رقیب سے۔ ایک ادبی شہ پارہ


اگر آپ خلیل قمر کے معتقدین میں سے ہیں، عمیرہ احمد کی کہانیوں کے دلدادہ ہیں، وصی شاہ کی شاعری پڑھتے ہیں، یسری وصال کی اداکاری سے متاثر ہیں، ڈراموں میں میوزیکل گھن گرج اور میک اپ زدہ چہرے پسند ہیں۔ چیخ چیخ کے بولتے ہوئے کردار، احمقانہ انداز کی سسکیاں اور واہیات انداز میں سانس لیتے کردار اگر آپ دیکھتے ہیں تو یقین مانئیے ”رقیب سے“ کی کہانی آپ کو بالکل ایسے ہی ناپسند آئے گی جیسے مسلسل پرانا گڑ کھا کے آپ کو چاکلیٹ کا ذائقہ چکھنے کا کہا جائے۔ یا پھر ملت ایکسپریس میں بکنے والا بلبل پرفیوم چند دن لگا کے ڈولس گبانہ سونگھنے کو کہا جائے، طارق ٹیڈی کی جگتیں سن کے یوسفی صاحب کو پڑھنے کا کہا جائے، بادشاہ کا ریپ میوزک سننے والے کو مہدی حسن کی ”جب بھی آتی ہے تیری یاد کبھی“ سنایا جائے۔

لیکن آپ اگر آپ سحر کر دینے والا لہجہ سننا چاہتے ہیں تو مقصود صاحب کی امیراں سے گفتگو سنئیے۔ بنا کچھ کہے چہرے کے تاثرات سے پورا جملہ پڑھنا چاہتے تو ہاجرہ کی سکینہ سے خاموش گفتگو سنئیے۔ زمانے بھر کا شکوہ بنا کچھ کہے اظہار تک لایا جانا دیکھنا ہے تو انشا کی اپنے منگیتر کے پاس بیٹھتے وقت آنکھیں دیکھئیے۔ لالچ پچھتاوے دکھ بے غیرتی شرمندگی کے ملے جلے احساس کو ایک ساتھ دیکھنا ہے تو رفیق علی کی طلاق کے بعد سکینہ سے ملاقات دیکھئیے۔ یہ ڈرامہ جہاں سے بھی شروع کریں جہاں بھی ختم کریں کردار اپنی گریس دکھاتے ملیں گے۔ یہ فیصلہ نہی کر پایا کہ ثانیہ سعید ہاجرہ بن کے کردار امر کر رہی کہ نعمان اعجاز مقصود صاحب کو لافانی کر گئے۔ بی گل کی تحریر پیاری ہے کہ کاشف نثار کی ڈائریکشن۔

پی ٹی وی کے ستر اور پھر اسی کی دہائی کے ڈرامے خوبصورت تھے۔ مگر ”رقیب سے“ خوبصورت ہے۔ تقابلی جائزہ لینا مناسب نہی لگتا۔ تاہم ”رقیب سے“ ایک کلاس ہے۔ ایک نظم ہے۔ ایک سنگیت ہے۔ جو بہت دھیمے اور مدھر سر میں گایا گیا ہے۔ دل کی نازک رگوں کو چھیڑتا ہوا۔
‎ مقصد کسی ڈرامہ نگار نہ مقبول لکھاری پر تنقید نہی۔ فقط یہ کہا جا رہا کہ فلیور الگ ہے۔

‎ڈائجسٹ کی کہانی اور ادب کی کتاب میں ایک واضح لکیر ہے۔ ادب کی کتاب سے تشبیہ کا مطلب ڈائجسٹ کو نیچا دکھانا نہی۔ کچھ لوگوں کی لکھی کہانیاں اور ان کی ڈرامائی تشکیل ڈائجسٹ کا ذائقہ دیتی مگر رقیب سے کی کہانی کسی ادبی پارہ کی ڈرامائی تشکیل لگتی۔ ریویو کے ابتدائیہ کا واضح مطلب یہ کہ اگر ڈائجسٹ سٹوریز آپ کو پسند آتی ہیں تو یہاں ایسا کچھ نہی ملے گا۔ ہمارے فیصل آباد میں طارق ٹیڈی کے جملے ہر تیسرا بندہ دہراتا ہے۔ انہیں یوسفی صاحب کی تحریر کہاں لطف دے گی۔

‎دو الگ الگ قبیلے ہیں۔ یہی حال بادشاہ کے گانے اور خان صاحب کی غزل بارے ہے۔ اور بعینہ یہی بات عمیرہ احمد کی کہانی اور مذکورہ ڈرامہ کی کہانی بارے ہے۔ انتہائی الگ کینوس پر بالکل الگ رنگوں سے پینٹنگ بنی ہے۔ اور عمیرہ احمد کی کہانیوں کو دل میں بسانے والے لوگوں کو شاید رقیب سے والی پینٹنگ بے رنگ لگے۔

ایک دور تھا جب مینا ناز کے ناول کالج کے لڑکے لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ پھر رضیہ بٹ آ گئیں۔ ایک طویل عرصہ ہے جو انہوں نے اس خاص شعبہ میں نام کمایا۔ ان کے بعد عمیرہ احمد نمرہ احمد ندیم ہاشم یہ لوگ آ گئے۔ ان کے ناول پڑھے گئے۔ اور کچھ عرصہ سے سے اسی کو ڈرامہ میں بدل دیا گیا۔ ذاتی طور پر یونیورسٹی کے طلبہ سے پوچھنے کا اتفاق ہوا کہ عمیرہ احمد کے ناول کس بارے ہیں۔ اکثریت کا جواب تھا کہ تصوف پر لکھے گئے ہیں۔ یہ بالکل وہی بات کہ جیسے نسیم حجازی کی کہانیوں کو تاریخ کہہ دیا جائے۔

تصوف فیشن گھریلو امور کچی عمر کے دلوں کی دھڑکنیں، آئیڈیلزم سب کچھ ملے گا ان میں۔ یہ قبیل دنیا کے ہر ملک میں ہے۔ مقبول عام کہہ لیں مگر کہیں بھی انہیں اعلی ادب میں شمار نہی کیا جاتا۔ ہمارے ہاں خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور نے اسی راہ میں البتہ جو کچھ لکھا وہ ادبی شہ پارے کہلائے۔ یہ ایک الگ فلیور ہے۔ تصوف کا تڑکا اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے بھی لگایا۔ ان کی کہانیوں کے ڈرامائی تشکیل بھی ہوئی۔ مگر پیر کامل اور جنت کے پتے کے بر عکس یہ اعلی ادب میں اپنا مقام رکھتے۔ من چلے کا سودا کسی صورت در شہوار یا پیر کامل کے ٹیکسانومک گروپ کا نہی۔ من چلے کا سودا تو خیر زیادہ پیچیدہ ہو گیا بانو آپا کا راجہ گدھ پڑھ کے ہی ایک فلیور کا اندازہ ہو جاتا۔ اور پھر ان کا حاصل گھاٹ۔

بالکل ایسے جیسے مظہر کلیم نے شاید بے تحاشا عمران سیریز لکھ دیں۔ ان کے قاری بھی سب سے زیادہ تھے۔ تاہم ادبی حلقوں میں نام فقط ابن صفی کا ہے۔ عام طور کہا جاتا ہے کہ لوگ ادب نہی پڑھتے۔ واقعی بہت کم لوگ پڑھ رہے۔ کئی چاند تھے سر آسماں، آگ کا دریا اداس نسلیں، چاکیواڑہ میں وصال، رنگ چمن آرائی، خدا کی بستی، مٹی کا دیا، خس و خاشاک زمانے، آرام باغ کتنے ہی نام ہیں۔ ان کو پڑھا جائے تو پھر عمیرہ احمد کے ناول ایک خاص کونے میں کھسک جاتے ہیں۔

رقیب سے کی کہانی میرے نزدیک ( خالصتاً میری رائے میں ) ادبی شہ پارہ ہے۔ جبکہ در شہوار اور دیگر فقط زیادہ دیکھے جانے والے ڈرامے ہیں۔ جن کے موضوعات وہی گھسے پٹے وہی ایک ہیرو جو بہت بہترین ہے اور ایک ولن جو بہت ہی برا ہے اور پھر تصوف کی چار باتیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر رقیب سے میں کہانی اور اداکاری ڈاکٹر انور سجاد کے ”ذکر ہے کئی سال کا، منصور مانی کے“ اب تم جا سکتے ہو ”یونس جاوید کے“ کانچ کا پل ”منو بھائی کے“ دروازہ ”اشفاق احمد کے ایسی بلندی ایسی پستی، نور الہدی شاہ آپا کے“ ذرا سی عورت، اور فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی ( مصنف کا نام بھول گیا) شوکت صدیقی کے ناول پر ”خدا کی بستی جیسے انتہائی سنجیدہ ڈراموں میں شمار ہے۔ یہ ادبی شہ پارے ہیں۔ ان میں گھن گرج نہی، ان میں گلیمر نہی، موٹے ڈائیلاگز نہی۔ سادہ باتیں۔ کوئی ہیرو نہی ہے۔ کوئی ولن نہی ہے۔ ہر کردار اپنے اندر ذرا سا ہیرو ہے اور ذرا سا ولن۔ یہی بات اس ڈرامے کو امر کرتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments