پاکستان میں خواتین کے زیر جامہ ملبوسات کی فروخت اور تشہیر کو اتنا معیوب کیوں سمجھا جاتا ہے؟

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان

پندرہ ماہ پہلے جب مارک مور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک شاپنگ سینٹر میں زیرِ جامہ پہنے جانے والی ملبوسات یعنی انڈر گارمنٹس کی ایک دکان پر کپڑے اور ڈیزائن پر تحقیق کرنے کی غرض سے پہنچے، تو دُکان کے کالے شیشے دیکھ کر سمجھے کہ وہ غلط جگہ آ گئے ہیں۔

لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ دکان کا نام صحیح ہے تو انھوں نے اندر جانے کی کوشش کی لیکن اسی وقت دکان کے باہر موجود دو سکیورٹی گارڈز نے انھیں اندر جانے سے روک دیا۔

اُن سے پوچھا گیا کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں اور خواتین کے زیرِ جامہ ملبوسات کی دکان میں کیوں جانا چاہتے ہیں؟

اس سے پہلے کہ مزید گرما گرمی ہوتی، مارک کے ایک پاکستانی دوست نے سکیورٹی پر مامور گارڈ کو بتایا کہ ’مارک سفیر ہیں اور اپنی اہلیہ کے لیے انڈر گارمنٹس خریدنا چاہتے ہیں‘ اور یوں اُن کو وہاں سے جانے دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

’برا‘ خواتین کو کب اور کیسے پہنائی گئی؟

’مرد سرمایہ کاروں سے زیرِ جامہ پر بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی‘

پیسوں کی وصولی کے لیے قرض داروں کے انڈرویئرز کی نیلامی

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مارک مور سفیر نہیں ہیں بلکہ برطانیہ کے علاقے لیسٹر سے تعلق رکھنے والے ایک ڈیزائنر ہیں جنھوں نے زیرِ جامہ ملبوسات بنانے کے لیے فیصل آباد میں کارخانہ لگایا ہے۔

اس سے پہلے مارک ترکی، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں انڈر گارمنٹس بنانے والی کمپنی ’مارک اینڈ سپینسر‘ اور ’ڈیبنہیم‘ کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

فیصل آباد میں لگائے گئے اُن کے کارخانے کو کام کرتے 15 ماہ گزر چکے ہیں لیکن یہ ابھی بھی مکمل طور پر چل نہیں پایا ہے کیونکہ پاکستان میں جتنے بھی بڑے برانڈ ہیں وہ اُن کے بنائے گئے زیرِ جامہ ملبوسات کو دیکھ کر اس بات پر تو آمادگی کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کی مارکیٹ اور ضرورت بہت ہے، لیکن ان ملبوسات کو اپنی دکان پر نمایاں طور پر لگانے سے ان سب نے معذرت کر لی ہے۔

انڈر گارمنٹس کی مارکیٹنگ کیسے کی جائے؟

پاکستان

آج کل جہاں ہر چیز کی خبر یا نمائش سوشل میڈیا پر کی جا سکتی ہے، وہیں انڈر گارمنٹس واحد ملبوسات ہیں جن کو سوشل میڈیا پر بہت ہی کم مارکیٹ کیا جاتا ہے۔

مارک نے بتایا کہ اب تک انھوں نے سوشل میڈیا کا سہارا اس لیے نہیں لیا کیونکہ ان کو ایسا کرنے سے تاحال منع کیا گیا ہے اور وہ اپنے کارخانے کے ملبوسات کسی برانڈ کے ساتھ مارکیٹ میں متعارف کرانے کو زیادہ ترجیح دینا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اسے باآسانی خرید سکیں۔

آج سے قریب چار دہائی قبل 1980 میں کراچی کے علاقے کریم آباد میں مینا بازار انڈر گارمنٹس فروخت کرنے کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔

وہاں جانے والی خواتین ایک دوسرے کو بتا دیا کرتی تھیں کہ کس دکان کا سامان اچھا ہے یا نہیں اور اس طرح اس جگہ کی مارکیٹنگ ہو جایا کرتی تھی۔

اس کے علاوہ رسالوں اور خواتین ڈائجسٹ کے ذریعے انڈر گارمنٹس کے اشتہارات کو تمام احتیاط برتتے ہوئے شائع کیا جاتا تھا۔

لیکن آج تک پاکستان کے بازاروں میں ان ملبوسات کی کھلے عام نمائش نہیں کی جاتی۔ اس کی ایک مثال پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود دکانوں سے لی جا سکتی ہے، جہاں دکان کے باہر سے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اندر کیا مل رہا ہے۔

اکثر اوقات شیشوں کو کالا یا مکمل طور پر بند کر دیا جاتا ہے تاکہ مخصوص لوگوں کو نام سے پتا چل جائے کہ یہ زیرِ جامہ ملبوسات کی دکان ہے۔

شاپنگ مال اور سینٹرز نے کچھ حد تک زیرِ جامہ ملبوسات کو لوگوں تک پہنچایا ہے لیکن یہاں یہ واضح کرنا بھی لازمی ہے کہ یہ مخصوص طبقے کے لیے ہے جو ان ملبوسات کی منھ مانگی قیمت بمع ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن اگر ان شاپنگ مالز سے باہر آئیں تو زیادہ تر خواتین امپورٹ شدہ سستے معیار کے انڈر گارمنٹس لے لیتی ہیں کیونکہ ان کی رسائی انھی دکانوں یا بازاروں تک محدود ہوتی ہے۔

ایسے میں مارک مور کیا کرنا چاہتے ہیں؟

پاکستان

مارک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت انھیں کئی بڑے مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ اپنی بات خریداروں کو سمجھانے کا ہے۔

’زیرِ جامہ ملبوسات بنانے کا مقصد کسی کو للچانا نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ روزمرہ کے استعمال کی چیز ہے جس کے کپڑے سے لے کر سلائی تک بہت معنی رکھتی ہے۔ لیکن ہم پندرہ ماہ سے اس تاثر کو محدود کرنے میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ ملبوسات آرام دہ ہونے چاہییں اوراس میں کچھ معیوب نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اب تک جو کپڑا ان ملبوسات کے لیے استعمال ہوتا ہے وہ پولیسٹر سے بنتا ہے جو جلد کے لیے بالکل اچھا نہیں ہوتا۔

اس وقت پاکستان میں زیرِ جامہ ملبوسات بنانے والے پانچ سے چھ کارخانے ہیں جو کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں لگائے گئے ہیں۔ ان کارخانوں میں آئی ایف جی، ٹرائمپف اور بی بیل نامی برانڈ کے کارخانے سب سے زیادہ مشہور ہیں۔

ان کے علاوہ کچھ اور دیگر چھوٹے کارخانے ہیں جہاں کا سارا مال ایکسپورٹ ہوتا ہے۔

اس کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق اس وقت 55 فیصد آبادی کے لیے صرف پانچ فیصد مال مارکیٹ میں سپلائی ہوتا ہے جبکہ ڈیمانڈ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

خواتین کے پاس بازار کے علاوہ آن لائن ان ملبوسات کو خریدنے کا آپشن موجود ہے لیکن آن لائن آپشن بمشکل دو فیصد آبادی استعمال کر سکتی ہے۔

پاکستان میں ان برانڈز کے علاوہ زیرِ جامہ ملبوسات بنانے والی انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے جو اس بزنس میں آتا ہے، اسے کوئی اور کام تلاش کرنے کا کہا جاتا ہے۔

پاکستان

بی بیل نامی برانڈ کے مالک جاوید نسیم 1996 سے کراچی میں زیرِ جامہ ملبوسات بنانے کا کارخانہ چلارہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے ان 25 برسوں میں آج تک کسی کے پاس ان ملبوسات کو بنانے کی مہارت نظر نہیں آئی۔ اس کام کی مہارت ہے ہی نہیں کیونکہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ کچھ عرصے میں اس کارخانے کو بند کر کے ’مناسب‘ کاروبار شروع کر لیں گے۔ ساتھ ہی ان ملبوسات کو بنانے میں نائلون استعمال ہوتا ہے، جو پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں سستا پولی ایسٹر چین سے امپورٹ کروانا پڑتا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ برا کو بند کرنے کے لیے استعمال ہونے والا ہُک اور برا کے کپ کو سہارا دینے کے لیے لگنے والا پلاسٹک یا سٹیل بھی دیکھ بھال کر لگتا ہے تاکہ ہُک میں زنگ نہ لگے اور کپ کو سہارا دینے کے لیے لگنے والا پلاسٹک یا سٹیل کپڑے سے نکل جلد کو زخمی نہ کرے۔

اس وقت بازاروں میں سستے داموں میں ملنے والے پولیسٹر کے برا میں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ اس کے ہُک میں دھونے کے بعد زنگ لگ جاتا ہے اور دوسرا آپشن مہنگے داموں نائلون کے زیرِ جامہ ملبوسات ہیں، جو ہر کوئی نہیں خرید سکتا۔

مارک اس وقت اچھے معیار کے سستے برا اور پینٹی مارکیٹ میں متعارف کرانا چاہتے ہیں لیکن بڑے برانڈز ان ملبوسات کی نمائش کرنے یا انھیں اپنے سٹورز میں رکھنے کے بارے میں خاصے پریشان ہیں۔

‘مرد فیصلہ کرتے ہیں کہ خواتین کو کیا پہننا چاہیے’

پاکستان

برانڈز کی طرف سے ہچکچاہٹ کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کے زیرِ جامہ ملبوسات کو بنانے، بیچنے اور اس پر بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ایک اور بات یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ انڈر گارمنٹس کے زیادہ تر ڈیزائنر اور مالکان مرد ہیں۔ کارخانوں میں ڈیزائنر بھی مرد ہیں جبکہ خواتین محض اسسٹنٹ یا پھر فائل ایک کونے سے دوسرے میں رکھنے کے لیے موجود ہوتی ہیں۔

مارک نے کہا کہ ’افسوس کے ساتھ، اس وقت دنیا بھر میں زیادہ تر مرد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ برا یا پینٹی کیسی ہونی چاہیے یا اس پر لیس ہونی چاہیے یا نہیں۔ لیکن اگر آپ خواتین سے پوچھیں گی تو وہ کہیں گی کہ انھیں آرام دہ کپڑا چاہیے۔‘

مارک کے کارخانے میں کام کرنے والے قمر زمان نے بتایا کہ ’اب تک ہم جہاں بھی گئے ہیں وہاں پر خواتین کے زیرِ جامہ ملبوسات پر بات کرنے والے سارے مرد ہیں۔ حالانکہ وہاں پر اسسٹنٹ خواتین بھی موجود ہوتی ہیں لیکن جب ہم برا یا پینٹی ٹیبل پر رکھتے ہیں تو سب عجیب طرح سے ایک دوسرے کو گھورتے ہیں۔ یا پھر مرد ہنسنے لگتے ہیں۔‘

لیکن جب مارک اور ان کے آپریشن مینیجر سے بھی سوال کیا گیا کہ وہ خود بھی مرد ہیں اور خواتین کے زیرِ جامہ ملبوسات پر بات کر رہے ہیں۔ تو کیا ان کے کارخانے میں کوئی خاتون نہیں جو خواتین کے مؤقف پر بات کر سکیں؟

تو جواب میں مارک نے بتایا کہ انھیں خواتین کو ملازمت پر رکھنے میں خاصی مشکل پیش آ رہی ہے۔

مارک نے کہا کہ ’ہم نے خواتین سائن آپریٹرز کو ملازمت کی آفر دی، تو انھوں نے اپنے گھر والوں سے اجازت لینے کے لیے وقت مانگا۔ پھر ان میں سے دو خواتین نے واپس آ کر جواب دیا کہ ان کے گھر والے انھیں اس فیکٹری میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔‘

اس بات کی تصدیق ان کے کارخانے میں کام کرنے والے ملازمین نے بھی کی۔

مثال کے طور پر سمیرا نے بتایا کہ جب وہ انٹرویو دینے کارخانے پہنچیں تو ان کے ساتھ ان کے شوہر بھی تھے۔ ’انھوں نے مجھے ملازمت ملنے کے بعد کہا کہ خاندان میں کسی کو مت بتانا کہ تم کہاں کام کرتی ہو۔ ورنہ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے۔‘

ایک اور خاتون ورکر نے کہا کہ جب انھوں نے گھر میں بتایا تو ان کے والد نے منع کر دیا۔ ’میں نے انھیں کہا کہ میں پہلے ماحول دیکھوں گی اور اگر مجھے صحیح نہیں لگا تو میں یہ کام نہیں کروں گی۔ لیکن مجھے کم از کم انٹرویو میں جانے کی اجازت دیں۔‘

اسی طرح کارخانے میں کام کرنے والے انور حسین نے بتایا کہ شروع میں انھیں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔

’جب میں نے اپنے گھر اور دوستوں میں بتایا کہ مجھے انڈر گارمنٹس بنانے والی فیکٹری میں ملازمت ملی ہے تو میرا بہت مذاق اڑایا گیا۔ پھر مجھے کام کرتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھی ورکر کو کوئی چیز سلائی کے لیے پکڑاتے ہوئے کافی شرم محسوس ہوتی تھی۔ اب کرتے کرتے میں بہت بہتر ہو گیا ہوں کیونکہ ملازمت پھر ملازمت ہے۔‘

مارک اس وقت تو پاکستان میں ہی اپنا کارخانہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے میں انھیں تاحال کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

‘مجھے کہا گیا کہ میں کہیں کارخانہ بند کر کے واپس نہ چلا جاؤں لیکن میں فی الحال تو ادھر ہی ہوں۔ اور کچھ نہ کچھ حل نکل ہی آئے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp