افغانستان :قیام امن اور خدشات!


فروری 2020 ء میں امریکا اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحا میں ڈھائی برس کے مذاکرات کے بعد امن معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔ معاہدے کے مطابق رواں برس مئی کے مہینے تک افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا مکمل ہونا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ دوحا معاہدے کے مطابق بین الافغان مذاکرات میں اتفاق رائے سے طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنا تھا بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ان کو حکومت میں حصہ دینا تھا لیکن یہ بھی بوجہ ممکن نہیں ہوسکا۔

افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اس معاہدے کے اس لئے مخالف تھے کہ ڈھائی برس تک امریکا، طالبان کے ساتھ بات چیت کرتا رہا لیکن طالبان کے کہنے پر کا بل انتظامیہ کو ان مذاکرات میں شریک نہیں کیا گیا۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہوتے تو ممکن تھا کہ آج حالات مختلف ہوتے لیکن وہ صدر منتخب نہ ہو سکے۔ ان کی جگہ جو بائیڈن صدر منتخب ہوئے۔ پہلے انھوں نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا دوبارہ جائزہ لیں گے، لیکن چند روز بعد انھوں نے افغانستان سے رواں برس ستمبر کے مہینے تک تمام بیرونی افواج کے انخلا کا اعلان کر دیا۔

افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد اب یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اگر امریکا، طالبان اور افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کسی عبوری نظام یا مو جودہ نظام میں طالبان کی شراکت پر متفق نہ ہوئے تو پھر افغانستان میں امن کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال کا جائزہ لینے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ دوحا مذاکرات میں طالبان کا پلڑا بھاری تھا۔ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے طالبان نے روز اول سے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ بات چیت ہو گی تو صرف امریکا سے ہوگی۔

مذاکرات میں بنیادی نقطہ یہ ہوگا کہ امریکا، افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کا نظام الاوقات دے گا۔ امریکا، طالبان کے شرائط پر ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر راضی ہوا۔ ڈھائی برس طالبان کے ساتھ دوحا میں بات چیت ہوتی رہی لیکن کابل انتظامیہ کو اس سے دور رکھا گیا۔ فروری میں جو معاہدہ ہوا اس میں امریکا نے لکھ کر دیا کہ رواں برس مئی تک وہ تمام افواج کو افغانستان سے نکال لیں گے۔ اگر چہ نیٹو اور صدر غنی انتظامیہ مخالفت کرتے رہے لیکن امریکا نے ان دونوں کی کوئی پروا نہیں کی۔

جب سے صدر بائیڈن نے افواج کے انخلا کا حتمی اعلان کیا ہے۔ افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے دوبارہ مزاحمت تیز کردی ہے۔ جو علاقے ان کے زیر قبضہ تھے ان میں ان کے نقل و حمل میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں پر ان کو امید تھی کہ ان علاقوں کو وہ باآسانی قبضہ کر سکتے ہیں وہاں انھوں نے پیش قدمی شروع کردی ہے۔ کابل اور قندھار پر قبضہ کرنے کے لئے وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ لیکن اس میں تیزی اس وقت آئے گی جب باضابطہ طور پر امریکا، افغانستان سے انخلا کا اعلان کرے گی اور اختیارات صدر غنی انتظامیہ کے حوالے کر دے گی۔

طالبان کی کوشش ہے کہ ایک طرف وہ بین الافغان مذاکرات کے نام پر قطر دفتر کے ذریعے امریکا کو مصروف رکھے جبکہ دوسری طرف وہ بیرونی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پر قابض ہونے کے لئے بھر پور جنگی تیاریوں میں بھی مصروف ہے۔ افرادی قوت کو جمع کیا جا رہا ہے۔ ان کی تربیت کے لئے جنگی تربیتی مراکز کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے۔ مجاہدین کی دیکھ بھال اور ایک بڑی جنگ کے لئے سرمایہ اور اسلحہ بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے۔

افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کے معاملے پر امریکا جس جلد بازی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ واشنگٹن اس خطے میں امن کی بجائے جنگ کی خواہش مند ہے۔ اگر انخلا سے قبل امریکا، افغانستان میں قیام امن کے لئے متعلقہ فریقین پر مشتمل کوئی نظام نہ دے سکا تو پھر یہ خطہ ایک اور جنگ کا شکار ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں موجود پاکستان طالبان دوبارہ متحرک ہونے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود وہ عناصر جو کسی وجہ سے خاموش تھے وہ دوبارہ افغان طالبان کا ساتھ دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت صرف کابل تک محدود ہے۔ ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ کابل کا دفاع کرسکے۔ ڈاکٹر عبداللہ گزشتہ دو دہائیوں سے مزاحمت چھوڑ کر سیاسی عمل میں شریک ہیں۔ ان کے لئے طالبان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ حکمت یار بھی اس قابل نہیں کہ وہ طالبان کے مزاحمت کا مقابلہ کر سکے۔ باقی جو بھی افغان مزاحمتی گروپ ہے ان میں رشید دوستم کے علاوہ کوئی اور اس قابل نہیں کہ طالبان کا سامنا کرسکے۔ رشید دوستم کے حوالے سے طالبان کا اس مرتبہ منصوبہ بندی یہ ہے کہ اگر انھوں نے مزاحمت کی تو ان سے آخری معرکہ ہوگا۔

خطے کو ایک اور جنگ سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ علاقائی طاقتیں امریکا کو مجبور کریں کہ انخلا سے قبل افغانستان میں عبوری نظام تمام افغانوں کی مشاورت سے بنائی جائے ورنہ انخلا کے بعد حالات کو سنبھالنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بعد میں اسلام آباد یا کوئی اور ملک حالات کو قابو کر لے گا تو یہ ان کی غلط فہمی ہے اس لئے کہ بندوق والا پھر کسی کا نہیں سنتا وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کو کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس لئے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ امریکی انخلا سے قبل کرنا ہوگا۔ اگر ایک مرتبہ پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو پھر اس پر قابو پانے کے لئے مزید بیس برس درکار ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments