شگفتہ سماعت سے محروم بچوں کے کورس کو سمارٹ بنانا چاہتی ہیں



شگفتہ کا تعلق لاہور سے ہے۔ پولیو کا شکار ہیں۔ سپیشل ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں سترہویں سکیل میں جاب کر رہی ہیں۔ کچھ ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر وائس سوسائٹی فار سپیشل پرسنز کے نام سے ایک این جی او بنا رکھی ہے۔ سماجی مسائل پر ڈرامے بناتی ہیں، ان ڈراموں میں پرفارم بھی کرتی ہیں۔ نعتیں پڑھنے اور گانا گانے کی بے حد شوقین ہیں۔

شگفتہ کی پیدائش کے وقت والدین میں ناچاقی چل رہی تھی۔ جس کا اختتام علیحدگی کی صورت میں ہوا۔ شگفتہ پیدائشی طور پر نارمل تھیں۔ پولیو کی ویکسی نیشن نہ ہونے کی وجہ سے چھ ماہ کی عمر میں پولیو کے مرض کا شکار ہو گئیں۔ دادا، دادی کو شگفتہ سے اتنا پیار تھا کہ والد صاحب کی ضد کے باوجود ان کی پرورش کی ذمہ داری لے لی اور پھر بھر پور طریقے سے نبھانا شروع کر دی۔ دادا، دادی کے مشن میں کنوارے چاچا بھی شامل ہو گئے۔ جنھوں نے شگفتہ کو سگی اولاد سے بڑھ کر چاہا اور ابھی تک ان کی تمام تر ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ شگفتہ چاچا کو پاپا اور زندگی کی سب سے بڑی انسپریشن قرار دیتی ہیں۔

شگفتہ کہتی ہیں کہ ان کا بچپن عام بچوں سے خاصہ مختلف رہا۔ یہ دادا، دادی، چاچا، چاچی اور پھپھیوں کی لاڈلی تھیں۔ سب سے، بھر پور پیار اور سپورٹ ملی۔ اسی پیار اور سپورٹ کی وجہ سے تمام تر تعلیم نارمل سکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے حاصل کی۔

ابتدائی تعلیم قصور کے نزدیک آبائی گاؤں سے حاصل کی۔ دادا، چاچا اور پھپھیاں کاندھے پر اٹھا کر سکول لے جایا کرتے۔ چند جماعتیں اسی طرح گزریں کہ پھر ویل چیئر ہاتھ آ گئی۔ جس نے زندگی کافی آسان کر دی۔

شگفتہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ میٹرک اچھے نمبروں سے کرنے کے بعد انھیں پتہ چلا کہ ویل چیئر پر ایم بی بی ایس کرنا ناممکن سی بات ہے۔ انہی دنوں شگفتہ کے دل میں خانہ داری کا شوق جاگا اور ایک دن انھوں نے زبردست سی ہانڈی بنائی اور پاپا سے پوچھنے لگیں کہ کھانا کیسا بنا ہے۔ پاپا نے کہا مجھے آپ کے کچن میں جانے سے خوشی نہیں ہوئی۔ میں آپ کو کرسی پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ کچن کا کام آپ کے لئے خطرے سے خالی نہیں۔ کسی بھی وقت آپ توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہو۔ آج کے بعد میں آپ کو کچن میں نہ دیکھوں۔ اسی طرح دادا جان کہا کرتے تھے کہ وہ انھیں ایسا افسر بنانا چاہتے ہیں جس کے ہاتھ میں سبز قلم ہو۔ اس طرح گھر کا ماحول انتہائی سپورٹو تھا جس نے شگفتہ کو کبھی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہونے دیا۔

شگفتہ نے کامرس کا انتخاب کرتے ہوئے اپنا تعلیمی سفر آگے بڑھایا۔ بی کام میں گولڈ میڈل حاصل کر کے خاندان کا نام روشن کیا۔ پھر ایم کام میں داخلہ لیا۔ ایم کام کے بعد امید تھی کہ شاید کوئی اچھی نوکری مل جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ شگفتہ کی ویل چیئر دیکھتے ہی نوکری دینے والے ڈگری کو سائڈ پر رکھ کر ان کے آنے اور جانے سے متعلق سوالات کرنے لگتے اور گھر میں بیٹھ کر کام کرنے کا مشورہ دینے لگتے۔ کچھ عرصہ واپڈا میں نوکری بھی کی لیکن پھر اسے خیر آباد کہ دیا۔

ایک دوست نے انھیں سپیشل ایجوکیشن میں ڈگری کرنے کا مشورہ دیا۔ پھر اسی میں ایم اے، ایم فل اور آج کل پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ اسپیشل ایجوکیشن میں ڈگری کی وجہ سے اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ سماعت سے محروم بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ سماعت سے محروم بچوں کے نصاب کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ پی ایچ ڈی میں انہی بچوں پر تحقیق کر رہی ہیں۔

شگفتہ نے کچھ خصوصی دوستوں کے ساتھ مل کر وائس سوسائٹی نامی این جی او بنا رکھی ہے۔ جہاں خصوصی افراد کی ری ہیبلی ٹیشن کی جاتی ہے۔ وائس سوسائٹی نے شیلٹر ہوم پراجیکٹ کے تحت بہت سے خصوصی بچوں کی رہائش کا اہتمام کر رکھا ہے۔ جہاں ان بچوں کی رہائش، کھانے پینے اور تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وائس سوسائٹی نے معاشرے کو تربیت دینے کے لئے ڈرامہ سوسائٹی بھی بنا رکھی ہے۔ جس کا کام معاشرتی رویوں پر شوز اور ڈراموں کا انعقاد کرنا ہے۔ شگفتہ ان شوز میں ایکٹنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر، کوریو گرافر، ویل چیئر ڈانس ڈائریکٹر کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔

شگفتہ کہتی ہیں کہ ہمارا معاشرہ خصوصی افراد پر ترس کھانے کے بجائے انھیں پڑھنے، لکھنے اور روزگار کے مساوی مواقع فراہم کرے تو خصوصی افراد ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments