اپوزیشن کی ٹرین مس؟

عاصمہ شیرازی - صحافی


سادہ صفحے پر لکھی تحریر کو پڑھنے کے انداز الگ ہیں۔ لکھنے والا جب تحریر پیچیدہ بنا دے تو ہر گُزرتا دن حالات کو اور مشکل اور امکانات کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ عالمی سیاست اور اس میں خطے کی سیاست اور اُس سے جُڑی ہماری مقامی سیاست۔۔۔ سب ایک لڑی میں ہیں۔

ایک سادہ سی تصویر تو یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے اور اسے جانے میں پاکستان کی مدد بھی چاہیے۔

پاکستان مدد کرنے کو تیار لیکن شرائط کیا ہیں؟ بساط بچھ چکی ہے اور سارے کھلاڑی اسی گیم کے اردگرد اپنا اپنا کھیل سجا رہے ہیں۔ ایسے میں قومی اور بین الاقوامی قوتیں اپنے اپنے آپشنز پر نگاہ رکھ کر بیٹھی ہیں کیونکہ ہر واقعہ یا معاملہ تنہا نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس کے نتائج الگ تھلگ۔

یہ بحث کہ عالمی سطح پر کیا معاملات ہیں اور ہم کھیل میں کس کے ضامن ہوں گے ایک طرف جبکہ دوسری جانب قومی سیاست ایک ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند ہوتی چلی جا رہی ہے جس میں ہلچل نہ ہو تو بساند بھر جاتی ہے۔

شہباز شریف کی واپسی کے بعد سیاست میں قدرے ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ ’کسی نے دعا دی اور کوئی جل گیا‘ کے مصداق شہباز شریف کی سیاسی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ بغیر مقصد کے حزب اختلاف کا کیا مصرف جبکہ ن کی سیاست میں ’بازی کھیلنے کی شرط کس کے ہاتھ‘ کی کنفیوزن الگ۔۔۔ ایسے میں ن لیگ کے اندرونی معاملات ایک خاص مقام پر آ کر رُک گئے ہیں۔

ن لیگ اور اپوزیشن حکومت مخالف بیانیہ تشکیل دینا چاہتی تھیں۔۔ دے دیا ۔۔۔ حکومت کی کارکردگی پر عوام کی رائے بنانا چاہتی تھیں۔۔ بن گئی۔۔ حکومت مخالف تحریک چلانا چاہتی تھیں۔۔ نہیں چلا سکیں۔۔۔ وجوہات مختلف ہیں۔ ن لیگ نے الزام پیپلز پارٹی پر دھرا کہ مستعفی نہیں ہو رہے اور یوں الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوا۔ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی اور اپوزیشن تسبیح کے دانوں کی مانند بکھر گئی۔

پی ڈی ایم ٹوٹنے کا فائدہ حکومت اور طاقت ور حلقوں کو ہوا یا نہیں، اپوزیشن اتحاد کو اس کا ناقابل تلافی نقصان ضرور پہنچا، جس نے ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ طاقتور حلقے ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے اور ’بات چیت‘ کی اہمیت زور و شور سے بیان ہونے لگی۔

اسی دوران شہباز شریف رہا ہو گئے۔

شہباز شریف کسی بات چیت کا حصہ تھے یا نہیں لیکن اُنھیں لندن جانے سے روکنا ٹھیک اسی طرح اہمیت اختیار کر گیا جس طرح چوہدری نثار کا خود ساختہ حصار سے نکلنا اور تین سال بعد اسمبلی کے حلف کی حامی بھرنا خبر تھا یا نہیں تاہم اُنھیں حلف سے روکنا کسی اہم پلان کا پتہ ضرور دے گیا۔

شہباز شریف سیاست میں مختلف آپشنز کے ساتھ ایک بار پھر متحرک ہوئے۔

تین سال پہلے جس نامکمل پلان کے ساتھ معاملات کا آغاز ہوا اُس کے سرے دوبارہ جوڑے گئے تاہم اس راہ میں کئی ایک مشکلات ہیں اور پہلا سامنا اُنھیں گھر سے ہی کرنا پڑ رہا ہے۔

مریم نواز ن لیگ کی سیاست میں بہت اہم کردار بن گئی ہیں مگر وہ اور مولانا پی ڈی ایم جبکہ شہباز پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن کا مرکز بن رہے ہیں۔ ایک ہی جماعت میں دو الگ الگ سیاسی کردار وجود میں آ چُکے ہیں تاہم جماعت میں اثرورسوخ کس کا ہوگا یہ فیصلہ عنقریب نواز شریف کو ہی کرنا ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ اپوزیشن کے آپشنز محدود ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی وسط المدتی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا چاہتی تھی جبکہ ن لیگ عارضی سیٹ اپ کا حصہ بننے کو تیار دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسے میں شہباز شریف کو اپنی جماعت کے اندر کم از کم پنجاب میں انتخابات سے قبل ماحول تیار کرنا ہے جبکہ نواز شریف اُسے مریم نواز کی سیاست سے مشروط کرنا چاہتے ہیں۔

شہباز شریف کی لندن یاترا کے کئی ایک اہم فیصلوں میں ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں جماعت کس کے ہاتھ ہونی چاہییے تاکہ یکسوئی کے ساتھ سیاست کی جائے اور آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ جماعت رائے ونڈ، لندن اور ماڈل ٹاؤن سے نکل کر مفاہمت کے بیانئے کے ساتھ کسی ڈیل کا نہیں تو کم از کم انتخابات سے قبل اسٹیبلشمنٹ سے بہتر تعلقات اور نتیجے میں ’یکساں مواقع اور سلوک‘ کی راہ ہموار کر سکے۔ اس میں کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں ن لیگ کے لیے انتہائی اہم ہو گی۔

جون کے مہینے میں جہاں حکومت کو ایک اچھا بجٹ دینا ہے اور وہ اس کوشش میں ہے کہ وہ ایک انتخابی بجٹ دے سکے، جس سے ایک طرف ترقیاتی فنڈز سے سیاسی خوشنودی اور دوسری جانب عوامی حمایت بھی حاصل ہو۔

معاشی اعداد و شمار بھی کرشماتی بلکہ معجزاتی طور پر پیش کیے جانے لگے ہیں، غرض ہر طرح سے حکومت خود کو انتخابات کے لیے تیار کر رہی ہے۔

چوہدری نثار ہوں یا جہانگیر ترین گروپ، شاہ محمود قریشی کا ’حلقہ احباب‘ ہو یا ن لیگ کا مزاحمتی بمقابلہ مفاہمتی بیانیہ۔۔۔ یہ سب محض آپشن کے طور پر ہی رہیں گے۔ حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں ذرا سا معاشی سہارا بھلے کسی بھی قیمت پر ہو اپوزیشن کی ٹرین مس کرا سکتا ہے البتہ شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کا ’مفاہمتی بیانیہ‘ گیم پلان اب بھی بدل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).