شریف کی ڈیل اور نواز شریف کا بیانیہ


شہباز شریف کی ضمانت پہ رہائی اور ملک سے باہر جانے کی درخواست پہ اسی دن اجازت ملنے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے مسلم لیگ نون اور مقتدر اداروں کے درمیان مفاہمت کی سرگوشیوں کو ایک دم سے زبان عطا کردی۔ اس سے پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں مریم نواز کے ترجمان اور ریٹائرڈ جنرل غلام عمر کے صاحب زادے وفاقی وزیر اسد عمر کے بھائی زبیر عمر نے انقشاف کر دیا تھا کہ مسلم لیگ نون اور فوج کے درمیان صلح ہو چکی ہے اب کوئی اختلافات باقی نہیں رہے۔

جبکہ نون لیگ کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے فرمایا کہ ہمارا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تو کوئی جھگڑا ہی نہیں تھا تو صلح کس بات کی، یہ سب واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلم لیگ نون جو کئی دہائیوں تک اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا رہی فوج سمیت مقتدر حلقوں کی لاڈلی جماعت رہی، ایک بار پھر اپنی پرانی پوزیشن نئے لاڈلے سے واپس چھیننے کی کوششوں میں کامیابی حاصل کرتی نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف نیا لاڈلا بھی اپنی پوزیشن بچانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، اس نے میاں شہباز شریف کا نام لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے بلیک لسٹ سے نکالنے کے حکم کے باوجود انہیں ملک سے باہر نہیں جانے دیا اور لاہور ائرپورٹ پہ روک کر اسٹیبلشمنٹ اور نون لیگ کی مفاہمتی کوششوں کو سبوتاژ کیا، اس سے پہلے وہ اسمبلیاں توڑنے کی دھمکیاں بھی کئی بار دے چکے ہیں، قوم بھی جانتی ہے کہ یہ دھمکیاں کسے دی جا رہی ہیں۔

میاں شہباز شریف نے جیل سے رہائی پانے کے بعد نہ صرف پیپلز پارٹی کی قیادت سے اپنے رابطے بحال کیے بلکہ وہ ان رابطوں اور تعاون کو مزید وسعت اور مضبوطی دینا چاہتے ہیں، انہوں نے اپوزیشن کے تمام پارلیمانی رہنماؤں سمیت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری کو نہ صرف عشائیے پہ مدعو کر لیا ہے بلکہ وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم میں واپس آجائیں۔ میاں شہباز شریف اس وقت نون لیگ میں وہ اہم کردار ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک وزارت عظمیٰ کے سب سے موزوں ترین شخصیت ہیں، جو میاں نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بھی مفاہمتی فارمولے پہ راضی کر سکتے ہیں۔

ملکی اقتدار اعلیٰ پہ گرفت رکھنے والی کچھ طاقتیں ملک میں طاقت کے توازن کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تو کچھ ان کوششوں کو ناکام کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہیں، ملک کی تباہ ہوتی معاشی صورتحال اور آسمان کو چھوتی مہنگائی، ساتھ میں حکومت کے خلاف بڑھتا عوامی نفرت کا پارہ نہ صرف عمران خان صاحب کو اقتدار کی کرسی پہ بٹھانے والوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ کرتا جا رہا ہے بلکہ ان کی عوامی ساکھ کو داؤ پہ لگا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ

اسٹیبلشمنٹ اس وقت مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف کے ساتھ ایسی مفاہمتی کوششوں میں لگی ہوئی ہے جس سے ملک کے موجودہ سیاسی درجۂ حرارت میں بھی کمی ہو سکے اور ملک کی معاشی اور خارجی صورتحال بھی بہتری کی طرف گامزن ہو سکے، اس وقت کوئی شہباز شریف کے بیانیے کو مسلم لیگ نون کے لیے نجات دہندہ سمجھتا ہے تو کوئی میاں نواز شریف اور مریم کے بیانیے کو، لیکن میری ناقص رائے میں مریم نواز شریف اور میاں نواز شریف بھلے ہی جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں مگر مسلم لیگ نون جو بڑے بڑے صنعتکاروں سرمایہ داروں کی جماعت ہے اس میں میاں صاحب کے اسٹیبلشمنٹ مخالف اور انتہائی سخت بیانیے کی وجہ سے خاصہ اضطراب پایا جاتا ہے، اور یہ اضطراب مسلم لیگ نون کے لیے کسی بھی وقت کسی بڑی بغاوت یا توڑ پھوڑ کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے جب تک میاں نواز شریف پاکستان واپس آ کر اپنی سیاست اور بیانیے میں لچک پیدا کر کے اپنے کارکنان اور لوگوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے اس وقت تک کچھ محدود عرصے تک تو وہ اپنے کارکنان اور عوام کو اپنے گرد اکٹھے رکھ سکتے ہیں مگر زیادہ عرصہ ملک سے باہر بیٹھ کر انقلابی بیانیہ کارگر ہتھیار ثابت نہیں ہو سکتا۔

عمران خان کی انتہائی ناقص حکومتی کارکردگی، کرپشن میں بے تحاشا اضافے، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بیروزگاری اور بدحالی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مسلسل ان کی احمقانہ طرز حکمرانی کی حمایت کرنے پہ عوام اب سوشل میڈیا پہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی نفرت اور شدید غم غصے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، اسی وجہ سے جو بھی جماعت اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہے وہ عوامی مقبولیت میں آگے ہے، اسی لیے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے نے عوامی مقبولیت میں اس وقت سب کو پیچھے چھوڑا ہوا ہے اس کی واضح مثال پچھلے تمام ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کی پے درپے بدترین شکستیں ہے، خاص طور پہ پنجاب اور کے پی کے میں جہاں خان صاحب کی جماعت برسر اقتدار ہے، اور پنجاب جو وفاقی سرکار بنانے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے وہاں اس وقت میاں نواز شریف کے بیانیے کا ڈنکہ بج رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میاں شہباز شریف کے ذریعے چاہتی ہے کہ میاں نواز شریف کو راضی کیا جائے کہ وہ اور ان کی بیٹی فی الوقت سیاست اور سیاسی معاملات سے دور رہیں تو میاں شہباز شریف عمران خان کے متبادل کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے سب سے مضبوط اور بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔

میاں شہباز شریف ایک مفاہمت پسند اور بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور بھی شہرت رکھتے ہیں، جبکہ چین، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک سے ان کے بہترین ذاتی دوستانہ تعلقات بھی ہیں، پاکستان کو موجودہ مشکل سیاسی اور معاشی حالت میں ایک ایسے منتظم کی ضرورت ہے جو افہام و تفہیم کے ساتھ، تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ساتھ لے کر چلیں، ایک مفاہمتی فضا قائم ہو جو ملک کو مشکل معاشی اور سیاسی صورتحال سے نکالے، اور یہ کردار شہباز شریف بہتر طور پر ادا کر سکتے ہیں، پیپلز پارٹی بھی شہباز شریف کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کو ترجیح دے گی کیونکہ پیپلز پارٹی اس وقت پنجاب میں وہ سیاسی حیثیت نہیں رکھتی جو اسے مرکز میں حکومت سازی میں برتری دلا سکے، لہذا اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی تمامتر توجہ کا مرکز میاں شہباز شریف ہیں۔

جہانگیر ترین گروپ کی تشکیل اور تین سال بعد چودھری نثار کا پنجاب اسمبلی میں حلف اٹھانا بھی مسلم لیگ نون کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کو کس طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت پہ راضی کرتے ہیں یا پھر مسلم لیگ نون میں سے ایک اور مسلم لیگ معرض وجود میں آ کر اس ڈیل کا حصہ بنتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments