فلمی شوٹنگ دیکھنے سے انگریزی فلم میں ہماری اداکاری تک کا سفر


دو ہفتہ قبل شہری انتظامیہ کی جانب سے ہمارے گھر سے کوئی دو سو میٹر دور کینیڈا کے اصلی پرانے باشندوں کے مخصوص احاطہ میں ایمیزون ٹی وی کی سیریز ”ریچ“ کے لئے شوٹنگ کی وجہ سے سترہ سے انیس مئی ٹریفک کی کچھ پابندی ہو سکنے کی پیشگی اطلاع کیا ملی۔ علاقہ کے سوشل گروپ اور واٹس ایپ وغیرہ پہ ہی ہیجان نہ رہا بلکہ یہ تین دن نزدیک و دور کے لوگ کیا اور کون کون کے تبصرے کرتے رہے۔ فلم بندی کے شور کی آوازیں آتی رہیں اور ہماری رونق کی شوقین بیگم کے بار بار چکر سے ہمیں رواں تبصرہ ملتا رہا۔ حالانکہ نظارہ صرف احاطہ کے بیرونی گیٹ کے باہر کھڑی پولیس گاڑیوں تک رہا مگر عملہ و اداکاروں کا نزدیک پارک میں کھڑی گاڑیوں سے آنے جانے سامان لانے کے نظاروں اور دور سے دھوم دھڑکا کی آوازوں نے دل بہلائے رکھا۔

ہمارے اوائل جوانی کے زمانے میں فلم انڈسٹری کی معلومات صرف فلمی رسالوں۔ اخباروں کے فلمی صفحوں۔ یا چوکوں میں فلم کے گانے کے چار صفحہ کتابچے شاید ایک آنے میں بیچنے اور خود بھی سناتے جانے والوں کی ہی مرہون منت تھیں۔ کالج میں جا تفریحی ٹور کے ساتھ سارا دن گھومنے کے بعد رات لاہور کے ایورنیو سٹوڈیوز میں۔ شاید انیس سو اٹھاون میں۔ فلم لیلی مجنوں کی شوٹنگ اور فلم بنتے بھی دیکھنے اور اسی دوران نامور ہدایتکار انور کمال پاشا کے منہ سے فلم کی ہیروئن ”بہار“ کی کسی معمولی غلطی پر ( ان کی والدہ بیٹی کے حفاظت کے لئے سیٹ پر موجود تھیں ) ماں بہن کے تمام پہلوؤں پر پھول جھڑتے دیکھنے کے بعد اس وقت ویران سڑک پر شاید چار پانچ کلومیٹر تھکاوٹ سے چور بھوک سے نڈھال پیدل چل چوبرجی کے قریب آ تانگے ملنے کی ”لذت یا تھکاوٹ“ جو کہہ لیں۔

بھی یاد تھی۔ اور پھر انیس سو تراسی میں بچوں کو ساتھ لے شکاگو بڑے بھائی کے پاس آ دونوں فیملیوں کے کیلیفورنیا کے ڈزنی لینڈ میں بھی علامتی اور ہالی وڈ کے علاقے سے گزرتے یونیورسل سٹوڈیوز میں فلم سازی کے تمام مراحل دیکھنے کا لطف بھی لیا تھا اور وہیں آخر میں حاضرین میں سے چند بچوں بڑوں کو بلا ان کو ہدایات کے مطابق ادھر ادھر کراتے شوٹنگ کرتے چند منٹ بعد ہی انہیں کسی لڑائی مار کٹائی سے بھر پور فلم میں جنگلوں دریاؤں اور پہاڑوں پر لڑنے بچنے کی پوری بنی فلم دکھا۔ اس کی ویڈیو کیسٹ فروخت کے لئے رکھی گئی دیکھنے کی حیرانی کا تجربہ بھی ہو چکا تھا۔

مگر جو لطف سب راحتیں تیاگ کینیڈا منتقل ہونے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پاؤں جمانے کی تگ و دو کے دوران برامپٹن شہر سے باہر ویرانے میں۔ اس وقت ساٹھ ستر سال پرانے پٹرول پمپ چلاتے اور ساتھ ہی اوپر والی منزل کے چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے اپنی اس ڈیڑھ ایکڑ پلاٹ والی جائیداد پر ایک اشتہاری فلم کی شوٹنگ کا آیا۔ اور مزید تین چار سال بعد خود میاں بیوی بیٹے نے ایک انگریزی فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے وہ الگ ہی چیز تھی۔

بات یوں بنی کہ میں ایک روز اس بمشکل اپنا خرچہ نکالنے والے پٹرول پمپ پر ڈیوٹی دے رہا تھا کہ ایک کار سوار پٹرول ڈلوا ادائیگی کرتے بولا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک روز آپ پورا دن کاروبار بند رکھیں۔ وضاحت کرتے بتایا کہ وہ ایک فلمی یونٹ کا کارندہ ہے جو اشتہاری فلمیں بناتا ہے۔ اور انہیں ایک بہت پرانے ویرانے میں واقع پمپ کی لوکیشن چاہیے۔ اتفاقاً گزرتے میں نے آپ کے پمپ کو موزوں پایا۔ آپ کو معقول معاوضہ ملے گا۔ کچھ سوچتے عرض کیا کہ اتوار ہفتہ کا کر سکتے ہوں تو میں بیٹے سے کہتا ہوں وہ بات کرے۔ ملاقات ہوتے فون آتے جاتے تفصیلات طے ہوتے۔ رہائشی فلیٹ کے نیچے کرایہ پر دیے گئے ریسٹورنٹ مالک سے بات ہوتے ایک دو روز میں معاہدہ تحریر ہو دستخط ہو چکے تھے۔ اور ہفتہ کے روز کا تعین ہو چکا تھا۔ اور وہ لوگ پمپوں سائن بورڈز۔ ادائیگی والے سٹور اور ہر چیز کی وڈیو اور تفصیلی فوٹوز لے جا چکے تھے۔

مقررہ روز سے ایک روز قبل ہی فلمی یونٹ کی کچھ گاڑیاں کھڑی ہو عملہ پٹرول پمپ ( یہاں گیس سٹیشن کہلاتا ہے ) کے کیبن پر لگے اشتہاری سٹکر سائن بورڈز وغیرہ ہٹانا مٹانا یا اتار رکھنا شروع کر چکا تھا۔ ہفتہ کے روز صبح آٹھ بجے کے قریب یونٹ کے ٹرک گاڑیاں آنا شروع ہو گئیں تھیں ایک دو فوکس ویگن ( یا ووکس ویگن ) کاریں بھی تھیں۔ اور پیچھے ایک سائڈ پہ کھڑی کی گئیں کہ دوسری طرف سے پیچھے کٹائی شدہ سوکھے کھیت بغیر کسی بورڈ وغیرہ پمپ کی حدود واقعی کسی دور غیر آباد ویرانے میں واقعہ پمپ کا منظر پیش کر سکیں۔

اور ہم چارج دے اوپر بالکونی میں بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ داخلی خارجی راستوں پر پولیس کی گاڑیاں پہنچ ٹریفک کے بہاؤ کو جاری رکھے تھیں۔ سٹور کی دیوار کے ساتھ باہر ساتھ لائے گئے تختوں کے ساتھ ایک کیبن سا بن چکا تھا۔ ریسٹورنٹ والے کو سارا دن کافی سنیکس اور کھانا مہیا کرنے کا ( طے شدہ مینو کے مطابق ) یکمشت ملنا تھا۔ مردو و خواتین عملہ بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ کبھی ایک طریق اور کبھی دوسرے زاویہ سے جانچا جا رہا تھا۔

ہماری بیگم کا یہ رونق اور تماشے دیکھنے کی خوشی ہمارا بھی خون بڑھا رہی تھی۔ کبھی ہلہ گلا ہو رہا ہے کبھی کیمرے ادھر ادھر اونچے نیچے ہو رہے ہیں کبھی کچھ تبدیلی کی جا رہی ہے کبھی کچھ۔ وہی ریڈی۔ کلپ۔ کیمرہ آن۔ لائیٹ آن سٹارٹ۔ کٹ۔ ری ٹیک قسم کی آوازیں جو کبھی ایورنیو سٹوڈیوز میں سنائی دی تھیں۔ شام چار بجے تک شوٹنگ مکمل ہو سامان لپیٹ یونٹ کا عملہ جا چکا تھا۔ اور باقی عملہ دوبارہ تمام سائن وغیرہ لگا رہا تھا۔

سٹکر وغیرہ اسی سائز اور ڈیزائن میں نئے بنوا دوبارہ لگائے جا رہے تھے۔ پولیس جا چکی تھی۔ ہم مقررہ وقت سے دو گھنٹہ قبل کاروبار چالو کر چکے تھے۔ اور بہت سے لوگ جو صبح کام پہ جاتے گزرتے ہلچل دیکھتے حیران گزرے تھے واپسی پہ پٹرول لینے کا بہانہ کر پوچھ رہے تھے کہ یہاں رونق کیسی تھی۔ اور سورج غروب ہونے تک باقی عملہ بھی پٹرول پمپ کو مکمل پہلی حالت میں لا رخصت ہو چکا تھا۔ ہمیں آج سے اٹھارہ برس قبل کے اس ایک دن کا معاوضہ سترہ سو ڈالر کا چیک مل چکا تھا۔ انچارج ہمیں اتنا بتا گیا تھا۔ کہ یہ فوکس ویگن کار کے نئے ماڈل کی اشتہاری فلم ہے اور شاید فلاں ٹی وی چینل پر چلے گی۔ گو اس کا ایک ویڈیو ہمیں بھجوانے کا وعدہ تو پورا نہ ہوا۔ مگر ایک روز ہم اس ٹی وی چینل پر وہ اشتہار دیکھتے ہنس رہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بس اتنا سا۔

اشتہار بس یہ تھا۔ کہ دور کہیں ویرانے میں واقع گیس سٹیشن پر گاہک کے منتظر اونگھتے ہوئے مالک کو ایک فوکس ویگن کار پمپ پہ آ کھڑی ہوتی نظر آتی ہے تو وہ چوکنا ہو کھڑا ہو جاتا ہے۔ ڈرائیور نکل کے بجائے تیل ڈالنے کے ادھر ادھر متلاشی نظر سے دیکھتے اس باہر بنائے گئے کیبن کے اوپر ٹوائلٹ کا سائن دیکھ اندر جاتا اور بٹن بند کرتا باہر نکلتا ہے اور کار میں بیٹھنے لگتا ہے۔ پمپ مالک مایوس پریشان باہر نکل سوالیہ دیکھتا ہے۔ تو ڈرائیور ہاتھ ہلاتے کہتا ہے۔ ”یہ نئی فوکس ویگن ڈیزل ہے اور ایک ٹینک میں چھ سو میل جاتی ہے۔ تمہارا شکریہ“ اور کار سٹارٹ کر یہ جا وہ جا۔ اور پمپ مالک ماتھا پیٹتے واپس اندر چلا جاتا ہے۔

یہ شاید پینتالیس سیکنڈ کا اشتہار تھا۔ سارا دن ہمارے لطف اندوز ہونے اور دیکھنے کے ساتھ یہ احساس بھی تھا کہ بظاہر بہت معمولی کام بھی کتنی محنت۔ لگن۔ وقت۔ تگ و دو اور مناسب منصوبہ بندی و انتظام مانگتے ہیں۔ اور یہی کامیابی کی کنجی ہے

چند برس مزید گزر چکے تھے گیس سٹیشن فروخت کر کے برامپٹن شہر میں بہت معقول رہائش اختیار کر چکے تھے نئے ملک میں صفر سے دوبارہ شروعات کرنے کی مشکلات سے نکلتے۔ بیٹا جائیداد کی خریدو فروخت میں معاونت کا لائسنس لے اس میں بھاگ دوڑ کرتے جوئیہ صاحب ( مرتضی ’جوئیہ ) سے راہ و رسم بنا چکا تھا تھا۔ جوئیہ صاحب شگفتہ طبیعت کے بہت اچھی آواز والے پنجابی کے شاعر اور گلوکار تھے۔ ان کی ایک کیسٹ ”منجی کتھے ڈاہواں“ کے نام سے ویسے ہی شگفتہ گیتوں والی بھی ملی اور چند مرتبہ گھروں میں آتے جاتے ان کی آواز کے ہم معترف بھی ہوئے۔

عزیز میاں قوال کے صاحبزادہ اور دوسروں کے ساتھ جوئیہ کی پرفارمنس والے شو کا بھی لطف لیا۔ شدید سردیوں میں جوئیہ کا فون آیا کہ ان کے ایک فلمی پروموٹر دوست نے ہفتہ کی شام ایک انگریزی فلم کی شوٹنگ کے لئے چند دوست ساتھ لانے کی درخواست کی ہے۔ آپ بھی آجائیں۔ انگریزی فلم کی شوٹنگ کی رونق بھی ہوگی۔ آنٹی خصوصی خوش ہوں گی۔

شدید سرد رات ہلکی برف باری اور رات ساڑھے دس بجے پارکنگ میں کار کھڑی کرتے سویٹر کوٹ اوور کوٹ ٹوپی مفکر میں لپٹے ہم ٹورنٹو شہر کی مرکزی معروف سڑک ینگ سٹریٹ ( نارتھ یارک ) کی ایک بلندوبالا عمارت کی نچلی منزل میں داخل ہوئے۔ ابھی منتظمین ہمیں میز پہ پڑی کافی سنیکس وغیرہ لینے کا کہہ ہی رہے تھے کہ باہر جانے اعلان ہو گیا۔ ایک گھنٹہ کوئی تین چار سو افراد کو گرتی برف میں وسیع پارکنگ لاٹ میں با جماعت نماز کی طرح سیدھی قطاروں میں ترتیب میں لگا بالکل درمیاں میں آٹھ دس فٹ جگہ خالی چھوڑی گئی تھی جیسے سنیما ہال میں کرسیوں کے درمیان ہوتی ہے۔

کرینوں کے ساتھ فلڈ لائیٹس اور کیمرے لٹک رہے تھے کٹ سٹارٹ ریڈی لائٹ قسم کے نعرے گونجتے اچانک سب قطاروں کے درمیان آ کے سمجھایا گیا کہ ہم مؤدب کھڑے ہوتے صرف منہ راہداری کی طرف موڑ کھڑے ہونا ہے۔ ریہرسل کرائی گئی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک انتہائی شاندار قیمتی منقش جنازہ کا صندوق اٹھائے باوردی سپاہی بینڈ کے ساتھ پیچھے سے راہداری میں آگے آرہے ہیں۔ کیمرے چل رہے ہیں جنازے کے گزرنے والی جگہ کے ساتھ کھڑے ”ایکٹروں“ کے چہروں کو جھانکتے قطاروں کی اور جنازہ گزرنے کی فلم بنائی جا رہی ہے۔

دو تین مرتبہ مختلف انداز میں یہ سین دہرایا گیا۔ ہمیں اب پتہ چلا تھا کہ ہم میاں بیوی بیٹا کسی بہت معزز یا رئیس یا صاحب اقتدار کے جنازے کے معزز چنیدہ سوگوار شرکاء کا کردار ادا کرتے روس اور کینیڈا کی مشترکہ کاوش والی انگریزی فلم میں کام کرنے کا شرف حاصل کر چکے تھے۔ شوٹنگ ختم ہو چکی تھی اور ”معزز“ شرکائے جنازہ کو دوبارہ ہال میں آ کافی کی چسکی اور سنیک لینے کا اعلان کیا جا چکا تھا۔ درجہ حرارت منفی بیس سنٹی گریڈ سے بھی نیچے تھا۔

خاصی تیز ہوا کے ساتھ برفباری یخ کر رہی تھی۔ ہال میں لگی قطار میں باری آتے بیس پچیس منٹ کا خطرہ دیکھتے ٹھٹھرتے کانپتے ہم اپنی کار میں سوار ہیٹ آن کرتے۔ ایور نیو سٹوڈیو سے تھکے بھوکے نیند سے گرتے چوبرجی تک کا پیدل سفر یاد کرتے۔ شوٹنگ دیکھنے اور ایکٹنگ کرنے اور اداکار بننے کی باتیں کرتے ایک گھنٹہ کے سفر پر گھر کی طرف رواں تھے۔ کہ اچانک عرصہ پہلے پاکستان میں سنا ایک لطیفہ یاد آتے ہی قہقہہ چھوٹا اور ہم بیوی اور بیٹے کو سنا رہے۔

دو دوست عرصہ بعد ملے۔ حال احوال پوچھتے۔ ایک نے پوچھا۔ تو آج کل کیا ہو رہا ہے۔
بس یار۔ اب تو فلموں میں ایکٹنگ شروع کردی۔
واہ جی تو کون کون سی فلم میں کام کیا
ابھی تو پہلی ریلیز ہوئی ہے۔ ( مثلاً ) ڈنڈا ڈولی
اچھا۔ یار وہ تو میں نے دو تین بار دیکھی ہے تم تو نظر نہیں آئے۔
اچھا تو تمہیں یاد ہے۔ اس میں جنازے والا سین۔
بالکل بالکل
اس میں چار آدمی جنازے والی چارپائی اٹھائے جا رہے ہیں
ہاں ہاں۔ تو تم چارپائی اٹھانے والوں میں سے ایک تھے
نہیں یار۔ چارپائی کے اوپر کفن میں لپٹا میت بنا تھا۔

قہقہوں کے طوفان اور انجن سے آتی گرم ہوا نے ٹھنڈ اتار دی تھی۔ کار گیراج میں داخل ہو رہی تھی اور ہم بڑے فخر سے گردن اکڑائے نکلتے سوچ رہے تھے۔ کہ ہم بھی ان پاکستانیوں میں شامل ہو چکے جنہیں کینیڈا اور روس کی مشہور کمپنیوں کی مشترکہ پیشکش انگریزی اور روسی زبان کی فلم میں اداکاری کا اعزاز حاصل ہو چکا۔ بلکہ گھر کے تمام افراد کو انگریزی فلم میں اداکاری کے جوہر دکھانے کا منفرد اعزاز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments