لوگ اصل میں مر چکے ہیں مگر انہیں احساس نہیں۔ آپ مر کے بھی زندہ ہیں میرے لیے۔ آپ کبھی مر بھی نہیں سکتے کیونکہ انسانیت کبھی نہیں مرتی۔

آپ جہاں ہیں وہاں خوش رہیں۔ میں جہاں ہوں یہاں دو دن خوشی ہے چار دن غم ہے۔ انسان بننا کم ہو گئے ہیں۔ اب مفادات زیادہ اور احساس تھوڑا ہے۔ اب انا زیادہ اور محبت کم ہے۔ آپ چائے کے کپ پہ مان جاتے تھے۔ اب لوگ خون پی کے بھی خوش نہیں ہوتے۔ اچھا ہوا آپ یہ وقت دیکھنے سے پہلے چلے گئے، ورنہ آپ نے تو اپنی گالیوں کی کتاب چھاپ لینی تھی۔ اور میں نے سوچنا تھا کہ نانا ابو نے یہ کہاں سے سیکھی۔ کاشی اچھا ہے۔ اس نے دنیاداری سیکھ لی ہے۔ میں نکمی ہوں مجھے نہیں آئی ابھی تک۔ اور ہاں آپ کی سب سے اچھی بات پتہ کیا ہے آپ کے ذکر پہ ہمیشہ ہونٹ کھلکھلاتے ہیں۔ ایک مرد کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ اس کا ذکر کھلکھلانے پہ مجبور کر دے۔

آپ کی نوچھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments