طاہر آفریدی بھی صاحب فراش ہیں!


پتہ نہیں یہ مئی کا مہینہ کیوں بھاری گزرنے لگا۔ پہلے طویل علالت کے بعد بیگم نسیم ولی خان مرحومہ و مغفورہ ہو گئی، پھر ایک مہینہے کی علالت کے بعد سلیم راز صاحب راہی ملک عدم ہو گئے۔ میں طاہر آفریدی کے حوالے سے کوئی مایوس کن خبر نہیں پھیلا رہا ہوں لیکن بلا وجہ خوش کن بھی نہیں ہوں کیونکہ طاہر آفریدی طبعی طور پر عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ضعیفی خود بخود وجہ رحلت بن جاتی ہیں اور اوپر سے بندہ مسلسل فالج، دل اور ہائی بلڈپریشر کا بیمار بھی ہو۔

لیکن جن کو جینا ہوتا ہے وہ جی لیتے ہیں۔ مگر جیتے جی تنہائی میں موت کے لئے انتظار کرنا اور اس کی خواہش بھی کرنا شاید عام آدمی اس طرز عمل کو گناہ اور ثواب کے مسئلے سے جوڑ لے لیکن میڈیکل اصطلاح میں یہ ڈپریشن کی آخری حد ہوتی ہے۔ اور اس طرح کے کئی جملے اس بندہ ناچیز نے ہمارے اس بڑے معروف ادیب، افسانہ نگار، سفر نامہ نویس، رپورتاژ نویس، ناول نگار اور ادبی صحافت کے علمبردار طاہر آفریدی کے منہ سے خود سنے ہیں اور ان کے سامنے اس بات پر ان سے الجھنے کی حد تک منع کرنے کا احتجاج تک کیا ہے، لیکن جواب میں یہی کہتے جب زندہ رہنے کی خواہش نہ ہو تو پھر لمبی عمر کی دعائیں مانگنے کا فائدہ کیا۔

اوپر سے بدقسمتی یہ کہ عمر کے اس حصے میں بیگم بھی آخرت کا رخت سفر بانھ کر چلی جائے۔ لاولد ہونا اس سے بھی پہلے جیون میں ایک سیاہ باب کی طرح چمٹ چکا ہو، بھلے بندے کے ساتھ دولت کی فراوانی اور پیسے کی ریل پیل ہو، اس سے تو زیادہ سے زیادہ زندگی کی سہولیات خریدی جا سکتی ہیں، ابدی خوشیاں نہیں یا وہ ضرورتیں نہیں جو فطرت سے مانگی جا سکتی ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ وہ خود ایک لکھاری ہیں اور کئی تخلیقات کے تخلیق کار ہیں۔

اور بقول ان کے یہ سب میرے بچے ہیں اور ان کی وجہ سے ادبی دنیا میں زندہ رہوں گا۔ اور اس میں شک بھی کیا ہے ہر لکھاری اپنے سطروں کی وجہ سے تو یاد کیا جاتا ہے اور جو شخص لوگوں کے دلوں میں زندہ ہو وہ ان لوگوں سے کئی درجے بہتر ہوتا ہے کہ جو کئی مربوں اور مربیوں کی وجہ سے اس دنیاں میں خاص الخاص ہوتا ہے لیکن مرنے کے بعد ان کا کوئی نام لیوا نہ ہو۔ طاہر آفریدی کے پشتو اور اردو ادب کے کئی چاہنے والے ہیں لیکن ارباب اختیار کے سینے میں ان کے لئے کب پیار جاگے گا؟

شاید اللہ نہ کرے ان کی رحلت کے بعد ۔ لیکن بقول شخصے پھر کیا فائدہ! ۔ البتہ افغانستان حکومت اور صدر اشرف غنی کی بات کچھ اور ہے۔ بتاتا ہوں کیوں! ۔ یہ غالباً چار ساڑھے چار سال پہلے کی بات ہے مجھے اسلام آباد سے پشتو ادب کے معروف شاعر اور ادیب عارف تبسم کا فون آیا کہ آپ کو اسلام آباد میں افغانستان ایمبیسی سے زرتشت شمس فون کریں گے، افغانستان سے اشرف غنی کے ادبی ترجمان لال باچا ازمون اور آر۔ ٹی۔ اے یعنی وہاں کے قومی ٹی۔

وی کے منیجنگ ڈائرکٹر زرین انزور کل دن ایک بچے کراچی پہنچیں گے اور ان کے ساتھ طاہر آفریدی کے گھر جانا ہے۔ دوسرے دن ٹھیک ایک بجے کراچی آئے اور کراچی میں افغان کونسلیٹ کے اہلکار اور ان کی گاڑی اور ڈرائیور کے ہمراہ طاہر آفریدی کے گھر گئے۔ راستے میں دیگر باتوں کے علاوہ زرین انزور نے مجھ سے طاہر آفریدی کی مالی حالت کے حوالے سے پوچھا تو میں نے ان کی معاشی حالت کی درست صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان پر اس حوالے سے اللہ کا بڑا کرم ہے۔

طاہر آفریدی کے گھر میں افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے بھیجے ہوئے صحت کے پیغام کے ساتھ ساتھ قالین کا ایک گفٹ بھی دیا اور فارمل فوٹوگرافی کے بعد رخصت ہو گئے۔ کیونکہ پھر ان کو کوئٹہ پروفیسر سیال کاکڑ کے پاس بھی جانا تھا وہ بھی ناسازی طبیعت کے باعث گھر پر بستر پر تھے۔ یہ کالم میں نے اس لئے لکھا کہ تازہ تازہ بری اور تشویشناک خبر یہ ہے کہ طاہر آفریدی کے کرونا رپورٹ پازیٹو آیا ہے اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ فالج، عارضہ قلب اور شوگر کی بیماری کی وجہ سے یہ ایک اچھی علامت نہیں ہیں لیکن زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں ہمیں پھر بھی اچھی امید رکھنی چاہیے۔

میں طاہر آفریدی کے کارناموں کو ادھر نہیں دھرانا چاہتا کیونکہ ہم ہمیشہ کسی کی وفات یا رحلت کے بعد ان کے خدمات اور کارناموں کو سراہتے ہیں اور طاہر آفریدی زندہ ہیں اور اللہ ان کو زندہ اور سلامت رکھیں۔ لیکن کافی وقت سے طاہر آفریدی صاحب فراش ہیں اور گھر تک محدود ہیں۔ ملنے ملانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ ان کی تیمارداری کے لئے معمور ان کے رشتہ دار یونس سے فون پر بات ہو سکتی ہے اور وہ ان کے بارے میں صورت حال بتاتے ہیں۔

آپ اگر ان کے گھر پر چلے بھی جائیں یا فون کر بھی لیں تو اکثر بات ان سے ہو نہیں پاتی یا پھر وہ دوائیاں کھاکر سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ایک دن میں اور امان آفریدی جب ان سے ملنے گئے تھے تو بتایا گیا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں لیکن داد دینی ہوگی امان آفریدی کے حافظے کی کہ یونس سے کہا کہ وہ فلاں کلر کی کتاب فلاں جگہ پر پڑی ہوئی ہے وہ اٹھا کے لے آئے اور لے کر آبھی گئے۔ اور وہ کتاب طاہر آفریدی کی افسانوں کی کلیات تھی جو کابل سے سرکاری طور پر چھپی ہوئی تھی اور یہ ایک کتاب میرے لئے انھوں نے رکھی ہوئی تھی کیونکہ کوئٹہ اکیڈمی کی طرف سے منعقدہ پشتو انٹرنیشنل سیمینار میں لعل باچا ازمون نے مجھ سے خود کہا کہ آپ کے حصے کی کتاب طاہر آفریدی کو بھجوادی گئی ہے آپ ان سے کراچی میں حاصل کرلینا، جس سے مجھے طاہر آفریدی کی افسانو کے انتخاب میں مزید آسانی پیدا ہو سکتی ہے، ویسے تو یہ کام میں پچاس فی صد پہلے سے کر چکا ہوں جو کتابی صورت میں چپ کر انشاءاللہ جلد منظر عام پر آ جائے گی۔ ہماری دعا ہے کی اللہ تعالی ’طاہر آفریدی کو شفائے کاملہ، عاجلہ دائمہ، مستمرہ اور کلیہ عطا فرمائے۔ آمین ثما آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments