ریاست مدینہ اور نیشنل ازم


پاکستان میں دو جماعتی سیاسی نظام کی شکست پولیٹکل سائنس کے طالب علموں کے لیے ایک پر کشش موضوع ہے، جسے پاکستانی سیاست میں فوجی مداخلت کے ساتھ ساتھ اس امر کے ثبوت کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جمہوری نظام میں قیادت کی تطہیر کی ”تعمیر مضمر“ (بلٹ ان) صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

جنرل مشرف کے مارشل لا کے اختتام کے بعد پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل دیکھنے میں آیا۔ فوجی اقتدار کے اس چوتھے دور سے قبل کی دہائی میں یکے بعد دیگرے چار انتخابات کے نتیجے میں پاکستانی سیاست میں دو جماعتی نظام مستحکم ہو چکا تھا۔ اپنے دور اقتدار میں مشرف حکومت اس نظام کو شکست دینے کی بھرپور کاوشیں اور مسلسل دعوے کرتی رہی۔ لیکن جنرل مشرف کا غاصبانہ اقتدار اور ان کی قائم کردہ تیسری سیاسی جماعت تو وقت کے دھارے میں خاشاک ہو گئے لیکن سخت جان دو جماعتی نظام ان کے بعد بھی قائم رہا۔

مشرف اقتدار کے خاتمے کے بعد کے جمہوری عشرے کے دوران پاکستان کی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں پر عوام کے عدم اعتماد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ دس سالہ جمہوری تسلسل بالآخر پاکستان میں دو جماعتی نظام کے خاتمے پر منتج ہوا اور 2018 کے عام انتخابات میں ایک تیسری سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف حکومتی اقتدار کے منصب پر فائز ہوئی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے حکومتی منشور کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کے طرز کی ریاست بنائیں گے۔ وزیراعظم کا یہ وعدہ پاکستانی سیاست میں ریاست مدینہ کے مذہبی استعارے کے استعمال کا پہلا موقع نہیں تھا۔ مملکت پاکستان میں مدینہ کی یوٹوپیائی ریاست کے قیام کے مطالبے اور وعدے تاریخ پاکستان کے کم و بیش ہر دور میں دہرائے گئے۔

ایک ہزار چار سو برس قبل عرب کے شہر مدینہ میں نبی پاکﷺ کی قائم کردہ اسی مثالی معاشرت کی نشاۃ ثانیہ کے نعروں اور دعووں نے تحریک پاکستان کے دوران پاکستان کے مطالبے کو مذہبی تقدیس اور عوامی مقبولیت عطا کی تھی۔ ریاست مدینہ اسلام کے ماننے والوں کے لیے اسلام کے سنہرے دور کا استعارہ ہے جس کے احیاء کی خواہش آج بھی ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے۔ آج بھی پاکستانی عوام کی اکثریت یہ مانتی ہے کہ ملک کے گوناگوں مسائل کا بنیادی سبب اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔

ریاست مدینہ کے تصور کا اجمالی خاکہ انصاف اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ترقی یافتہ فلاحی ریاست کا ہے جس میں ریاست کا اولین مقصد شہریوں کی معاشی اور سماجی بہبود ہے۔ تاہم ریاست مدینہ ماڈرن ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور سے مختلف ہے کیونکہ جدید دور میں عوامی بہبود کے اعلی معیارات کو چھونے والی فلاحی ریاستوں کے برعکس ریاست مدینہ کے قیام کا راستہ صرف اور صرف اسلامی احکامات اور ہدایات کے نفاذ اور ان پر عملدرآمد کے ذریعے ممکن ہے۔

پاکستانی عوام کی اکثریت یہ یقین رکھتی ہے کہ خوشحالی اور عوامی فلاح کی منزل اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ شریعت کے احکامات اور قرآنی ہدایات کی بنیاد پر ایک صالح قیادت کی حکومت قائم نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ”ریاست مدینہ“ ایک خالصتاً مذہبی تصور معلوم ہوتا ہے۔ تاہم تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کے سنہرے دور کے احیاء کے اس جذبے کی جڑیں بنیادی اسلامی عقائد اور مذہبی تعلیمات کی بجائے مغرب میں جنم لینے والی نیشنل ازم کی اس تحریک میں پیوست ہیں جو کہ اٹھارہویں سے بیسویں صدی کے دوران عالمی سیاست پر حاوی رہی۔

نیشنل ازم کی مقبولیت کے دور میں ماضی کے عہد عروج کی تلاش صرف برصغیر کے مسلمانوں تک محدود نہ تھی بلکہ دنیا کی بیشتر اقوام نے اس دور میں اپنے ماضی کے سنہرے دور کے احیاء کے خوش کن خواب دیکھے۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں : ”دنیا کے اکثر ملکوں میں نیشنلزم کلچر اور تاریخ کے ذریعے وجود میں آیا۔ ماضی کی تلاش کلچرل نیشنل ازم کا اہم حصہ ہوتا ہے کہ جس کا مقصد قدیم روایات اور اداروں کا احیا ہوتا ہے۔ مثلاً یورپ میں یونان اور روم ایک ماڈل کے طور پر ابھرے، اسلامی معاشروں میں اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور کے احیاء کی کوششیں ہوئیں اور ہندوؤں میں ویدک دور کو ترقی کے لئے لازمی قرار دیا گیا“ ۔

پاکستانی معاشرے کے مذہبی سیاسی آدرشوں اور رجحانات کے پس پردہ بھی جدید نیشنل ازم کی تحریک کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ نیشنل ازم یا وطنی قومیت کا احساس گزشتہ تین صدیوں سے انسانی زندگی کے مقاصد کے تعین میں بنیادی محور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ کھیل کے میدانوں میں جیتنے والے کھلاڑیوں کے ساتھ جشن مناتے اور ہارنے والوں کے ساتھ آنسو بہاتے ان کے کروڑوں ہم وطن، اور جنگ کی رزم گاہوں میں مادر وطن کے لیے فخر کے ساتھ جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے نوجوان، اور نسل در نسل ان کی بہادری کی داستانیں دہراتے ان کے قومی لواحقین، اس تڑپ کا بے محابہ اظہار ہیں جو وطنی قومیت کا جذبہ روح انسانی میں برپا کر چکا ہے۔ سرحدوں کی بنیاد پر انسانوں میں اپنے اور پرائے کی تفریق اس قدر طاقتور ہو چکی ہے کہ وطن کی سرحدوں کے حلقہ میں برپا ہونے والا انسانیت سوز سانحہ اگر سرحدوں کے باہر وقوع پذیر ہو جائے تو مسرت و تفاخر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اپنے اور پرائے کی شناخت کرنا انسانی زندگی کے اولین سماجی فیصلوں میں سے ایک ہے۔ چونکہ یہ فیصلہ زندگی کے ان ادوار میں ہی کر لیا جاتا ہے جو انسان کی یاداشت میں محفوظ نہیں رہتے لہذا ایک خالصتاً سماجی مظہر ہونے کے باوجود، اپنے قریبی افراد اور اپنی جائے پیدائش سے لگاؤ ایک جبلی وصف معلوم ہوتا ہے اور عمومی طور پر اس لگاؤ کو انسانی فطرت کا خاصہ قرار دیا جاتا ہے۔

اپنے گردوپیش کے سماجی ماحول، اشخاص اور رسوم و رواج کی جانب رغبت اور میلان کے شدید احساس سے ہر انسان واقف ہے۔ اجنبی دیسوں کے سفر اور نئے لوگوں سے ملنے کی پر کشش خواہش کی ہر شدت، تسکین کے اس احساس کے آگے ہیچ ہے جو واپسی کے سفر کے دوران گھر کے قریب پہنچنے پر جانی پہچانی جگہوں کے نظارے سے دل کو حاصل ہوتی ہے۔

تو کوئی تعجب کی بات نہیں اگر انسان اپنی مقامی شناختوں پر فخر اور ان کی برتری پر یقین رکھتا ہے۔ کوئی زبان اسے ماں بولی سے زیادہ میٹھی معلوم نہیں ہوتی۔ اپنے گاؤں کی ساگ روٹی اسے دنیا بھر کے پکوانوں سے زیادہ لذیذ محسوس ہوتی ہے۔ وہ اغیار کی رسوم و رواج کے مقابلے میں اپنی روایات کو بہتر سمجھتا ہے اور انہیں فرض جان کر نبھاتا ہے۔ حالات اور روزگار کے لیے آبائی گلیاں چھوڑ دینے والے تاعمر ہجرت کے ناسٹلجیا کو جھیلتے ہیں اور دفن کے لیے کوئے یار میں دو گز زمین کی تمنا رکھتے ہیں۔

اپنائیت اور غیریت کے یہ ”تقریباً فطری“ احساسات انسانوں کے مابین گروہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مانوسیت کا اطمینان اور اجنبیت کا خوف انسان کے دل میں اپنوں کے لیے احساس تفاخر اور غیروں کے لیے احساس تنافر کو جنم دیتا ہے، جس سے مختلف گروہوں کے مابین شناختی تفاوت مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے نیشنل ازم کا بیج بھی بنی نوع انسان کے انہی کہنہ احساسات کی سرزمین پر پھوٹا۔ لیکن ان تقریباً فطری احساسات کے برعکس نیشنل ازم ایک فطری جذبہ نہیں ہے۔ وطن سے لگاؤ کا فطری احساس انسانوں نے ہر دور میں محسوس کیا، لیکن وطنی قومیت یعنی نیشنل ازم کا تصور ہمیشہ سے موجود نہیں تھا۔ وطنی قومیت نے تاریخ کے ایک خاص مرحلے پر مخصوص سماجی اور شعوری عوامل سے مل کر جنم لیا۔

فطری حب الوطنی کے احساسات کی بنیاد چند حقائق یعنی علاقہ، زبان، نسل وغیرہ پر قائم ہے۔ بعینہ یہی حقائق نیشنل ازم کی بنیاد میں بھی موجود ہیں، مگر نیشنل ازم کے زیر اثر ان حقیقتوں کا حقیقی تاثر بدل جاتا ہے جس کے باعث انسانی جذبات کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔ مثلاً شہروں کے مابین منعقدہ کھیلوں کے مقابلوں کے دوران جذبات کا وہ عالم دیکھنے میں نہیں آتا جو بین الاقوامی مقابلوں کے دوران دیکھنے کو ملتا ہے، حالانکہ فطری جذبات کے زیر اثر انسان کو اپنے قریبی ماحول سے زیادہ انسیت اور زیادہ جذباتی وابستگی ہونی چاہیے۔

چنانچہ وطنی قومیت کے تصور کی تفہیم کا پہلا قدم یہ سمجھ لینا ہے کہ قومی گروہ بندیاں فطری طریق پر استوار نہیں ہوئی ہیں۔ فطری گروہ بندیاں ذاتی تجربے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، جس کی مثال محلے داری، قبیلہ بندی اور تعلیمی اداروں میں ہم جماعتی کے گروہی رشتے ہیں، جو ذاتی تعلق اور تجربے، واقفیت، وسائل کے اشتراک اور باہمی تعاون کی بنیاد پر وجود پذیر ہوتے ہیں۔

لیکن جدید قومی جماعتیں واقفیت، باہمی تعاون، یا وسائل کے اشتراک سے وجود میں نہیں آئی ہیں۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ وطنی قومیت ”تجرباتی“ نہیں ”تصوراتی“ گروہ ہے۔ گلگت کے بہادر کوہ پیما علی سد پارہ کی کے ٹو پر چڑھائی کے دوران حادثاتی موت کا غم، اسی مہم میں ہلاک ہونے والے اطالوی کوہ پیماؤں کی نسبت زیادہ ہے تو اس کا سبب وہ تخیلاتی تصور ہے، جو پنجاب کے باسیوں کو گلگت کے اجنبی باشندوں کے ساتھ ہم قومیت کے طاقتور لیکن غیر مرئی اور غیر ذاتی رشتے میں باندھے ہوئے ہے۔

قومیت ایک تصوراتی بندھن ہے جو تاریخی اور سیاسی عمل نے افراد کے ذہن پر نقش کیا ہے۔ فی زمانہ قومی جذبہ دیگر تمام گروہی ناتوں کی نسبت زیادہ طاقتور، زیادہ قابل عمل اور زیادہ کارآمد ہے۔ تاہم کوئی بھی قوم یا قومی ریاست ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں بنتی ہے، کیونکہ قوم تصورات کی مدد سے تشکیل پاتی ہے اور تصورات کے بدل جانے سے قومیت کا رشتہ بدل جاتا ہے۔ سو کچھ بعید نہیں کہ گروہی تصورات کی تبدیلی کے نتیجے میں ایک قومی ریاست تقسیم ہو جائے یا پھر ایک وسیع تر تہذیبی گروہ بندی میں ضم ہو جائے۔

وطنی قومیت کا تصور ان مخصوص قومی جذبات سے وابستہ ہے جو اٹھارہویں سے بیسویں صدی کے عرصے میں قوم سازی کی بنیاد بنے۔ قدیم زمانے میں بھی ایک مخصوص زبان بولنے والوں یا ایک جغرافیائی خطہ کے رہنے والوں کو قوم قرار دیا جاتا تھا، لیکن ان اقوام میں وطنی قومیت کا وہ شعور موجود نہیں تھا جس کے تحت قوم کے افراد مخصوص مقاصد کے حصول کی خاطر ایک ایسا باہم مربوط اکٹھ تشکیل دیتے کہ جس کے اراکین کے احساسات، نظریات اور اعمال میں قومی یکجہتی موجود ہوتی۔

لوگ مختلف دیہاتوں اور شہری ریاستوں میں بٹے ہوئے تھے۔ سماج امراء اور رعایا میں تقسیم تھا۔ لیکن جب وطنی قومیت کا شعور آیا تو بکھرے ہوئے لوگ آپس میں جڑنے لگے۔ عوامی اقتدار اعلی اور جمہوری تصورات نے ہر خاص و عام کو سیاسی عمل اور حکومتی فیصلہ سازی میں شریک کر دیا۔ تمام افراد ایک قومی ریاست کے قالب میں ڈھل گئے۔ اس وطنی قومیت میں امیر و غریب سبھی ساجھے دار تھے۔ نیشنل ازم کے نتیجہ میں انسان کی ریاستی شناخت اس کی دیگر تمام شناختوں پر حاوی ہو گئی اور آج انسان کی سب سے اہم اور موثر گروہی پہچان، اور اس کے انسانی حقوق کی ضامن، اس کی شہریت یعنی کسی مخصوص قومی ریاست سے وابستگی ہے۔

در حقیقت نیشنل ازم ایک سیاسی تصور ہے جس کے مطابق قوم کا یہ حق ہے کہ اس کی اپنی قومی ریاست ہو، جہاں کی حکومت قوم کی نمائندگی کرتی ہو۔ یہی وہ قومی جذبہ ہے جس کی بنیاد پر قومیں اپنی آزاد قومی ریاست کے حصول کی جدوجہد کرتی ہیں اور قومی ریاست کو لاحق خطرات کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

نیشنل ازم سے پہلے سیاسی اور سماجی تاریخ میں شاہی اور جاگیرداری کا دور تھا۔ ریاست کے تخت پر سرفرازی طاقتور ترین کا حق تھا۔ یکے بعد دیگرے ملکی و غیر ملکی تلوار باز طاقت کے زور پر اہل وطن پر تسلط قائم کر لیا کرتے۔ زیر قبضہ علاقے کا انتظام جاگیرداری نظام کے تحت چلایا جاتا۔ یہ نظام مختلف ممالک اور مختلف ادوار میں مختلف صورتوں میں رائج رہا، لیکن عمومی صورت اس ادارے کی یوں تھی کہ تخت پر قابض ہونے کے بعد نیا حکمران تعاون کرنے والے جاگیرداروں کی جاگیریں برقرار رکھتا، جبکہ مخالف جاگیرداروں کی جاگیریں چھین کر انہیں سخت سزائیں دی جاتیں۔ چھینی گئی جاگیریں بادشاہ اپنے وفاداروں کو عطا کرتا اور یوں زمینوں کی تقسیم کے ذریعے بادشاہ کے حامی وفاداروں کا طبقہ پیدا کیا جاتا جو بادشاہ کے اقتدار کو مستحکم کرتا۔

جاگیردار بادشاہ اور عوام کے درمیان وسیلے کا کام انجام دیتے۔ یہ جاگیردار بادشاہ کو خراج اور فوجی قوت فراہم کرتے جس کے بدلے میں جاگیردار کو اپنے علاقے میں مکمل اختیار عطا کیا جاتا۔ بہت سے چھوٹے جاگیر دار ایک نسبتاً بڑے منصب کے حامل جاگیردار کے تابع ہوتے اور بڑے منصب دار صوبائی گورنروں کے زیر کمان ہوتے۔ منصب داری بسا اوقات غیر موروثی ہوتی، لیکن زیادہ تر جاگیریں، سلطنت کی طرح، وراثت میں جاگیردار گھرانے کی اگلی نسل کو منتقل ہو جاتیں۔ وراثتی انتقال کے سبب سماج میں شاہی خاندان، اشرافیہ اور عوام الناس کے طبقات مستقل بنیادوں پر نسل در نسل قائم رہتے۔ مقامی عبادت گاہوں کے متولی جاگیردار کو، جبکہ نامی گرامی علماء شہنشاہ کو عوام کی نظر میں الہوی تقدیس عطا کر کے سیاسی اور سماجی نظام کے استحکام میں اضافے کا سبب بنتے۔

سست رو پیداواری عمل اور سفر کی مشکلات کے باعث تجارت محدود تھی۔ چنانچہ ہر گاؤں اور قصبے کی ضرورت تھی کہ وہ اپنی ضروریات کی پیداوار میں خود کفیل ہو۔ گاؤں کے معاشی عمل کی ذمہ داری کاشتکاروں کے ساتھ ساتھ لوہار، جولاہے، کمہار، تیلی، موچی، نائی، اور دوسرے دستکار اور ہنر مند افراد سنبھالتے۔ افراد کے پیشے خاندانی ہوا کرتے۔ پیشوں کی بنیاد پر سماجی رتبہ متعین ہوتا اور اپنے آبائی پیشے کو ترک کرنے والے کو سماجی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ سختیاں اس لیے برتی جاتیں تاکہ گاؤں کی پیداواری خود کفالت میں خلل نہ پڑے۔

گاؤں والوں کو اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے اور سماج کے معاشی و سماجی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ایک طاقتور سربراہ کی ضرورت ہوتی۔ یہ ضرورت جاگیردار پوری کرتا جو فوجی قوت کا حامل ہوتا۔ جاگیر دار لوگوں کے لیے سرپرست، محافظ، اور نگہبان کی حیثیت رکھتا۔ وہ گاؤں کے معاملات کی نگرانی کرتا، امن و امان کو یقینی بنتا، گاؤں کے لیے ترقیاتی منصوبے بنانا اور ان منصوبوں کو پایا تکمیل تک پہنچاتا اور پنچایت کے سربراہ کی حیثیت سے لوگوں کے جھگڑوں اور مقدمات کا فیصلہ کرتا اور سزائیں سناتا۔ بدلے میں لوگ جاگیردار کی اطاعت کرتے، اسے ٹیکس دیتے اور ضرورت کے وقت فوجی خدمات فراہم کرتے۔

تخت شاہی کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر جاگیردار کے لیے ضروری ہوتا کہ وہ اپنی جاگیر اور رعایا کے تحفظ کے لیے وقت کے تقاضوں کے تحت اپنی وفاداریاں تبدیل کرتا رہے۔ شاہی خانوادے کی طاقت کو زوال آنے لگتا تو چھوٹے جاگیردار اپنے علاقوں میں خود مختار ہو جاتے یا اپنی وفاداری ابھرنے والی ممکنہ شاہی قوت سے وابستہ کر لیتے۔ اپنی جاگیر اور رعایا کے تحفظ کے لیے تمام اخلاقی اصول قربان کر دینا جاگیردار کے لیے ضروری ہوتا۔ چنانچہ موقع پرستی اور وفاداری کی تبدیلی جاگیردار کا خاصہ بن جاتی۔ ان حالات میں پست کردار اور پیچ دار سازشی ذہنیت کے حامل افراد کامیاب جاگیردار ثابت ہوتے۔

جاگیر دار کی معاشی قوت کا انحصار زراعت پر ہوتا۔ دیگر پیشوں کی پیداوار محدود ہونے کے سبب گاؤں میں ہی استعمال ہو جاتی اور بہت کم پیداوار تجارتی منڈیوں تک پہنچ پاتی۔ مارکیٹ میں روزگار کم یاب ہونے کے سبب کسان کے پاس زمین سے بندھے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ لہذا جاگیرداروں کو کسانوں کی محنت انتہائی سستے داموں دستیاب ہوتی۔ اور وہ ان کی محنت پر اپنی معاشی برتری اور سیاسی قوت کو نافذ کرتا۔

شہروں کی آبادی میں اضافہ اور تجارت کے فروغ سے کسانوں کو شہروں میں ملازمت کے مواقع میسر آتے اور وہ گاؤں چھوڑنے پر آمادہ ہوتے جس کے باعث جاگیردار کے مفادات پر زد پڑتی۔ لہذا جاگیردار پیشے کی تبدیلی اور مہاجرت کی حوصلہ شکنی کرتے اور ایسی فیوڈل اقدار، آرٹ اور ادب کی سرپرستی کرتے جس سے روایت پرستی کو فروغ حاصل ہوتا۔ روایت پرست معاشرہ تبدیلی اور جدید خیالات سے خوف میں مبتلا ہوتا۔ نتیجتاً تجارت، جدید علمی انکشافات، اور ترقی پسند خیالات کی حوصلہ شکنی ہوتی اور معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا۔

سولہویں صدی کے یورپ میں چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد کتاب چھاپنے کا عمل بے حد آسان ہو گیا۔ کتابوں کی بہتات نے معاشرے میں علمی انقلاب برپا کر دیا۔ ایک جانب مارٹن لوتھر کی اصلاحی تحریک نے مذہبی میدان میں روایتی عقائد کو زد پر لیا تو دوسری جانب کوپرنیکس، گلیلیو، اور نیوٹن کے انکشافات نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ سائنس کی ترویج سے ٹیکنالوجی کو فروغ ملا جو صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ساتھ ہی نئی دنیا کی دریافت، سمندری راستوں کی کھوج اور جدید ذرائع آمد و رفت کے باعث پیداوار اور تجارتی عمل کو بے پناہ فروغ حاصل ہوا۔

شہروں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے تو دیہاتی کسانوں کے لیے جاگیرداری نظام سے بندھے رہنے کی کوئی وجہ نہ رہی۔ جاگیرداری دور میں محنت کش عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے صنعت کار اور تاجر دولت میں کھیلنے لگے۔ دولت کی فراوانی کے باعث تاجر اور سرمایہ دار طبقہ معاشرے میں ایک نئی قوت بن کر ابھرا اور روایتی طاقتور اشرافیہ کو آنکھیں دکھانے لگا۔

سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں علمی اور صنعتی انقلاب نے صدیوں سے جاری جاگیرداری معاشرے کی روایتی بنت کو تہس نہس کر دیا۔ مفکرین نے مطلق العنان بادشاہت، نسبی اشرافیت اور مذہبی پاپائیت پر سوالات کی زد پر رکھ لیا، اور عوام الناس میں مساوات، انسانی حقوق اور فرد کی آزادی جیسے تصورات کا شعور اجاگر ہوتا گیا۔ زرعی دور کی کہنہ روایات، اور سیاسی اشرافیہ عوام کو غیر ضروری بوجھ محسوس ہونے لگیں اور ان کے ذہنوں میں ایک نئی سیاسی فکر پنپنے لگی جو بہت جلد عالمی سیاست میں نیشنل ازم کی تحریک کی صورت برپا ہونے والی تھی۔

اٹھارہویں صدی سے پہلے حکمرانوں اور رعایا کی قومیت میں فرق ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ آبائی وطن اور ہم وطنوں سے جذباتی لگاؤ ہمیشہ کی طرح تب بھی قائم تھا، لیکن اپنے پرائے کی وطنی شناخت کی بنیاد پر حق خود ارادیت، آزاد قومی ریاست اور حکومت سازی کا عوامی حق کے طور پر مطالبہ، اٹھارہویں صدی کے وسط تک غیر موجود تھا، اور یہی سیاسی مقاصد تھے جو جدید نیشنل ازم کی تحریک کے فوری محرکات ثابت ہوئے۔

اٹھارہویں صدی کے اختتام پر نیشنل ازم بیک وقت کئی یورپی ممالک میں بھرپور قوت سے آشکار ہوا اور انسانی ارتقاء کی تاریخ میں نیشنل ازم کے دور کا آغاز ہو گیا، جس کا اولین شاندار اظہار فرانسیسی انقلاب کی صورت میں ہوا جس نے اس نئی تحریک کو زبردست قوت متحرکہ عطا کی۔ اس انقلاب نے نیشنل ازم کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافہ کے لیے مضبوط ترین عامل کا کردار ادا کیا، اگرچہ دیگر تمام تاریخی تحاریک کی طرح نیشنل ازم کی جڑیں بھی ماضی میں گہرائی تک پیوست ہیں۔ وقت نے صدیوں ان حوادث کی پرورش کی کہ جن کے تحت بالآخر نیشنل ازم کا ظہور ممکن ہوا۔

انقلاب فرانس وطنی قومیت کی تحریک کا پہلا اظہار تھا۔ اس انقلاب کی بنیاد پرانے سیاسی اور سماجی نظام کے خلاف بدحال عوام کی نفرت کے بڑھتے ہوئے جذبات تھے۔ اس عوامی غیض و غضب کے نشانہ پر پادری اور اشرافیہ تھے جنہیں نام نہاد فرانسیسی پارلیمان کا بالترتیب پہلا اور دوسرا طبقہ یعنی فرسٹ اور سیکنڈ اسٹیٹ کہا جاتا تھا۔ یہ دونوں طبقات معاشرے کی روایتی تنظیم کے پاسدار تھے۔ ان طبقات کے خلاف عوامی نفرت کے باعث معاشرے میں تیسرے طبقہ کی مقبولیت کو فروغ حاصل ہوا۔ یہ تیسرا طبقہ پارلیمان کی تھرڈ اسٹیٹ کہلاتا تھا۔

تھرڈ اسٹیٹ عوامی طبقہ تھا جو کسانوں، مزدوروں اور شہری ہنرمند طبقات کی نمائندگی کرتا تھا۔ اس طبقے کی باگ ڈور بورژوازی یا سرمایہ دارانہ مڈل کلاس کے ہاتھ میں تھی۔ تیسرا طبقہ اپنے آپ کو محض سماج کا ایک طبقہ نہیں سمجھتا تھا بلکہ وہ خود کو تمام قوم کا نمائندہ قرار دیتے تھے۔

تیسرا طبقہ ایک نئی ابھرتی ہوئی قوت کی علامت تھا جو تبدیلی کا متمنی تھا اور ماضی سے رشتہ توڑنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسی قومی ریاست کے قیام کا خواب دیکھ رہا تھا جہاں قانون سازی کا عمل عوامی امنگوں کے تابع ہو۔ اشرافیہ اور مذہبی پیشواؤں کی نسبت تیسرے طبقے کی سماجی روایات سے وابستگی بہت کم تھی۔ تیسرے طبقے نے شاہی درباروں کی تہذیب کو رد کر کے عوامی ثقافت، عوامی زبان اور عوامی ادب اور عوامی آرٹ کو فروغ دیا۔

روسو اور والٹیئر کے خیالات سے متاثر بدحال فرانسیسی معاشرے نے سماج کی طبقاتی زنجیروں کو توڑ کر حکومتی فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا۔ قوم پرست عوامی گروہوں نے بسٹائل کے قلعے پر قبضہ کر لیا اور فرار ہوتے ہوئے بادشاہ اور ملکہ کو گلوٹین کے سپرد کر کے حاکموں اور محکوموں کی شناخت پلٹ ڈالی۔ شہنشاہی سطوت کا دور تمام ہوا اور بزم شاہی غریبوں کی گزر گاہ بن گئی۔ اقتدار اعلی عوام کے ہاتھ آیا، انسانی حقوق کا چارٹر ترتیب دیا گیا اور سماج کی طبقاتی تقسیم کو ازسرنو مرتب کیا گیا۔

جس وقت فرانس کا آسمان عوامی انقلاب کے پہلے انسانی تجربے کے حیرت انگیز نظارے میں محو تھا، کم و بیش اسی دور میں امریکی عوام نے نوآبادیاتی برطانیہ کے محصولاتی استحصال کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ ایک عشرے کی مسلح جدوجہد کے نتیجہ میں تاج برطانیہ نے گھٹنے ٹیک دیے اور امریکی عوام اپنا وطن آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔ نو آزاد ریاست میں جمہوری نظام حکومت رائج کیا گیا اور اقتدار اعلیٰ عوام کے ہاتھ میں آیا۔ امریکہ دنیا کی اولین جمہوری قومی ریاست بن گیا۔

اگلی ایک صدی میں نیشنل ازم کی سیاسی اور سماجی تحریک تمام یورپ میں پھیل گئی۔ نیشنل ازم کی نمود نے عوام کو ایک مشترکہ سیاسی قوت کی صورت میں مجتمع کر دیا۔ بادشاہت کی جگہ عوامی اقتدار اعلیٰ نے لے لی۔ سیاسی عمل اور حکومتی اقتدار میں شراکت داری نے عوام کے دلوں کو قومی تفاخر اور قومی یک جہتی کے احساس سے لبریز کر دیا اور اس احساس نے حب الوطنی کے قدیمی جذبہ کو قوم پرستی کا جدید مفہوم عطا کیا۔

نیشنل ازم کی ابتدا امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں ہوئی۔ ان ممالک میں نیشنل ازم کی تحریک طاقتور مڈل کلاس کے سیاسی حقوق کی تحریک تھی۔ برطانیہ میں پہلے سے موجود ریاستی تنظیم نے بدلتی ہوئی عوامی امنگوں کا درست ادراک کر کے متوسط طبقے کے مطالبات کو قریب قریب پر امن طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ ان گنے چنے مغربی ممالک، جو نیشنل ازم کے ابتدائی تجربہ کنندگان تھے، کے برعکس دنیا کے دیگر خطوں میں نیشنل ازم کی نوعیت قدرے مختلف تھی۔

انقلابات زمانہ کے زیر اثر برطانیہ، فرانس اور امریکہ جیسے مغربی ممالک کا متوسط طبقہ وسائل اور شعور کے اس معیار تک پہنچ چکا تھا جہاں اسے معاشرے کا نظم چلانے کے لیے ”ہابس“ کے مہیب شہنشاہ (لیویتھن کنگ) کی چنداں ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس طبقے میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی تھی کہ روایتی بادشاہوں اور نوابوں کی نسبت وہ خود اپنے فیصلے زیادہ بہتر انداز سے کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ان ممالک میں نیشنل ازم کا ظہور متوسط طبقے کی سیاسی اور معاشی حقوق کی لگن اور جدوجہد کی صورت میں ہوا، اور اس مخصوص نیشنل ازم نے ماضی کی کسی یوٹوپیائی ریاست کو معیار بنانے کی بجائے زمانۂ حال کے سیاسی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کا تعین کیا۔

دوسری جانب وسطی و مشرقی یورپی اور ایشیائی ممالک میں نیشنل ازم کی تحاریک نسبتاً دیر سے نمودار ہوئیں۔ تاخیر کے باوجود ان ممالک میں عوام کا سیاسی اور سماجی شعور مغربی ممالک کے عوام کے مقابلے میں پست درجے پر تھا۔ معاشرہ زرعی اور صنعتی ادوار کے درمیانی دور سے گزر رہا تھا۔ متوسط طبقہ نومولود، کمزور اور عصری شعور سے عاری تھا۔ چنانچہ مغربی ممالک کے سیاسی و معاشی نیشنل ازم کے برعکس، ان پسماندہ ممالک کا نیشنل ازم ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہوا۔ سیاسی اور سماجی ارتقاء کی پسماندہ صورتحال کے سبب مغربی دنیا سے باہر پنپنے والی وطنی قومیت نے اپنا اولین ہیولہ ثقافتی میدان میں تشکیل دیا۔

وسطی و مشرقی یورپ اور ایشیاء کے قوم پرستوں نے ماضی کی اساتیر اور مستقبل کے خواب کے ملغوبے سے عہد گزشتہ کی ایک ایسی آدرشی ریاست کا تصور تخلیق کیا جو تاریخ عالم میں اس قوم کا بزعم خود سنہرا دور تھا۔ آغاز میں یہ تصور محض شاعروں اور ادیبوں کی امید اور خواب تھا جسے عوامی رائے عامہ کی تائید حاصل نہ تھی۔ یہ ایک یکسر غیر موجود تصور تھا جسے دانشوروں نے تخلیق اور مشتہر کیا۔ ماضی کی اس ریاست کو قوم پرستوں نے ایسی حقیقی اور خیالی خوبیوں سے مزین کیا جو نوزائیدہ قوم کے اپنے اور اپنے شاندار ماضی کے بارے میں خوابناک تصورات کو مزید خوابناک بناتی تھیں۔

سنہرے دور کی یوٹوپیائی ریاست کا قوم کے عصر حاضر سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ حتی کہ خود قوم پرست دانشوروں کو یہ امید نہیں تھی کہ اس آئیڈیل ریاست کے قیام کا خواب فوری طور پر یا مستقبل قریب میں شرمندۂ تعبیر ہو سکتا تھا۔ لہذا وہ تمام خواص جو ماضی کے سنہرے دور سے وابستہ کیے گئے ان کو حقیقت کا روپ دینے کی کوئی فوری ذمہ داری بھی قوم پر عائد نہیں ہوتی تھی۔

”مغربی ممالک کے زیر تسلط نوآبادیاتی اقوام میں ابھرنے والا کلچرل نیشنل ازم اور اس سے وابستہ سماجی اور فکری ترقی مغرب سے بے حد متاثر تھی جو ایک طویل عرصہ سے دنیا بھر کا نوآبادیاتی حکمران، فکری استاد اور تخلیقی معیار تھا۔ لیکن مغرب پہ بعینہ یہی انحصار، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا کمتری کا احساس، مقامی پڑھے لکھے طبقے کے قومی غرور کو زک بھی پہنچاتا تھا۔ چنانچہ اس طبقہ نے اپنا مقامی قومی تشخص اپنے شاندار ماضی میں دریافت کرنا شروع کر دیا تھا۔ قومی تشخص کی تلاش بالآخر مغرب کو غیر اور غلط قرار دینے اور اس کے لبرل اور عقلی رویہ کو رد کرنے پر منتج ہوئی“ ۔

انجام کار کلچرل نیشنل ازم کے زیر اثر مختلف اقوام میں تاریخ کے سنہری دور کی کھوج کی جانے لگی۔ جرمنی میں ہٹلر نے آریائی قوم کی نسلی برتری کو اجاگر کیا۔ اٹلی میں مسولینی نے رومن ایمپائر کی شان و شوکت کو ابھارا۔ یونانیوں نے قدیمی یونان کی عظمت کی داستانوں کو دہرایا۔ ہندوستان میں ساورکر نے ہندوتوا اور گاندھی نے رام راج کا نعرہ لگایا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ریاست مدینہ، اموی فتوحات کا دور، عہد عباسیہ اور اندلس، حتیٰ کہ خلافت عثمانیہ سنہری دور کے طور پر سامنے آئے۔

عربوں نے لسانی قوم پرستی کے جھنڈے تلے ترکوں سے آزادی حاصل کی۔ کلچرل نیشنل ازم کے زیر اثر ترکوں نے ترکی کلچر کو غیر ملکی اثرات سے پاک کرنے کی کوشش کی اور اپنی قومی تطہیر کے لیے سماج میں موجود ایرانی، بازنطینی اور عربی عناصر کی بیخ کنی کی۔ ایرانی قوم پرستوں نے ایران کا تہذیبی رشتہ ہخامنشی بادشاہت سے منسلک کیا اور مصر میں فراعنہ تہذیب پر قومی تفاخر کو ابھارا گیا۔

ابتداء میں قوم کے سنہرے دور کا تصور قومی ریاست کے قیام کے لیے نہیں تھا بلکہ ہم وطنوں کو زمانہ حال کی پستیوں کا احساس دلانے کے لیے تھا۔ شاعروں اور دانشوروں نے ماضی کی عظمت کے گیت گائے تاکہ قوم کو نا امیدی اور مایوسی کے گرداب سے نکالا جا سکے اور ان کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کو پھر بحال کرنے کی ترغیب دی جائے۔ لیکن جیسے جیسے متوسط طبقہ تعلیم یافتہ ہوتا گیا، ویسے ویسے عوام کا سیاسی شعور پنپتا گیا

سیاسی بیداری کے نتیجہ میں، انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے نصف اول کے دوران، کلچرل نیشنل ازم بالآخر ایک قومی ریاست کے قیام کے خواب میں ڈھل گیا۔ مغربی ممالک کے سیاسی اور معاشی نیشنل ازم کے مطابق عوام کے لیے سیاسی اور معاشی حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنے کی بجائے کلچرل نیشنل ازم نے آدرشی ریاست کے احیاء کو قوم کا مقصد قرار دیا۔ قوم کا فوری مشن یہ تھا کہ وہ اپنے لیے ایک خود مختار ریاست حاصل کرے تاکہ بعد ازاں سماجی تجربات کے ذریعے آنے والے کسی دور میں اس ریاست کو ماضی کی یوٹوپیائی ریاست میں تبدیل کر کے قوم کے سنہرے دور کا احیاء کیا جا سکے۔

یوٹوپیائی ریاست کے احیاء کی جدوجہد ایک نپی تلی جانچ شدہ مہم کی بجائے، ایک مبہم نقشے کا سفر تھا، جس کے نتائج غیر واضح تھے۔ یہ مشن ابہام، تضاد، حد سے زیادہ خود اعتمادی اور تہذیبی نرگسیت سے بھرپور تھا جس کے نتائج یورپی ریاستوں کو عالمی جنگوں کی صورت میں بھگتنا پڑے۔ جنگ کے بعد یورپی ریاستوں نے کلچرل نیشنل ازم کے تصورات پر نظر ثانی کی اور بالآخر نیشنل ازم سے آگے بڑھ کر براعظمی اتحاد کی منزل تک جا پہنچے۔ تاہم بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک بشمول پاکستان آج بھی سنہرے دور کی آدرشی ریاست کی کھوج میں سرکردہ ہیں۔

بیسویں صدی کے قوم پرست ہندوستانی مسلمانوں کے متوسط طبقے کی فکری اور سیاسی باگ ڈور تعلیم یافتہ سرمایہ دارانہ طبقے کے ہاتھ میں کم، جبکہ روایتی مذہبی اور جاگیردارانہ طبقے کے ہاتھ میں زیادہ تھی۔ جدت اور روایت پرستی کے اس غیر مساوی ملغوبہ کے زیر اثر ابھرنے والے نیشنل ازم کے تحت جہاں ایک جانب عوام الناس میں نیم جمہوری رویوں نے جنم لیا، تو وہیں دوسری جانب ملائیت اور مطلق العنانیت کے لیے گنجائش بھی باقی رہی۔ جس کے نتیجے میں ”ریاست مدینہ“ کے نعرے کے تحت ”جمہوری جدوجہد“ کے ذریعے حاصل کردہ ”قومی ریاست“ پاکستان میں آمریت اور جمہوریت کی کشاکش، اور تقلید پرستی و ترقی پسندی کی کشمکش جاری رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments