بیٹوں کو ماہواری کی تعلیم دیجیے!


”مجھے وہ صبح کبھی نہیں بھولے گی جب میں سکول جانے کے لئے باتھ روم میں تھی اور میں نے کموڈ میں پیشاب کے ساتھ سرخ قطرے گرتے دیکھے۔ میں گھبرا کے اٹھی کہ شاید چوٹ لگ گئی ہے۔ عجیب سی بات تھی کہ درد کہیں نہیں تھا، چوٹ کا نشان بھی نہیں ملا مگر خون بہتا جا رہا تھا۔

آخر باہر آ کر میں نے کمبل میں دبکی ماں کا کندھا ہلایا، امی میرے پاجامے میں خون ہے، نہ جانے کہاں سے بہہ رہا ہے۔ امی کی نیند میں بھری آنکھیں ایک دم کھل گئیں اور وہ مجھے چپ کر کے دیکھتی رہیں، ایسے لگا کہ سکتے میں ہیں۔

امی، دیکھیں نا، میں پھر سے کہا۔ اس وقت میری عمر ساڑھے دس برس تھی۔

یہ ماہواری موئی تو الف لیلیٰ بنی جاتی ہے کہ دن گزرتے جا رہے ہیں اور کہانی ختم ہی نہیں ہوتی۔ لیکن کیا کیجیے کہ اگر ہماری زندگی کے ہر دن اسی فیصد عورتیں ماہواری سے متعلقہ امور پہ زچ ہوتے ہوئے اپنا درد ہم سے کہتی ہوں تو جی چاہتا ہے کہ ہم بھی بات کہتے ہی جائیں۔

اکثر قارئین سوال اٹھاتے ہیں کہ جب لڑکوں کے مسائل رازداری کی چادر تلے حل کرنے کی کوشش کیے جاتے ہیں تو لڑکیوں کی ماہواری کا ذکر بھرے بازار میں کس لئے؟

ہمارا خیال یہ ہے کہ عورت کی زندگی کا ہر دور ماہواری کے گرد نہ صرف گھومتا ہے بلکہ ہر تبدیلی نہ صرف اس کے جسم اور ذہن پہ بری طرح اثرانداز ہوتی ہے بلکہ خاندان کے دوسرے افراد بھی اس زد میں آتے ہیں۔ ایسی صورت میں ماہواری کے مسائل پہ بات کرنا شرمناک کیوں سمجھا جائے؟ عورت کو ایسا کیوں محسوس ہو کہ شاید وہ کسی چھوت کا شکار ہے اور لوگ باگ اس سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسانی جسم اور اس کے مسائل کا تعلق خود ساختہ روایات و اخلاقیات سے جوڑا جا سکتا ہے؟ کیا گھر کے بڑے بوڑھے نہیں جانتے کہ وہ اسی ماہواری کے نتیجے میں دنیا میں تشریف لائے ہیں؟ کیا گھر سے رخصت ہونے والی بیٹی کے والد اور بھائی کو علم نہیں کہ اب ان کی بیٹی کا شوہر ازدواجی تعلق قائم کر کے اسے حاملہ کرے گا؟ کیا جب بیٹی بچہ گود میں ڈالے میکے آتی ہے اور سب نہال ہوئے پھرتے ہیں تو کیا وہ بچہ کوئی پری گود میں ڈال گئی ہے؟

جب سب کچھ طبعی ہے اور اسی طرح ہے جس طرح کھانا پینا، سانس لینا اور حوائج ضروری سے فارغ ہونا تو ماہواری سے کیا پردہ؟ کیا ماہواری ترتیب دینے والا خالق کا مقصد اپنی مخلوق کو شرمندہ کرنا تھا یا جیتے جی کسی عذاب میں مبتلا کرنا تھا؟ ایسی بری چیز ”ماہواری“ کے بغیر عورت کو پیدا کرنا خالق کے لئے کیا مشکل تھا؟

مشکل یہ ہے کہ ماہواری کا معاملہ کسی نہ کسی طرح مذہب سے منفی انداز میں جوڑ دیا گیا ہے۔ جو ہمیں کسی طور یوں سمجھ نہیں آتا کہ پندرہ برس گزر گئے زمین عرب پہ زندگی گزارتے، جس میں سعودی عرب میں گزارے گئے دن بھی شامل ہیں۔ اسلام کی جنم بھومی میں کسی بھی مرد کے لئے ماہواری اور شرم کا آپس میں قطعی کوئی تعلق نہیں، خواہ وہ اس کی بہن، ماں اور بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔

ابتدا میں ہماری آنکھیں حیرت سے پھیل جاتیں جب بچی کے ابا حضور اور بڑے بھیا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہم سے اس کی ماہواری کے مسئلے پر بات کرتے۔ ان گناہ گار آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا جب ایک بیٹا اپنی ماں کو لیبر روم زچگی کے لئے چھوڑنے آیا اور ہم سے استفسار کیا کہ کتنی دیر ہے ابھی زچگی میں اور رحم کا منہ کتنا کھل چکا ہے؟

کیا کوئی پاکستانی مرد اس نہج پہ سوچ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں تب ملا جب ہم نے ایک ساتھی مرد ڈاکٹر کو ماتھے پہ سلوٹیں ڈالے یہ کہتے ہوئے سنا،

”حد ہو گئی بھئی، بہت ہی بے شرم لوگ ہیں، ماں بہن کی ماہواری پہ بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں تو شرم سے ڈوب مرتا ہوں“
یہ پاکستانی کلچر کے تربیت یافتہ مرد جو ڈاکٹر بھی ہے، کا حال تھا تو باقی کے مرد کیسے سوچتے ہوں گے، کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔

مردوں کو تو چھوڑیے، گھر کی بڑی بوڑھیاں بھی بچیوں کو آنکھیں دکھاتی نظر آتی ہیں جب وہ باپ بھائی کے سامنے غلطی سے اس کا ذکر کر دیں۔ ماہواری لڑکی کی شرم ہے سو جتنا چھپا کے رکھو، اتنا بہتر۔ روزہ اور نماز کی ایکٹنگ لازم، درد کی صورت میں لوٹ پوٹ ہوتی رہو لیکن منہ سے اف بھی نہ کرو۔

ماہواری کا درد، ماہواری میں ہونے والی انفیکشن، ماہواری بے ترتیب ہونے کی صورت میں خون کی کمی اور بانجھ پن، ماہواری سے وابستہ جسمانی اذیتیں، یہ کسی بھی مرد کو جاننے سے دل چسپی نہیں۔

کیا کیجیے کہ ہمارے ان جہادی نظریات کی زد میں ہمارا اکلوتے بیٹے حیدر کی کم بختی آئی جب ہم نے ماہواری کے مسائل سے اسے روشناس کروانا شروع کیا۔ وہ لاکھ چیخ و پکار کرتا لیکن ہمیں اس کے دماغ میں یہ کیڑا پلنے سے روکنا تھا کہ یہ اس کا درد سر نہیں۔ آج ہم خوش ہیں کہ ہمارا بیٹا ایک ایسا مرد بننے کی طرف قدم بڑھا چکا ہے جہاں عورت کی آنکھ سے گرنے والا ہر قطرہ اس کے دل پہ گرتا ہے۔
ماہواری کا بین الاقوامی دن مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments