جنرل ضیا الحق اور فلسطینیوں کا مقتل


عربوں کی جنگوں کی تاریخ شیطان کی آنت کی مانند ہے، اگر کھنگالنے نکلیں تو کڑی سے کڑی ملتی ہی چلی جاتی ہے، کسی ایک سرے یا نتیجے پر پہنچنا مشکل نظر آتا ہے۔ آج ہمارا موضوع اردن، فلسطین اور اسرائیل سے متعلقہ ایک ایسے فوجی آپریشن کے بارے میں ہے جس کی کڑیاں پاکستان کے سابق صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق سے جا ملتی ہیں، جو اس وقت بریگیڈئیر کے عہدے پر فائز تھے۔

1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد بہت سے فلسطینی ہجرت کر کے اردن منتقل ہو گئے، ہجرت کا یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہا، 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ ( جس میں عربوں کو بری طرح شکست ہوئی) کے بعد ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً تین لاکھ فلسطینی امان اور اردن کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے۔ اس طرح امان کے گردونواح میں فلسطینی مہاجرین کے بہت سے کیمپس قائم ہو گئے جو وقت کے ساتھ فلسطینی گوریلا وارئیرز کی پناہ گاہیں ثابت ہوئے، جہاں ٹریننگ کے بعد وہ اسرائیل پر حملہ آور ہوتے تھے، ان فائٹرز کی مدد اور ٹریننگ کے لئے شامی فوجوں کی اردن کے علاقے میں نا صرف موجودگی اس وقت کے شاہ حسین کے لئے پریشانی کا باعث بنی بلکہ اسرائیل پر یاسر عرفات کی قیادت میں PLO کے گوریلا حملوں کے جواب میں اسرائیلی جوابی کارروائی اردن کی فوج کے لئے درد سر بن چکی تھی، جلتی پر تیل کا کام شاہ حسین پر قاتلانہ حملوں نے کر دیا جس کی ذمہ داری (PFLP) ”پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف پیلسٹائن“ نے قبول کرلی۔ PFLP کا متعدد طیاروں کی ہائی جیکنگ کے بعد اردن میں لینڈ کروانا شاہ حسین پر شدید بین الاقوامی دباؤ کا باعث بنا،

اب اردن کی بادشاہت اور فلسطینی فائٹرز کے درمیان چپقلش آئے دن کی جھڑپوں میں تبدیل ہو گئی، شاہ حسین کو شدید فکر لاحق ہوئی کہ یہ فائٹرز اردن میں اپنے آزاد علاقے یا ریاست کا اعلان نہ کر دیں اور پھر حالیہ جنگ میں بری شکست کے بعد انتہائی کمزور اردن، اسرائیل سے کسی قسم کی رسہ کشی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ شاہ حسین نے فلسطینی فائٹرز اور ان کے حامیوں کو علاقے سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا۔

1967 کی جنگ کے بعد اردن معاشی اور دفاعی لحاظ سے انتہائی کمزور ہو چکا تھا اس وقت برطانیہ اور امریکہ نے اردن کی فوج کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے دفاعی ساز و سامان کی سپلائی کے ساتھ مدد کی، اب مرحلہ تھا نئے سرے سے فوج کی ٹریننگ، تو اس کام کے لیے پاکستان سے مدد طلب کی گئی، پاکستان سے ایک ٹریننگ کمیشن اردن بھیجا گیا جس کی سربراہی بریگیڈیئر ضیاء الحق کر رہے تھے (جو بعد میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پاکستان کے صدر بنے ) بریگیڈیئر ضیاءالحق کا اردن میں قیام 3 سالوں پر محیط ہے، ان کا بنیادی کام اردن کی آرمی کی ٹریننگ دی تھی، لیکن یہ دیکھتے ہی دیکھتے اردن کی شاہی قیادت کے مشیروں میں شامل ہو گئے، فلسطینی فدائین کو اردن سے نکال باہر کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا تھا، 17 ستمبر 1970 کو شاہ حسین نے اپنی آرمی کو امان کے گرد و نواح میں قائم فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں میں موجود فلسطینی فدائین کو ٹارگٹ کرنے کا حکم دیا، اور اس طرح ایک سخت آپریشن کا آغاز ہو گیا جس میں بہت سے فلسطینی گوریلا وارئیرز مارے گئے اور اچھی خاصی تعداد میں سویلین مہاجرین کی بھی ہلاکت ہوئی،

اس دوران 18 ستمبر کو شامی ٹینک فلسطینی وارئیرز کی مدد کے لیے اردن کے علاقے ”اربد“ میں داخل ہو گئے، جس پر وہ پہلے سے ہی قابض ہو چکے تھے شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاءالحق کو علاقے کی صورتحال معلوم کرنے کے لیے بھیجا، بعد ازاں بریگیڈیئر ضیاءالحق نے باقاعدہ جوابی کارروائی کے لیے اس علاقے میں کمان سنبھالی اور اس طرح پلا ننگ، مشاورت اور عملی طور پر اس خونی آپریشن کا حصہ بن گئے، شام نے عین موقع پر اپنا فیصلہ بدلہ اور اپنے ٹینک اور فوجی بغیر لڑے واپس بلا لیے۔

تقریباً گیارہ دن تک فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا، ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہزاروں فلسطینی فدائین کو مارا گیا اور ان کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی، ستمبر 1970 میں ہونے والے اس آپریشن کو فلسطینیوں نے بلیک ستمبر کا نام دیا، 26 ستمبر 1970 کو مصری صدر جمال عبدالناصر نے جنگ بندی کروانے میں اہم کردار ادا کیا، شاہ حسین اور یاسر عرفات نے اگلے ہی دن جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر دیے،

اس آپریشن کے آفٹر شاکس تقریباً ایک سال تک جاری رہے اور 1971 تک اردن سے فلسطینی فدائین کا بالکل خاتمہ کر دیا گیا۔

اسرائیلی ملٹری کمانڈر ”موشے ڈایان“ نے بلیک ستمبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جتنے فلسطینی اس آپریشن میں شاہ حسین نے مارے ہیں اتنے تو ہم نے بیس سالوں میں نہیں مارے۔

اس آپریشن میں فلسطینی ہلاک شدگان کی تعداد پر کافی اختلاف پایا جاتا ہے مختلف جگہوں پر یہ تین ہزار سے پچیس ہزار تک بیان کی جاتی ہے، یاسر عرفات کے دعوے کے مطابق یہ تعداد 25000 کے پاس ہے۔

اردن کو اس آپریشن سے یقیناً فائدہ ہوا کہ ان کے لئے درد سر بن جانے والے فلسطینی فدائین کا ان کے ملک سے صفایا ہو گیا، لیکن یہ بات ذہن میں رہے کے اس آپریشن کی الٹیمیٹ بینیفیشری اسرائیلی ریاست ثابت ہوئی۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بریگیڈیئر ضیاءالحق جو پاکستان کے نمائندہ تھے کو اس آپریشن کا اس حد تک حصہ ہونا چاہیے تھا؟ جن کو اردن میں شاہی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

ریاست پاکستان کو اس کا حصہ سمجھا جائے؟ کیا یہ ٹھیک فیصلہ تھا؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیشہ کی طرح صحافی اور رائٹر ”وسعت اللہ جان“ کے ”بخشو“ سے لیے جانے والے کاموں میں سے یہ بھی ایک ایسا ہی کام تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments