ذاتی مفاد کے لئے چشم پوشی


اس دنیا میں اپنی غرض نکالنا ہی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا پہلا اور آخری اصول ہے۔ کتابوں میں لکھے جانے والے اور تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والی اخلاقیات کا حکمرانوں اور ریاستوں کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہاں اپنے مفاد کو ترجیح دینا ہی بنیادی اصول ہوتا ہے۔ اپنی پارٹی کا آدمی اربوں روپے کی چوری کرے اس سے لازمی چشم پوشی کی جاتی ہے اور اپوزیشن کا صرف چور کے ساتھ کھڑا مل جائے تو اسے بہت بڑا چور بنا دیا جاتا ہے۔ ہر حکومت کچھ ایسا ہی کرتی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کی مثال لے لیں تو وہاں یہ چیز آپ کو اور بھی زیادہ نظر آئے گی۔

صدر بائیڈن اپنی پہلی پریس کانفرنس کے اس بیانئے سے منحرف نظر آتے ہیں کہ یہ دور جمہوریت اور مطلق العنانیت کے درمیان مبارزت کا دور ہے اور ہمیں ثابت کرنا ہے کہ جمہوریت آج بھی اتنی ہی کارآمد ہے جتنی یہ پہلے تھی۔ صدر بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے سے لے کر اب تک اگر عالمی حالات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسی کوئی بات بھی جمہوریت کے حق میں نظر نہیں آتی بلکہ وہی پرانی روش نہایت واضح ہے کہ امریکی مفاد کو ترجیح دی جائے۔

جمہوریت کے تمام اصولوں پر بات کی جاتی ہے اور ان کی پامالی پر واویلا بھی کیا جاتا ہے مگر اپنے حساب سے۔ امریکہ اور مغرب چین اور روس کے حوالے سے انسانی حقوق کا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ وہاں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ انہیں مغرب میں اپنے ہی ممالک میں ہوتی ہوئی انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔ یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف منظم مہمات اور مسلمانوں کا کشت و خون ان انسانی حقوق کے چیمپئن کو کبھی نظر نہیں آتا۔ جہاں انہوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہو اور اپنی بڑائی ثابت کرنا مقصود ہو وہاں سارے اصول بیان کیے جاتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر ہر طرف سے شور کروایا جاتا ہے۔

وہی امریکہ جو ٹرمپ کے دور میں سعودی عرب کے یمن پر حملوں کی حمایت کرتا رہا اب بائیڈن کے دور میں سعودی عرب پر دباؤ بڑھ جانے کے لئے ان حملوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہہ رہا ہے۔ کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے اور ساتھ میں عرب ممالک جیسے قطر ہے کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرے کیونکہ نئے اتحاد بنانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

صدر ٹرمپ ہو یا کوئی اور پالیسی ہمیشہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی ہی چلتی ہے۔ اس کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ اب ٹرمپ کاروباری معاہدات پر زور دیتا رہا اور جان بوجھ کر اخلاقیات کو نظر انداز کرتا رہا تاکہ مخالف کچھ ایسی غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب ہوں کہ مستقبل میں کسی بھی وقت انہیں ان حرکات کی وجہ سے نچایا جا سکے۔ جنگوں میں کتنے سویلین مرے کتنے افراد بے گھر ہوئے یا کتنے صحافی مارے گئے یا قید ہوئے یہ بڑی طاقتوں کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ ان کے اعداد و شمار اپنے پاس جمع کرنا اور بوقت ضرورت انہیں استعمال کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے۔

ان بڑی طاقتوں کے صدور اور سربراہان بڑے لچھے دار اور پر کشش بیان جاری کرتے ہیں جیسے کہ جارج ڈبلیو بش نے اپنی دوسری بار صدر بننے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری سر زمین کی آزادی کا قائم رہنا دوسری سر زمینوں کی آزادی سے مشروط ہے اور اسی نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

صدر باراک اوبامہ نے ظلم روکنے کا بورڈ قائم کیا جس کا نام اٹراسٹیز پریوینشن بورڈ تھا مگر شام میں اور جنوبی سوڈان میں گھرے لوگ جو ظلم کا شکار تھے اس بورڈ کو کبھی نظر نہ آئے۔

اپنی پالیسی آگے بڑھانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مظالم سے چشم پوشی کرنا خود ایک پالیسی بن چکا ہے۔ بڑے بڑے اصولوں کے بھاشن دینا اور جب اپنا مفاد سامنے آئے تو اسی اصول سے صرف نظر کر لینا یا یو ٹرن لے لینا آج کل ہی نہیں عرصہ دراز سے ممالک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا اہم جز رہے ہیں۔

ابھی حال ہی کے فلسطینی حالات کو دیکھیں تو یہ پالیسی واضح طور پر سمجھ آجاتی ہے بلکہ ایک دفعہ پھر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ طاقتور کا مفاد ہی اصل میں اس کی پالیسی اور اصول ہوتا ہے۔ باقی کتابی اصولوں کو وہ صرف دوسروں کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔

مظالم سے چشم پوشی اب بھی اتنی ہی شدت سے جاری ہے جتنی کہ یہ پہلے تھی۔ سعودی عرب سے یمنی سکول بس پر بمباری ہو جائے یا صدر بشار الاسد ہسپتالوں پر حملے کروائے یا اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر حملے کر کے ان کے گھر بار سکول ہسپتال سب کچھ تباہ کر رہا ہو یہ چشم پوشی جاری ہے۔ اس چشم پوشی اور نظر انداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے معصوم انسانی جانوں کا نقصان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ آرمڈ کونفلیکٹ اینڈ ایوینٹ ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق 2016 سے لے کر 2020 کے درمیان سینتیس ہزار سویلین مارے گئے۔ کوئی اسی ملین لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہسپتالوں پر حملے بھی بڑھ گئے ہیں اور امدادی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو جان سے مارنے کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مگر صاحبان اقتدار کی ذاتی مفاد پر مبنی چشم پوشی جاری رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments