پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم کے ساتھ چلنا ممکن ہے؟


پیپلز پارٹی اور اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد پی ڈی ایم عملاً ختم ہو چکی، رمضان المبارک سے پہلے پیپلز پارٹی پر استعفے نہ دینے کا الزام لگا کر پہلے لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا پھر پیپلز پارٹی اور اے این پی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب کے لیے باپ سے ووٹ لینے کا الزام لگا کر شو کاز نوٹس دے کر توہین کی گئی جس پہ دونوں جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف شوکاز کو مسترد کیا بلکہ عوامی نیشنل پارٹی نے تو پی ڈی ایم سے علیحدگی ہی اختیار کرلی اور پیپلز پارٹی کے تمام عہدے داروں نے پی ڈی ایم کے عہدے چھوڑ دیے۔

پی ڈی ایم میں موجود مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز شریف اور ان کے رفقاء اور مولانا فضل الرحمان نے جس طرح پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف مسلسل الزام تراشیاں کیں اور مختلف مواقع پہ زہر اگلنا شروع کیا اس سے پی ڈی ایم میں دراڑیں مزید گہری ہوتی گئیں، مریم نواز تو ایک دم سے پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی سمجھ کر اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت اس پہ ٹوٹ پڑیں اور نتیجتاً یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان اور نون لیگ اور جے یو آئی ف کے کارکنان میں سوشل میڈیا پہ دنگل شروع ہو گیا، نون لیگی انقلابیوں نے حسب سابق پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف وہ زبان استعمال کی جو وہ ماضی میں استعمال کیا کرتے تھے، مریم بی بی کچھ ماہ پہلے پیپلز پارٹی کی مہمان نوازی کو بھول کر طعنہ زنی میں کارکنان کو بھی مات دے گئیں، جبکہ ان کے ساتھ وفا نبھاتے ہوئے مولانا فضل الرحمان اور ان کے جہادیوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یوں پی ڈی ایم خاص ہونے سے پہلے ہی خاک میں ملا دی گئی۔

اس سارے طوفان بدتمیزی کے دوران جہاں مسلم لیگ نون کے مریم نواز دھڑے نے اخلاقیات کا جنازہ نکالا وہیں مولانا فضل الرحمان صاحب کا کردار بھی خاصا متنازع رہا، انہوں نے کسی موقع پہ آپے آپ کو پی ڈی ایم کا سربراہ ثابت نہیں کیا وہ مسلم لیگ نون کے مریم نواز دھڑے کی بی ٹیم کے طور پر کام کرتے اور ردعمل دیتے رہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت کے دوران اپنے کردار کو بھول کر کہ جب اس وقت کی سرحد حکومت کی خاطر انہوں نے پرویز مشرف کا ایل ایف او منظور کروانے کا گناہ عظیم کیا، پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باوجود مخدوم امین فہیم سے قائد حزب اختلاف کا حق چھینا اور حکومتی ووٹوں سے قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے اور بیک وقت حکومتی اتحادی اور حزب اختلاف کا منافقانہ کردار ادا کیا۔ خوشاب اور کراچی کے ضمنی انتخابات کے دوران جس طرح مریم نواز اور مولانا کے رفقاء کار نے پیپلز پارٹی کو ہدف تنقید بنایا اور جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے پیپلز پارٹی کی موجودہ اور شہید قیادت پہ کیچڑ اچھالی گئی وہ پیپلز پارٹی کے کارکنان کے لیے ناقابل برداشت اور ناقابل قبول حرکت تھی۔

ان سارے واقعات کے دوران مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف پابند سلاسل تھے، حمزہ مکمل طور پر خاموش رہے جبکہ گالم گلوچ برگیڈ کی سربراہی مریم نواز کے ہاتھوں میں تھی جس کا انہوں نے خوب استعمال کیا اور دہائیوں پی محیط سیاسی دشمنی کو، جو اعتماد اور مفاہمت کے ایک مثبت بندھن میں بندھ گئی تھی ایک ہی جھٹکے میں توڑ کر چکنا چور کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس ساری صورتحال میں ضبط برداشت کی مثال قائم کی لیکن پارٹی کارکنان نے مسلم لیگ نون اور جے یو آئی ف کے کارکنان کو انتہائی سخت اور منہ توڑ جواب دیا، آج مسلم لیگ مریم نواز دھڑا اور پیپلز پارٹی کی لڑائی اور اختلافات 1990 کی دہائی کی سیاسی محاذ آرائی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں، مگر ان سب میں اب بھی قابل ذکر اور مثبت پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کے بیچ اعتماد اور احترام کی فضا اب تک قائم ہے، چیئرمین بلاول بھٹو نے خوشاب کے ضمنی انتخاب میں کامیابی پہ میاں شہباز شریف کو اور میاں شہباز شریف نے کراچی کے ضمنی انتخاب میں بلاول بھٹو زرداری صاحب کو کامیابی پہ مبارکباد پیش کی، ملکی سیاسی حالات پہ تبادلہ خیال کیا، ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دی جبکہ میاں شہباز شریف نے ایک قدم آگے بڑھ کر بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری کو اپنے ہاں عشائیے پہ بھی مدعو کر لیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور میاں شہباز شریف اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کا ساتھ چلنا کس قدر اہم ہے۔

مولانا فضل الرحمان جیسے زیرک سیاستدان کو مریم نواز کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی نہیں بننا چاہیے تھا ان کی جماعت کے سندھ کے امیر راشد محمود سومرو نے منافقت کی انتہا کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے خلاف اپنے خاندانی اور ازلی بغض میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں سے اتحاد کیا اور حال ہی میں بدین میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں ان کے امیدوار نے وفاقی سرکار کے امیدوار کی حیثیت میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا اور شکست سے دوچار ہوا جبکہ مولانا فضل الرحمان اس ساری صورتحال میں خاموش رہ کر راشد محمود سومرو کی حمایت کرتے اور منافقت کی نئی تاریخ رقم کرتے رہے۔

اب جب کہ مولانا فضل الرحمان صاحب نے 29 مئی کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے تو سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کو اتنی بے عزتی اور گالیاں کھانے کے بعد بھی پی ڈی ایم میں واپس جانا چاہیے، تو میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے پیپلز پارٹی جدوجہد کی ایک تاریخ رکھتی ہے، پیپلز پارٹی نے کبھی کسی بے ساکھی کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل نہیں کی نہ ہی پیپلز پارٹی کسی غیرجمہوری سیاسی سیٹ اپ کا حصہ بنی اور نہ ہی کبھی بننا چاہیے گی۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کو پی ڈی ایم میں دوبارہ شمولیت کا فیصلہ کرتے وقت اپنے کارکنان کے جذبات اور احساسات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا جو مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھیوں کی اخلاقیات سے گری تنقید اور گالم گلوچ سے مجروح ہو چکے ہیں، اگر پارٹی قیادت پی ڈی ایم میں واپسی چاہتی بھی ہے تو پی ڈی ایم کی قیادت پہ کسی غیرجانبدار غیر متنازع شخصیت کو مقرر کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ مولانا فضل الرحمان اعتماد کھو چکے ہیں، مریم نواز کی پی ڈی ایم معاملات میں مداخلت بھی ختم کرنی چاہیے اسی صورت میں پی ڈی ایم میں واپسی شاید پیپلز پارٹی کے کارکنان قبول کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments