کتاب بینی کا بڑھتا ہوا صحت مند رجحان


ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہ شکوہ رہا ہے کہ کتاب کی طرف توجہ کم ہے۔ ایک ہزار کی ”کثیر“ تعداد میں چھپنے والا ایڈیشن ہی کئی سال تک ختم نہیں ہوتا۔ اس میں پبلشر زکی بے ایمانی کی داستانیں بھی کہی سنی جاتی رہی ہیں اور اس پراپیگنڈہ میں کہ کتاب فروخت نہیں ہو رہی یا قاری نہیں ہے پبلشرز مافیا کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ابھی تک بیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں کتاب پڑھنے کا رجحان ہی بہت کم رہا ہے۔

ایسے میں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ویب سیریز اور دوسری کئی قسم کی تفریحات کی وجہ سے مزید خطرہ پیدا ہو چلا تھا کہ کتاب کی طرف رجحان مزید کم ہو جائے گا۔ ان عوامل سے دنیا بھر میں کتاب کی اشاعت کسی حد تک متاثر بھی ہوئی۔ ہمارے ہاں تو پہلے ہی رجحان کم تھا۔ اوپر سے سستے انٹرنیٹ کی موجودگی، ٹک ٹاک، یوٹیوب چینلز، واٹس ایپ ویڈیوز کے ساتھ ہی کتاب کے بارے میں خطرہ پیدا ہو گیا کہ اب تو خیر نہیں۔

ایک زمانے میں پاکستان میں سب سے زیادہ شاعری کی کتابیں چھپا کرتی تھیں، نسیم حجازی کے ناول تھے یا مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے، باقی عملیات اور سستے موضوعات پر کتابچے۔ شاعری کے حوالے سے بھی سفر رکتا ہوا سا محسوس ہوا کہ اردو شاعری میں بھی کچھ عرصے سے انڈیا میں پاکستان سے بہتر کام ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ریختہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے پبلشرز کتاب کی قیمت بھی زیادہ رکھنے پر مجبور تھا۔ اس کے باوجود کراچی اور لاہور کے کچھ بڑے اداروں کی بندش کی روح فرسا خبریں بھی ملتی رہیں۔

خوش آئند بات ہے کہ ہمارے ہاں کسی حد تک کتاب کی طرف توجہ میں بہتری محسوس ہو رہی ہے۔ گو اتنی بڑی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے کوئی حوصلہ افزا اعداد و شمار تو نہیں لیکن گراف نے اپنی سمت تبدیل ضرور کی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ موضوعاتی اعتبار سے ابھی زیادہ انتخاب موجود نہیں لیکن سوانح عمری، ناول نگاری، افسانے، سیاست، تراجم کے علاوہ پرانی کتابوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

عابد میر سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ بلوچستان میں بھی کتاب چھپ رہی ہے۔ صرف بلوچستان میں کوئی درجن بھر پبلشر نئے مارکیٹ میں آئے ہیں۔ پھر سرکاری سرپرستی میں بلوچی اکیڈمی اور سنگت اکیڈمی کتاب طبع کر کے لائیبریری اور دانشوروں تک مفت پہنچا رہے ہیں۔ بک کارنر جہلم خوبصورت طباعت اور مناسب قیمت کا دوسرا نام بنتا جا رہا ہے ان کی ہر کتاب میں ان کا ذوق جھلکتا ہے۔ راقم ان کے ہاں ممتاز شاعر جناب انور مسعود کی فارسی ادب کے چند گوشے اور بعض دوسری کتابوں کی خوب صورتی اور نفاست کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ راشد اشرف اور فضلی سنز بھولی بسری کتابوں کو دوبارہ طبع کر کے ”زندہ کتابیں“ بنا کر چھاپ رہے ہیں۔ ان کے بہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول چھپ بھی رہے ہیں اور فروخت بھی ہو رہے ہیں۔ روف کلاسرا کے کالموں کے مجموعے کا تھوڑے سے عرصے میں تین ایڈیشن شائع ہونا گو تعداد کے لحاظ سے کوئی معرکہ تو نہیں لیکن مثبت رجحان کی نشاندہی ضرور کرتا ہے۔ حسنین جمال کے ساتھ ایک دن اس کی کتاب کے حوالے سے ساتھ رہا اس کی پذیرائی یقیناً خوش آئند ہے۔ عاصم بخشی کے تراجم ایک باذوق اور پڑھے لکھے مترجم کی اعلی کاوش ہے اور عالمی ادب کے تراجم بھی ہو رہے ہیں۔ سائنسی علوم پر کتابیں کم ہیں جو ہیں وہ بھی اکثر تراجم ہیں ان میں بھی زیادہ تر فرسودہ موضوعات ہوتے ہیں لیکن کچھ کام کی چیزیں بھی بہرحال دستیاب ہیں۔ وقار ملک نے بچوں کی نفسیات پر کتاب لکھی جو موضوعاتی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ (یقیناً اور بھی پبلشرز اور مصنفین بہت اعلی کام کر رہے ہیں لیکن سب کے نام لکھنا ممکن نہیں)۔

ہماری سب سے مرغوب صنف یعنی شاعری میں اب چند ہی بڑے نام رہ گئے ہیں۔ لوگوں کو اچھے شعرا کا کلام آن لائن بزبان شاعر بھی دستیاب ہے اور ریختہ کی شکل میں چھپا ہوا بھی مل جاتا ہے۔ اس لئے اس رجحان میں کچھ کمی دیکھی جا رہی ہے یہ رجحان اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ بھرتی کے شاعر اپنی جیب سے کتاب چھپواتے اور مفت بانٹتے دیکھے گئے ہیں۔ اچھی شاعری چھپنی بھی چاہیے اور اس کا ذوق بھی زندہ رہنا چاہیے۔ گو عمیرہ احمد ٹائپ سطحی ناول بھی (جو بکتے خوب ہیں) مارکیٹ میں موجود ہیں لیکن ایسے ادب کا قاری بھی ہر معاشرے میں موجود رہا ہے اور رہے گا۔

مختلف عوامل کی طرح ماہرین کا کتاب پر تنقیدی جائزہ اور تبصرہ بھی قاری کو کتاب کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی لئے مغربی ممالک میں جہاں کتاب کی طرف رجحان زیادہ ہے، بڑے بڑے اخبارات، ٹی وی پروگرام اور دوسرے بہت سے ذرائع سے کتابوں پر تبصرہ ہوتا اور انہیں ریٹ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی بہت کمی ہے۔ محدود سے پیمانے پر اگر ہے بھی تو انصاف پسندی کم ہے۔ بحث اور تنقید قاری کے ساتھ مصنفین کے ذوق اور رجحان کا بھی تعین کرتی ہے۔

ایک اور بات جو قاری اور مصنف کے لئے مالی فائدہ کا باعث بنی ہے یہ کہ انٹرنیٹ کی مہربانی سے ان دونوں کا آپس میں براہ راست تعلق پیدا ہو گیا ہے۔ درمیان کے کتاب فروش کے ہٹ جانے کی وجہ سے رائلٹی میں اضافہ اور قیمت میں کمی ممکن ہو سکی ہے۔ آن لائن آئے دن پرانی کتابوں سے لے کر انگریزی کتابوں، بچوں کی کتابوں اور مختلف پبلشرز کے اشتہارات ملتے رہتے ہیں جن سے کتاب منگوانی بہت آسان ہو گئی ہے۔

اس طالب علم کی رائے میں کتاب پر بحث، کتاب کی اشاعت، اور کتاب کی فروخت بہت ہی صحت مند رجحان ہے۔ یہ جاری رہے گا تو مزید لکھنے والے سامنے آئیں گے۔ بہتر ادب تخلیق ہوگا۔ تنگ نظری اور جہالت کے خلاف کتاب سب سے موثر ہتھیار ہے۔ گولی اور بندوق کے مقابلے پر قلم اور کاغذ سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر ہتھیاروں سے لیس کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments