بیلاروس میں ”باغی صحافی“ کی گرفتاری


زمانہ طالب علمی سے ”اب راج کرے گی خلق خدا“ اور ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ والے خواب دیکھے ہیں۔ ان کی بدولت گماں یہ لاحق رہا کہ کوئی آمر خواہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو اقتدار چھوڑ کر راہ فرار ڈھونڈنے کو مجبور ہوجاتا ہے اگر عوام اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ جائیں۔ کسی بھی ملک کے بڑے شہروں میں جمع ہوئے ہجوم کو ریاستی قوت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے قابو میں لانا ناممکن ہے۔ نہتے مظاہرین کے خلاف لاٹھیاں اور آنسو گیس بے بس نظر آئیں تو ریاستی اداروں کو بالآخر گولیاں برسانا ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہوئی ہلاکتیں ”عالمی ضمیر“ نامی کسی شے کو چراغ پا بنا دیتی ہیں۔ آمریت اس کے روبرو سرنگوں ہوجاتی ہے۔

” ہمارے پہلے آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف 1968 میں ایسی ہی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977 میں نو ستاروں والی تحریک چلی۔ نظر بظاہر حالیہ تاریخ میں جنرل مشرف کے زوال کا حقیقی سبب افتخار چودھری کی 2007 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے برطرفی کے خلاف چلی تحریک تھی۔

ہمارے کئی محققین اگرچہ اصرار کرتے ہیں کہ مذکورہ تحاریک عوام کی فطری اور برجستہ جدوجہد کی نمائندہ نہیں تھیں۔ کوئی آمر کامل اختیارات کے ساتھ اقتدار پر تاحیات براجمان رہنے کی ضد میں مبتلا نظر آئے تو اس کے خلاف عوام کے دلوں میں ابھرتے غصے سے حکمران اشرافیہ بطور گروہ پریشان ہوجاتی ہے۔ اشرافیہ کے کائیاں نمائندے سازشی انداز میں آمر کے خلاف برپا ہوئی تحاریک کی سرپرستی کرتے ہیں۔ وہ بے بس ہو کر مستعفی ہوجاتا ہے۔ عوام کی بھڑاس اس کی فراغت سے پریشر ککر میں جمع ہوئی بھاپ کی مانند ہوا میں اڑ جاتی ہے اور یوں ریاستی نظام کو مزید استحکام میسر ہوجاتا ہے۔ پھکڑپن کی اجازت ہو تو کہہ سکتا ہوں کہ ہر شے ”آنے والی تھاں“ پر واپس آ جاتی ہے۔ جنرل ضیاء کے دس برس اس سوچ کی حمایت میں بطور حوالہ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مصر میں نام نہاد ”عرب بہار“ کا جو انجام ہوا اسے بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

سرد جنگ کے اختتام کے بعد ”نظام کہنہ“ کو دوام فراہم کرنے کے لئے تاہم ”عوام کی بھرپور حمایت سے“ اقتدار میں آئے ”دیدہ وروں“ کی آمریت کا چلن شروع ہوا۔ ترکی کے ”سلطان اردوان“ اور بھارت کا ”نریندر مودی“ اس کی بھرپور علامتیں ہیں۔ ٹرمپ نے بھی ان کی نقالی کی کوشش کی۔ صدیوں کی محنت سے مستحکم ہوئی جمہوری روایات اور اداروں کے ہاتھوں مگر شکست سے دو چار ہوا۔ بطور امریکی صدر چار سالہ اقتدار کی ایک اور ٹرم بھی نہ حاصل کر پایا۔

پاکستان جیسے ممالک میں لیکن جمہوری روایات اور ادارے امریکہ کی طرح مستحکم اور توانا نہیں۔ ”عالمی ضمیر“ نامی شے بھی اب ریاستی جبر کے بے دریغ استعمال کی بابت سرد جنگ کے دنوں کی طرح پریشان نہیں ہوتا۔ برما میں اس برس کے فروری میں وہاں کی فوج نے ایک بار پھر مارشل لاء لگادیا۔ اس کے خلاف جاری تحریک بہت جاندار ہے۔ نوجوان لڑکوں اور خواتین کی کثیر تعداد سینکڑوں ہلاکتوں کے باوجود سرنگوں ہونے کو تیار نہیں ہو رہی۔ برما میں ”جمہوریت کی بحالی“ کے امکانات مگر دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ ریاستی ڈھانچے نے مزاحمت کو کار بے سود میں بدل ڈالا ہے۔

ابھی تک جو لکھا ہے اسے پڑھ کر میرے کئی ”انقلابی“ قارئین نے غالباً فرض کر لیا ہوگا کہ میں ”اب یہاں کوئی نہیں۔ کوئی نہیں آئے گا“ جیسا مایوس کن پیغام دینا چاہ رہا ہوں۔ عمر کے آخری حصے میں توانائی اور لگن سے محروم ہوا یہ طے کر بیٹھا ہوں کہ ”تبدیلی“ کی خواہش رائیگاں کا سفر ہے۔ سر جھکائے اپنے کام سے کام رکھو۔ ”چپ کر دڑ وٹ جا“ والی غلامانہ شکست خوردگی۔

فرض کیا میں یہ پیغام دے بھی رہا ہوں تو یہ احمقانہ عمل ہوگا۔ ”تبدیلی“ یا بدترین آمریت کے خلاف بغاوت کی خواہش انسانی جبلت میں شامل ہے اور ہر دور میں اس کے لئے تڑپنے والے اظہار اور مزاحمت کی نت نئی صورتیں ایجاد کر لیتے ہیں۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا اس تناظر میں اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے۔

کئی عرب ممالک میں ٹویٹر کو ”عرب بہار“ کا کلیدی ہتھیار مانا گیا تھا۔ اسی باعث آمرانہ روش کی عادی بے تحاشا ریاستوں نے اپنے ہاں کے مین سٹریم میڈیا کو مکمل طور پر قابو میں لانے کے بعد ٹویٹر اور فیس بک جیسی ایپس پر پابندی لگادی۔ واٹس ایپ پربھی کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ امریکہ میں لیکن 6 جنوری 2021 والا واقعہ ہوا تو آزادیٔ اظہار کی سب سے بڑی چمپئن ہوئی دنیا کی واحد سپر طاقت نے بھی ان ایپس چلانے والی کمپنیوں کو مجبور کیا کہ وہ نفرت بھڑکاتے پیغامات کے فروغ کو روکنے کے راستے ڈھونڈیں۔ ٹرمپ کو ابھی تک ٹویٹر اور فیس بک استعمال کرنے کی سہولت نہیں لوٹائی گئی ہے۔ ٹویٹر اور فیس بک والے نفرت بھڑکاتے پیغامات کو ان کے خلاف موصول ہوئی شکایتوں کے بعد ہٹا دیتے ہیں۔ حکومتیں اگر کچھ پیغامات کے ذریعے اپنا ”بیانیہ“ فروغ دیتی نظر آئیں تو وضاحت کردی جاتی ہے کہ ایسے پیغامات فلاں ریاست کے سرکاری یا زیر پرست ادارے کی جانب سے پوسٹ ہوئے ہیں۔

انٹرنیٹ کی ایک Appمگر کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آ رہی۔ Telegramاس کا نام ہے۔ ایک دیوانے روسی نوجوان نے اسے ایجاد کیا تھا۔ آج بھی وہ فقط 36 برس کا ہے۔ اس ایپ پر پیغام دینے والے کا سراغ لگانا ریاستی اداروں کے لئے تقریباً ناممکن ہے۔ جس ملک میں بھی انٹرنیٹ موجود ہے وہاں محض موبائل فون کے ذریعے ٹیلی گرام کو اپنا پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایپ ان دنوں ایران کے نوجوانوں میں بھی بہت مقبول ہے۔ اسے چلانے والے جھکنے کو تیار نہیں ہو رہے۔

مذکورہ ایپ کا بھرپور استعمال ہمیں بیلا روس نامی ملک میں بھی نظر آیا۔ روس کے ہمسائے میں یہ ایک کروڑ کی آبادی والا چھوٹا سا ملک ہے۔ کبھی سوویت یونین کا حصہ تھا۔ سوویت یونین کا زوال ہوا تو وہاں Alexander Lukashenkoجیسا دیدہ ور نمودار ہو گیا۔ وہ 26 برس سے مسلسل اقتدار میں ہے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اس نے گزشتہ برس کے اگست میں ایک اور صدارتی ”انتخاب“ کا انعقاد کیا اور ”بھاری اکثریت“ سے جیت گیا۔ عوام دھاندلی کا شور مچاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ دیدہ ور مگر ٹس سے مس نہیں ہوا ہے۔ کئی مہینوں تک برپا رہی تحریک اب تھکن کے ہاتھوں دم توڑ رہی ہے۔ دیدہ ور کے خلاف جدوجہد مگر جاری ہے۔

اس جدوجہد کو زندہ رکھنے کے لئے جلاوطن ہوئے چند صحافیوں نے Nexta۔ Liveکے نام سے ایک ٹی وی چینل ٹیلی گرام نامی ایپ پر بنا رکھا ہے۔ وہ ”دیدہ ور“ کی چیرہ دستیوں کو مسلسل بے نقاب کر رہا ہے۔ اس کے چہیتے وزیروں کی کرپشن کہانیاں اجاگر کرتا رہتا ہے۔ اس ٹی وی چینل کا روح رواں صحافی مگر اتوار کے دن یونان کے ایک طیارے میں بیٹھ کر بیلا روس کے ہمسایہ ملک لیتھووینا جا رہا تھا۔ طیارہ جب مذکورہ ملک کی جانب پرواز کر رہا تھا تو اس کے پائلٹ کو بیلا روس کی حکومت نے ”اطلاع“ دی کہ طیارے میں بم کی موجودگی کے اشارے ملے ہیں۔ طیارے اور اس میں سوار مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے لہٰذا پائلٹ اپنا طیارہ فوری طور پر بیلا روس کی جانب موڑ دے اور وہاں لینڈ کرے۔ پائلٹ ابھی کوئی فیصلہ بھی نہیں کر پایا تھا کہ بیلا روس کے جنگی طیارے میزائلوں سے لیس ہوئے اسے لینڈنگ کی راہ دکھانا شروع ہو گئے۔

طیارہ جب بیلا روس میں لینڈ ہو گیا تو اس میں سوار باغی صحافی کو اتار لیا گیا۔ اس کے ہمراہ سفر کرنے والے چند مسافر بھی جو یقیناً بیلا روس کے سیکورٹی اداروں کے نمائندے تھے وہیں اتر گئے۔ چند گھنٹے گزرنے کے بعد طیارے کو اپنی منزل کی جانب پرواز کرنے کی اجازت مل گئی۔

بم کی جھوٹی اطلاع کے ساتھ ایک مسافر طیارے کو جنگی طیاروں کی نگرانی میں بیلا روس اترنے کو مجبور کرنے والے واقعہ نے یورپی ممالک میں ہاہاکار مچا دی ہے۔ اس کے ذریعے ”باغی صحافی“ کی گرفتاری نے ”انسانی حقوق“ کی بابت بھی بے شمار سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اجتماعی ردعمل تیار کرنے کے لئے پیر کے روز یورپی یونین کا ہنگامی اجلاس ہوگا۔

بیلا روس کے ”دیدہ ور“ نے تاہم انتہائی ڈھٹائی سے فی الوقت اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ باغی صحافی کو عبرت کا نشان بنا کر وہ اپنے خلاف جاری مزاحمت کو مزید بے بس و لاچار ثابت کرے گا۔ ”عالمی ضمیر“ نامی شے اس ضمن میں جو رویہ اختیار کرے گی وہ کئی اعتبار سے تاریخی نظیر اور سنگ میل ثابت ہوگا۔ عوامی تحاریک کے متمنی دلوں کو اس واقعہ کے انجام اور مضمرات پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔

بشکریہ: نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments