مچھر مار سپرے اور لندن میں حملہ



دو ہزار گیارہ، بارہ میں ہم لوگ لاہور کے علاقہ گلشن راوی میں رہا کرتے تھے۔ شہباز شریف ان دنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ہمارے محلے دار اک بزرگوار ہوا کرتے تھے۔ جو پرانے جیالے تھے۔ بزرگوار نے زندگی بھر سیاست کی اور سینکڑوں الیکشن ہارے۔ وہ غالباً بی ڈی ممبر سے شروع ہو کر، کونسلر، چیئرمین، ناظم، ایم پی اے، ایم این اے اور سینٹ کا الیکشن بارہا ہار چکے تھے۔ غیر سرکاری الیکشن و ٹاؤن کمیٹیوں کے الیکشن کی فہرست اس کے علاوہ ہے۔

وہ اپنی زندگی کے سبھی الیکشن ہارے سوائے اقلیتی کونسلر کے جو وہ لڑ نہ سکے۔ بزرگوار کے خاندان کی اکثریت برطانیہ میں مقیم تھی جن کی ترسیلات زر سے ان کا نان نفقہ چلتا۔ بزرگوار پرانے جیالے تھے اسی لیے مسلم لیگ یا نون لیگ سے مخالفت ان کے خون میں رچی بسی تھی۔ وہ ہر برائی، ہر سازش کا تانا بانا شہباز شریف کی حکومت سے جوڑتے۔ بدقسمتی سے ان دنوں پاکستان میں ڈینگی وائرس آ گیا۔ پنجاب بالخصوص اس سے شدید متاثر ہوا۔

بلی کے بھاگو چھینکا ٹوٹا۔ اب تو بزرگوار ہر آتے جاتے کو بتاتے یہ وائرس شہباز شریف لے کر آیا ہے یا پھر اس کی نا اہلی کی وجہ سے آیا۔ متاثرین کو ان کے خلاف الیکشن لینا چاہیے۔ کچھ لوگوں کو جلسہ جلوس کے لیے بھی اکساتے رہے۔ محلے دار جب ان کی یاوہ گوئی سے اکتا گئے تو انہوں یہی کام کورٹ کچہری میں کرنا شروع کر دیا۔ صوبائی حکومت کے خلاف کیس، مقدمہ درج کرانے کی بھی کوشش کی۔ شہباز حکومت نے ڈینگی پہ قابو پانے کی مقدور بھر کوشش کی۔

مختلف اقدامات کیے جن میں مچھر مار سپرے بھی شامل تھا۔ انہی دنوں میں پاکستان آیا تو اک صبح شور سن کر میں باہر نکلا۔ گلی میں ہر طرف دھواں ہی دھواں اور انہی بزرگوار کی آواز گونج رہی تھی۔ خیر ہم بھی معاملہ دریافت کرنے مطلوبہ مقام پر پہنچے تو بزرگوار تقریر کے انقلابی شعر پڑھ رہے تھے۔ ان کے بقول شہباز شریف نے ان کے گھر پہ حملہ کروا دیا ہے۔ یہ دھواں بھی اس حملہ کی بدولت ہے۔ اہل محلہ نے ان کو اصل بات سمجھانے کی کوشش کی مگر شاید سستی شراب کا نشہ تھا یہ ان کا اعتماد وہ کسی کی سن نہیں دے تھے۔ کسی کے قابو میں نہ آئیں۔ آخر کار بزرگوار کے ہم عصر بابا جی نے ان کی جو درگت بنائی جو رجز پڑھے، جو صلوٰتیں سنائیں قلم انہیں ضبط تحریر میں لانے سے قاصر ہے۔ ان بابا جی نے کہا یہ حملہ نہیں مچھر کش، کرم کش سپرے ہے کمینگی کش نہیں تم اسے نہیں مرتے جاؤ جا کے اپنا کام کرو۔

مریم نواز کے بقول گزشتہ روز لندن میں نواز شریف پہ حملہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی مدعا کو لے کر انہوں نے ٹویٹر پہ دہائی دی دھمال مچائی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا خدا کسی کو بزدل اور کم ظرف دشمن نہ دے۔ جہاں تک کم ظرفی کی بات ہے سیاست میں اعلیٰ ظرفی کے موجد میاں صاحبان ہیں۔ یہ اعلیٰ ظرفی چاہے بے نظیر پہ پیلی ٹیکسی کی پھبتیاں کسنا ہو یا بھٹو خاندان کی کردار کشی کرنا۔ چاہے یہ اعلیٰ ظرفی سیاست میں فحش نعروں کی ایجاد ہو یا جہاز سے مشکوک پمفلٹ گرانا۔ ہر طرف میاں صاحبان ہی آگے نکلتے ہیں۔ میاں صاحباں کی اعلیٰ ظرفی بیان کرنا شروع کروں تو کالم کا دامن تنگ پڑ جائے۔

اب رہا بزدل دشمن کا طعنہ۔ بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے۔ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔ دوسروں کو بزدلی کا طعنہ دینے والی میاں کی صاحبزادی اپنے ابا میاں کی دلیری کی داستانیں سناتیں تو رنگ جمتا۔ یہ بہادر میاں صاحب ہی تھے جو مشرف سے اس وقت ڈیل کر کے کے جدہ گئے جب بقیہ کارکن پس زنداں حاکم وقت کے عتاب کا شکار تھے۔ پھر ساری عمر اس بہادری سے انکار کرتے رہے۔ یہ بہادر میاں صاحب ہی ہیں جو جیل سے دوائی لینے لندن پدھارے اور آج تک واپس نہیں سدھارے۔ لندن میں بہادر میاں صاحب کے اردگرد درجنوں چیلوں کا پہرہ ہے۔ باڈی گارڈ کی فوج ظفر موج علاوہ ازیں۔ ایسے میں دو مشکوک نقاب پوش میاں صاحب پہ حملہ آور ہونے کی کوشش کریں گے کیا بیہودگی کیا یاوہ گوئی ہے۔

کوئی انتہائی پسماندہ، گھٹیا سکرپٹ رائٹر ہے ان کا۔ اب ان پہ ترس آنے لگا ہے۔ وہی پرانے محلہ دار بزرگوار والی حالت ہے۔ کاش یہاں کوئی ہم عصر بابا جی ہوں تو بہتری کی صورت نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments