سیاسی دنگل



الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا موجودہ سیاسی صورتحال کو کس طرح سے دیکھا جا رہا ہے۔ ؟

پاکستان کی اندرونی سیاست میں دھڑے بندیاں، پریشر گروپس کا بننا، سیاسی بلیک میلنگ، میل ملاقاتیں اور اس سے ملتی جلتی کچھ سرگرمیاں معمول کا حصہ رہی ہیں۔ اسی حوالے سے میڈیا ( الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل / سوشل ) پر تجزیے، تبصرے، مختلف قسم کی خبریں اور سازشی تھیوریاں بھی گردش کرتی رہتی ہیں۔ عوام کی ایک بڑی تعداد تو اب ان سب چیزوں سے بے زار نظر آتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیاں ہیں جس پر میڈیا اپنی دکان چمکاتا ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دوسری طرف عوام میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان معاملات میں دلچسپی لیتے اور ان تمام تر سرگرمیوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

آج کل پاکستان کی سیاسی منظر نامے پر جس چیز کا سب سے زیادہ تذکرہ ہو رہا ہے وہ حکومتی جماعت ( پی ٹی آئی ) کے ایک ناراض رہنما جہانگیر ترین جو اپنی ایک الگ سیاسی حیثیت رکھتے ہیں اور آج کل چینی کا ایک سکینڈل منظر عام پر آنے بعد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے ایک گروپ کا منظر عام پر آنا اور تحفظات کا اظہار کرنا ہے۔ دوسرا موضوع جو آج کل زیر بحث ہے وہ پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی رہائی کے بعد ان کی سیاسی سرگرمیاں اور نون لیگ کے ناراض رہنما سابق وفاقی وزیر داخلہ کا ایک بار پارلیمانی سیاست میں متحرک ہونا ہے۔

ان کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ عنقریب صوبائی اسمبلی کا حلف اٹھانے والے ہیں جو کہ انہوں نے 2018 میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 10 میں فتح حاصل کرنے پر اٹھانا تھا اور نہیں اٹھایا تھا، اب وہ یہ حلف اٹھا کر پارلیمانی سیاست میں متحرک ہونے جا رہے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک ترین گروپ کا سامنے آنا، شہباز شریف کی رہائی اور چودھری نثار علی خان کی پارلیمانی سیاسی میں واپسی کا تعلق کسی خاص سیاسی تبدیلی سے جوڑ رہے ہیں جس کا امکان مستقبل قریب میں ظاہر کیا جا رہا ہے اور بعض کا خیال اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ اس امکان کو رد کرتے نظر آ رہے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس حوالے سے قریب قریب ایک ہی قسم کے رائے پائی جاتی ہے صرف بیان کرنے کا انداز ہر ایک کا اپنا ہے۔

کل ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں یہ بات کہی گئی کہ چونکہ بجٹ نزدیک ہے اور حکومت کو اسمبلی سے بجٹ پیش کروانے کا چیلنج درپیش ہے تو ایسے میں ترین گروپ حکومت کو دباؤ میں لا کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ حکومت بھی اس موقع پر ان کے تحفظات سننے کے لئے تیار ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیراعلی پنجاب جناب عثمان بزدار ترین گروپ کے ناراض اراکین صوبائی اسمبلی سے خود ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ان ملاقاتوں میں ناراض اراکین اسمبلی کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے جبکہ ناراض اراکین بھی وزیراعلی کی جانب سے کرائی جانے والی یقین دہانی پر مطمئن نظر آتے ہیں۔

بعض اراکین اسمبلی اب بھی یہ کہ رہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور انہیں وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر اعتماد ہے۔ ایسے میں اگر پی ٹی آئی حکومت ناراض اراکین اسمبلی کو تحفظات دور کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور نا ارض اراکین اسمبلی وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر کھل کر اعتماد کا اظہار کر دیتے ہیں تو حکومت آسانی سے بجٹ پاس کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ الیکٹرانک میڈیا کے دیگر لوگ بھی ترین گروپ کی سرگرمیوں کو چائے کی پیالی میں طوفان کہ رہے ہیں ان کے نزدیک تحریک انصاف اس بحران سے نمٹنے میں کامیاب جائے گی۔

جہاں تک شہباز شریف کی رہائی اور چودھری نثار علی خان کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کا تعلق ہے تو شہباز شریف دیگر ان لوگوں کی طرح جو کرپشن الزامات پر جیل گئے اور بعد میں ضمانت پر رہا ہوئے، اسی طرح رہا ہوئے ہیں جبکہ چودھری نثار کی پارلیمانی سیاست میں واپسی کی وجہ حکومت کی جانب سے لایا جانے والا وہ بل ہے جس کے مطابق رکن اسمبلی و سینیٹ ایک مقررہ مدت تک حلف نہ اٹھانے کی صورت میں ڈی سیٹ ہو سکتا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر چودھری نثار یہ حلف نہیں اٹھاتے تو انہیں ڈی سیٹ کیا جا سکتا ہے اور ایسے میں حلقے میں نیا الیکشن ہو گا۔ نثار یہ سمجھتے ہیں کہ نئے الیکشن میں اگر ان کہ مقابلے میں وہاں پی ٹی آئی یا نون لیگ کا امیدوار الیکشن جیت جاتا ہے تو اس سے ان کی سیاسی ساکھ متاثر ہو گی۔ اس صورت میں وہ اسمبلی رکنیت کا حلف اٹھانے کو ہی ترجیح دیں گے۔

الیکٹرانک میڈیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ترین گروپ کا سامنے آنا، شہباز شریف کی رہائی اور نثار کی واپسی کا آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے اور پاکستان کی سیاست پر آنے والے وقت میں ان سب چیزوں کے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پرنٹ میڈیا میں اس حوالے سے جو رائے پائی جاتی ہے جو کم و بیش اس سے ملتی جلتی ہی ہے اور کہیں نہ کہیں اس میں فرق بھی پایا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک کے سوچنے، سمجھنے کا انداز، ہر ایک تک پہنچنے والی خبر اور اس کے سورسز، ہر ایک کی کیلکولیشن الگ ہے تو اسی وجہ سے ہر ایک کی رائے بھی الگ ہے اور ایسا ہی رجحان پرنٹ میڈیا میں بھی پایا جاتا ہے۔

پرنٹ میڈیا میڈیا میں اس حوالے سے جو رائے پائی جاتی ہے وہ ذیل میں پیش ہے۔

اس حوالے سے میں ایک سینئر جرنلسٹ نصرت جاوید کے کالم کا ذکر آپ کی خدمت میں پیش کروں گا جس میں انہوں نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کے حکومت ترین گروپ کو قابو کرنے اور بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، باقی کچھ لوگوں کی رائے اس حوالے سے مختلف ہے۔ اگرچہ مذکورہ کالم میں شہباز شریف کے حوالے سے کسی بھی بات کا ذکر تو نہیں ہوا لیکن چودھری نثار کے حوالے انہوں نے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا کیونکہ ان کہ نزدیک جب تک نثار اسمبلی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد باقاعدہ سیاسی سرگرمیاں شروع نہیں کر دیتے، تب تک ان کے بارے میں کچھ بھی کہنے قبل از وقت ہو گا۔ نثار کے حوالے سے دیگر سیاسی تجزیہ نگاروں کی اس سے ملتی جلتی ایک رائے ہے ماسوائے چند ایک کے جو سمجھتے ہیں کہ نثار کی واپسی معنی خیز ہے اور آنے والے دنوں میں ان کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔

باقی کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان تمام واقعات آپس میں تعلق ہے اور ان تمام تر سیاسی سرگرمیوں کا اثر مستقبل کی سیاست پر نمایاں طور پر نظر آئے گا۔

جہاں تک سوشل میڈیا صارفین کا تعلق ہے تو یہاں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اگرچہ قومی سطح پر سیاسی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کی اہمیت کے حوالے سے تو خاص رائے نہیں دے رہی لیکن وہ ان تمام سرگرمیوں کا جائزہ کسی اور پہلو سے لے رہے ہیں۔ وہ ترین گروپ کے ایکٹیو ہونے کو سیاسی بلیک میلنگ قرار دے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو ترین گروپ کی طرف سے آنے والے کسی بھی قسم کے سیاسی دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کرنا چاہیے اور اگر وہ کسی فراڈ میں ملوث ہیں تو عمران خان اپنے انتخابی منشور کے مطابق ان کا کڑا احتساب کریں چاہے اس کے لئے انہیں کسی بھی قسم کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی۔

شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے حوالے سے عوام کی رائے منقسم ہے۔ تحریک انصاف کے لوگوں میں اس وجہ سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک طاقتور لوگ کرپشن الزامات پر جیل جانے کے بعد ضمانت پر رہا ہوتے رہیں گے تب تک اس ملک میں انصاف کا بول بالا نہیں ہو سکے گا۔ دوسری جانب نون لیگ کے کارکنان شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔

چودھری نثار کے حوالے سے نون لیگ کے اپنے کارکنان تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ نون لیگ کو نثار کو واپس نہیں لینا چاہیے کیونکہ انہوں نے پارٹی کے برے وقت میں ان کا ساتھ نہیں دیا تھا جبکہ دوسری رائے یہ ہے نثار پارٹی کے نظریاتی ورکر اور قیمتی اثاثہ ہیں، اگر وہ پارٹی میں واپس آنا چاہیں تو نون لیگ ان خیر مقدم کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments