پاکستان تیزی سے ترقی کرتا ملک


پاکستان نے گزشتہ 3 برسوں میں جتنی ترقی کی ہے شاید ہی دنیا کے کسی ملک نے کی ہو۔ ہر دن ہر دن سے، ہر ہفتہ ہر ہفتے سے، ہر مہینہ ہر مہینے سے اور ہر آنے والا برس ہر جانے والے برس سے بہتر سے بہتر تر اور خوشحال سے خوشحال ہوتا چلا گیا لیکن افسوسناک پہلو یہ سامنے آیا کہ تمام میڈیا والوں نے ترقی کرتے پاکستان کی اصل شکل پاکستانی عوام کے سامنے پیش کرنے سے گریز کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عام لوگ اس بات سے ناآشنا ہی رہے کہ پاکستان ترقی کرنے والے ممالک میں صف اول میں داخل ہو چکا ہے اور پوری دنیا حیران ہے ترقی کی دوڑ میں حصہ لینے والا وہ ملک جو 3 برس پہلے تک سب سے پیچھے نظر آتا تھا وہ اب ”ٹاپ ٹین“ میں کیسے داخل ہو گیا۔

اپوزیشن کا کام بے شک ہر حکومت کے خلاف اپوزیشن ہی کرنا ہوا کرتا ہے لیکن آخر دیدہ بینا رکھنے والے پاکستانی میڈیا کو کیا ہو گیا تھا کہ اس نے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی عوام سے ہر ترقی کو پوشیدہ رکھا۔ یہ ایک ایسا غور طلب نقطہ تھا جس پر ایک دن وزیر اعظم سمیت پوری کابینہ نے سر جوڑ کر غور کیا تب یہ عقدہ کھلا کہ بند لفافے تو تب ہی کھلا کرتے ہیں جب پہلے ان کو حسب مرتبت حلق تک بھرا جائے اور معزز صحافی حضرات اور میڈیا والوں کے سربراہوں کی خدمت اقدس میں بلحاظ مرتبہ و مقام پیش کیا جائے۔

یہ راز جان لینے کے بعد اللہ جانے لفافے بنائے گئے یا نہیں لیکن حکومت کے دل کو دہلا دینے والی جو حقیقت سامنے آئی وہ پسینہ چھوڑ دینی والی تھی۔ معلوم ہوا کہ اب لفافوں کا ہی کیا، بریف کیسوں کا دور بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے اور بات اٹیچی کیسوں سے بھی آگے نکلتی دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ اطلاع ایوان ہائے اقتدار و اختیار کو ہلا کے رکھ دینے کے لئے کافی تھی۔

پاکستان ایک نہایت غریب ملک ہے اور اس کو صرف 11 سو سے زائد ممبران صوبائی و قومی اسمبلی، ممبران سینیٹ اور وزیروں سفیروں اور مشیروں کا منہ بند رکھنے کے لئے بھی دنیا سے قرض ادھار لے کر ان کی ”جائز“ ضروریات پوری کرنی پڑتی ہیں اس لئے حکومت کے لئے اٹیچی کیسوں والی بات تو ناممکنات میں سے تھی لہٰذا اعلیٰ بلکہ اعلی ”ترین“ سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر ملک بہتر تر سے ”ترین“ کی جانب گامزن کرنا ہے تو ”زن“ سے ایک یو ٹرن لیتے ہوئے ”ترین“ کو اور سارے ”ترینوں“ پر بہر صورت قابو پانا ہے خواہ اس کے لئے ”میں نہیں دوں گا“ بھی کیوں نہ دینا پڑ جائے۔

چنانچہ ایک بہت بڑا یو ٹرن تو یہ لینا پڑ گیا تاکہ اگر اٹیچی کیس سے بھی کوئی بڑی شے بھر کر پیش کرنے کی ”مجبوری“ پڑ جائے تو مجبوری کو پورا کیا جا سکے تو دوسری جانب سب سے احسن قدم یہ اٹھایا گیا کہ مشیروں کی فوج ظفر موج جن کو ہر ماہ کروڑوں روپے تنخواہ اور اربوں روپوں کی دیگر مراعات دی ہی محض اس لئے جاتیں ہیں کہ وہ حکومت کا ہر وہ پہلو جو ”ید بیضہ“ سے بھی زیادہ روشن نظر آتا ہو، عوام کے سامنے رکھیں تاکہ اس کی چمک سے عوام کی آنکھیں اتنی خیرہ ہو کر رہ جائیں کہ جتنے بھی تاریک پہلو ہیں وہ کسی کو بھی دکھائی نہ دے سکیں۔

اس عظیم اور تاریخی فیصلے کے بعد سے تا حال آپ جب اور جس چینل کو آن کریں اس پر کوئی نہ کوئی وزیر یا مشیر بیٹھا حکومت پاکستان کی ترقی کی ایسی ایسی کہانیاں سنا رہا ہوگا جن کو سن کر حکومت مخالف لوگ بالکل ایسے چراغ پا ہو جاتے ہیں جیسے پیروں فقیروں کی کرامتوں کے من گھڑت قصے سن کر ”بد عقیدہ“ منکرین لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان صف اول کے ممالک میں شامل ہو گیا ہے جس کی ترقی بالکل اس غیر مرئی طاقتوں کی مانند ہے جو کئی دہائیوں سے پاکستان پر حکمران تو ہے لیکن اس کو دیکھنے کے لئے بصارت کی نہیں بصیرت چاہیے ہوتی ہے لہٰذا اعلیٰ بصیرت رکھنے والے مشیروں، ترجمانوں اور وزیروں کی ایک فوج نے یہ طے کر لیا ہے کہ پاکستان کے وہ عوام جن کو اللہ نے بصارت تو دی ہے لیکن بصیرت سے محروم رکھا ہے، ان کو وہ سب کچھ بتائیں بھی اور دکھائیں بھی جو وہ خود تو صاف صاف دیکھ رہے ہیں لیکن بصیرتوں سے محروم عام لوگ نہیں دیکھ پا رہے۔

کہا جا رہا کہ ہم آئے تو قرض کے انبار تھے، اتار کر رکھ دیے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ پھر بھی قرضوں کے اتنے ڈھیر کیوں، جواب میں کہا جاتا ہے جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح ہم نے قرض لے کر قرض کو اتار دیا بلکہ مزید چڑھا لیا جس کو آنے والے اسی فارمولے کے مطابق اتار دیں گے۔

ہماری درآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ برآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ڈالر کو استحکام حاصل ہوا ہے یعنی 94 روپوں سے بڑھ کر جو 162 پر پہنچ گیا تھا 153 تک گر چکا ہے وغیرہ وغیرہ۔

قرض اتر چکا ہے، ہر غیر ضروری اخراجات کو کم کر دیا گیا ہے، سرمایہ کاری بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، بے چھتوں کو چھتیں عطا کردی گئی ہیں، ملازمتوں کے آٹھوں دروازے کھول دیے گئے ہیں، یہاں تک کہ فی کس آمدنی دو گنا ہو گئی ہے تو سوال یہی تو پوچھا جا رہا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، آسمان کی بلندی کو چھوتی ہوئی مہنگائی، اور بے روزگاری میں کمی کیوں دیکھنے میں نہیں آ رہی۔

جس طرح عاقبت نا اندیشوں نے اسلام کو عمل کی بجائے قصوں کہانیوں کا مذہب بنا کر رکھ دیا ہے بالکل اسی طرح موجودہ حکمرانوں نے پاکستان کی ترقی کو اتنا شفاف بنا دیا ہے کہ اس کے آر پار تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن دیکھا نہیں جا سکتا۔

ارباب تخت و تاج والوں سے اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ ترقی وہ ہوتی ہے جس کے لئے گیتوں، نغموں، گانوں اور تقریروں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی اور وہ صرف اہل بصیرت ہی کو نظر نہیں آیا کرتی بلکہ اسے اندھے بھی دیکھ لیا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments