فواد چوہدری کا ہارڈ ٹاک کے ساتھ انٹرویو: ’مغربی میڈیا میں پاکستان کے اداروں پر الزام عائد کرنا فیشن ہے، دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے‘


فواد چوہدری

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد سے صحافیوں پر حملوں میں کمی آئی ہے اور یہ مغربی میڈیا کی جانب سے ایک طرح کا فیشن بن گیا ہے کہ جب بھی صحافیوں پرتشدد سے متعلق کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو پاکستان کی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں لوگوں کی جانب سے ریاستی اداروں پر اس طرح کے الزامات لگا کر ’بیرون ملک امیگریشن لینے کی ایک تاریخ موجود ہے۔‘

بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں میزبان سٹیفن سیکر کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آزادی اظہار رائے اور آزاد صحافت کا تحفظ پاکستان کے آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق ہیں اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں اس کی ضمانت دی گئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بی بی سی سمیت 43 بین الاقوامی چینلز جبکہ 112 مقامی چینلز، 258 ایف ایم ریڈیو چینلز اور پندرہ سو سے زائد پرنٹ پبلیکشنز ہیں۔

انھوں نے یہ اعداد و شمار دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک میں میڈیا اداروں کا حجم کیا ہے اور یہ اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں ہے۔‘

‘آئی ایس آئی پر الزام مغربی میڈیا کا فیشن بن گیا ہے’

اسلام آباد میں صحافی و ولاگر اسد علی طور پر تین مسلح افراد کی جانب سے گھر میں گھس کر بری طرح تشدد کرنے اور اس میں مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے کردار کے سوال پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور ایک سینیئر پولیس افسر کو تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ہم نے موقع سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے جس میں یہ افراد دکھائی دے رہے ہیں، جلد ہی وہ پکڑے جائیں گے۔’

اسد طور
صحافی اسد طور پر چند روز قبل ان کے گھر میں حملہ کیا گیا تھا

انھوں نے اس موقعے پر سوال کیا کہ ‘لیکن کیا یہ مغربی میڈیا کے لیے ایک فیشن ہے کہ جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہو تو وہ پاکستان کی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام عائد کرے اور میں جانتا ہوں کہ ماضی میں لوگوں کے اس طرح کے الزامات لگا کر بیرون ملک امیگریشن لینے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ لہذا یہ ایک مسئلہ ہے جس کا ہمیں اس وقت سامنا ہے۔’

صحافی اسد علی طور پر تشدد ہو یا کچھ عرصہ قبل صحافی ابصار عالم پر فائرنگ کا واقعہ ہو یا صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق پاکستان دنیا میں صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک ہے اور یہ صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے اس سے متعلق حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے، اس سوال پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘ایسے اکا دکا واقعات دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں اور پاکستان ان واقعات سے بالاتر نہیں ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں آپ کے اس دعوے کو بھی چیلنج کرتا ہوں کیونکہ یہ سوال سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے، ماضی میں حالات صرف صحافیوں کے لیے ہی خطرناک نہیں تھے بلکہ صورتحال ہر شہری کے لیے خطرناک تھی کیونکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہے تھے اور اس دوران بہت سے فیلڈ جرنلسٹ اور شہری اس جنگ میں مارے گئے۔ یہاں تک کے سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی ایک دہشت گرد حملے میں ہلاک ہوئی تھیں۔’

اس سوال کے جواب میں کہ بظاہر عمران خان کی حکومت آنے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا آزاد صحافت پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ درحقیقت وزیر اعظم عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد سے صحافیوں پر حملوں میں کمی آئی ہے۔ ’جب آپ کسی پاکستان ادارے یا ایجنسی کے خلاف الزام لگاتے ہیں تو آپ کو اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے چاہییں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘صحافیوں پر حملے کے بیشتر واقعات میں مجرمان پکڑے گئے ہیں۔ جن دو تازہ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے ان کی ابھی تک تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں اور میں نہیں جانتا کہ آپ نے کس طرح سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ ان واقعات میں ریاست ملوث ہے۔’

ہارڈ ٹاک کے میزبان سٹیفن سیکر کی جانب سے پاکستان کے ایک بڑے نیوز چینل جیو ٹی وی کے ایک سابق شو کے اینکر طلعت حسین کا پروگرام بند کیے جانے اور ریاستی اداروں کے میڈیا اداروں پر دباؤ اور مبینہ طور پر براہ راست مداخلت کے سوال پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘میں طلعت حسین کو صحافی ہی نہیں سمجھتا کیونکہ عمران خان کی حکومت آنے سے بہت پہلے ہی ان کا پروگرام ٹی وی پر بند ہو گیا تھا کیونکہ ان کو ریٹنگ نہیں مل رہی تھی۔’

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا میڈیا کسی بھی ملک کے میڈیا کی طرح کمرشل ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص ریٹنگ نہیں لا سکتا تو چینلز ان کو ہٹا دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں 43 بین الاقوامی اور 112 مقامی چینلز ہیں تو میڈیا کی اس بڑی تعداد میں موجودگی پر حکومت مداخلت کیسے کر سکتی ہے؟ ایسے میں حکومت پر مداخلت کا الزام کیسے عائد کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان کا کسی بھی مغربی ملک یا تیسری دنیا کے ممالک سے مقابلہ کیا جائے تو شاید ہمارے ہاں زیادہ آزاد میڈیا موجود ہے۔’

اگر ہم جارحانہ انداز میں سوچتے تو بی بی سی کی پاکستان میں نشریات بند کر دیتے

بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین کی ایڈیٹوریل پالیسی کے باعث مقامی چینل آج نیوز پر ریاستی اداروں کی مداخلت اور حکومتی دباؤ کے باعث بندش کے سوال پر وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہم نے اتنے جارحانہ انداز میں سوچا ہوتا جیسا آپ کہہ رہے ہیں تو شاید ہم بی بی سی ورلڈ کی پاکستان میں نشریات ہی بند کر دیتے۔ لیکن جیسے کہ آپ جانتے ہیں بی بی سی ورلڈ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز میں سے ایک ہے۔ ہم نے کبھی اس کی نشریات میں مداخلت نہیں کی لیکن اردو چینلز کی بات کچھ اور ہے۔’

’ان کے لیے آپ کو مقامی قوانین پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے جو نہیں کیا جا رہا تھا۔ اگر ان قوانین کی پاسداری کی جائے تو انھیں آج نشریات کی اجازت مل جائے گی۔‘

انھوں نے اپنے دفاع میں مزید کہا کہ ’یہاں میں بی بی سی اردو کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں حالانکہ میں بی بی سی کو بحیثیت ایک ادارہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ آسیہ بی بی جو توہین مذہب کے الزامات سے بری ہوئی تھیں تو بی بی سی اردو کی ایک خبر کی شہ سرخی تھی کہ ہالینڈ کی سفیر آسیہ بی بی کو لینے جیل گئے ہیں جو کہ غلط خبر تھی اور اس کے نتیجے میں ملک میں ہالینڈ کے سفارتخانے کو دھمکیاں ملنے کے باعث دس روز کے لیے بند کرنا پڑا تھا۔ اور بدقسمتی سے بی بی سی نے اپنے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔‘

لاپتہ افراد رضاکارانہ طور پر افغانستان چلے جاتے ہیں

ملک میں جبری گمشدگیوں کی روک تھام میں عمران خان حکومت کی ناکامی اور ان واقعات میں فوج کی خفیہ اداروں کے مبینہ کردار کے سوال پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی، پاکستان کی فوج انسانی حقوق کی اسی طرح عزت کرتی ہے جیسے کسی بھی ملک کی سول حکومت کرتی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے مہذب فوج ہے اور یہ دنیا کی ذمہ دار فوج میں سے ایک ہے اور لوگ اس کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کردار کو سراہتے ہیں۔’

یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے جبری گمشدگیوں کے معاملے میں پاکستان کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں، اور خاص طور پر سندھ میں ہونے والی جبری گمشدگیوں کو سنجیدگی سے لے اور ان پر غیرجانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے ملوث افراد کو قانون کے دائرے میں لائے۔

سنہ 2020 میں آٹھ ماہ کے دوران بلوچستان میں 149 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی ایک تاریخ ہے۔

’زیادہ تر لاپتہ افراد رضاکارانہ طور پر افغانستان کے شورش زدہ علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور جب وہ لاپتہ ہو جاتے ہیں تو اس کا الزام پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز پر لگا دیا جاتا ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں سب سے کم تعداد میں لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔ ’ہم وہ واحد حکومت ہیں جنھوں نے ابھی گمشدگیوں کے خلاف قانون پاس کیا ہے۔ ہم نے غیر قانونی حراست کو جرم بنایا ہے۔ اب یہ قانون ملک کی سینیٹ سے پاس ہو چکا ہے اور اب یہ پارلیمان میں جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ لاپتہ افراد کے معاملے میں ایک اہم قدم ہے اور اس ضمن میں پاکستان کی تاریخ کو مت بھولیں کیونکہ ہم نے دہشتگردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ ملک کو جس طرح دہشت گردی کا سامنا تھا دنیا کی بہت کم قومیں اس کو برداشت کر سکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ہم نے 70 ہزار شہریوں کی جانوں کی قربانی دی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘اور گوانتنامو بے کیا تھا، وہ اس حوالے سے خصوصی اقدامات ہی تھے۔ اس لیے اس قسم کا نتیجہ اخذ نہ کیا جائے اور اس بات کو غلط رنگ نہ دیا جائے تو بہتر ہے۔’

فواد چودھری
‘کسی کی جرات نہیں میری اتھارٹی کو چیلنج کرے’

صحافیوں پر حملوں اور سنسرشپ کے معاملے میں پاکستان میں چند ریاستی عناصر کے بااختیار اور طاقتور ہونے کے سوال پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں دنیا کے پانچویں بڑی ریاست، دنیا کے ساتویں ایٹمی ملک کا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ہوں اور کسی کی جرات نہیں کہ میرے اختیارات کو چیلنج کرے۔ میں یہاں مکمل اتھارٹی کے ساتھ موجود ہوں اور میں فیصلہ کرتا ہوں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوگا۔‘

ملک میں نئے سوشل میڈیا قوانین اور ان کے ذریعے انٹرنیٹ پر آزادی اظہار رائے کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر قدغن لگانے اور ریاستی کنٹرول کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’نفرت آمیز مواد کی تو دنیا بھر میں نفی کی جا رہی ہے، اس کی روک تھام کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ دنیا میں تمام کمپنیاں اور اداروں پر لازمی ہے کہ وہ نفرت آمیز مواد کی روک تھام کریں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ’نئے قانون کا نفاذ ابھی تک نہیں کیا گیا اور ملک میں نئے سوشل میڈیا قوانین ابھی تک زیر بحث ہیں، ابھی تک ایسے کوئی قوانین موجود نہیں ہیں۔‘

ہارڈ ٹاک کے میزبان سٹیفن سیکر کی جانب سے ان قوانین پر دنیا کی بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کی جانب سے تشویش کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘میں ان ٹیکنالوجی کپمنیز کی بڑی قدر کرتا ہوں اور یقیناً ان کے موقف کو سنوں گا کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان آئیں اور اپنے دفاتر قائم کریں کیونکہ ہم ان کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سینسرشپ کا کوئی مسئلہ نہیں ہیں اور ’میں ان کمپنیوں کو کھلے دل سے اپنے ملک میں خوش آمدید کہنا چاہوں گا۔‘

فیصلہ سازی کا اختیار وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ کے پاس ہے

عمران خان کی حکومت پر اعلیٰ فوجی قیادت کے زیر اثر پالیسیاں بنانے اور آزادانہ فیصلہ سازی میں کمزوری کے تاثر پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ تاثر کسی انڈیا کے زیر اثر تھنک ٹینک کا ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ ایسا کوئی تاثر نہ پاکستان میں ہے نہ ہی دنیا میں ہے۔ عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول رہنما ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ پاکستان کی منتخب کردہ حکومت کی طاقت کو کم نہ سمجھا جائے۔ عمران خان نے انتخابات میں تقریباً 20 کروڑ ووٹ حاصل کیے جو مزاق نہیں ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان ایک ایٹمی ملک کے وزیر اعظم ہیں۔

‘وہ فیصلے کرتے ہیں، وفاقی کابینہ فیصلے کرتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمارے ملک کی اسٹیبلشمینٹ سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ یہ پاکستان کے نظام کا لازمی جز ہیں اور ہم ان کی رائے کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن ملک کے معاملات کی فیصلہ سازی کا اختیار وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ کے پاس ہے۔’

عمران خان کے دور حکومت میں کساد بازاری، ترقی کی کم شرح، ملک میں غربت اور بیروزگاری میں اضافے سمیت عمران خان کی جانب سے عوام سے کیے وعدے پورے نہ ہوتے دکھائی دینے کے سوال کا دفاع کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘میں آپ کے تبصرے سے اتفاق نہیں کرتا، اس وقت پاکستان میں ترقی کی شرح تین اعشاریہ نو چار فیصد ہے جو کووڈ 19 کے بحران کے باوجود پوری دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی جانب سے کووڈ 19 کے بحران کا کامیابی سے مقابلہ اور اس بحران سے معیشت کو نکالنا کامیابی کی ایک الگ کہانی ہے۔

آزادانہ معاشی امور کے ماہرین کا حکومتی اعداد و شمار سے عدم اتفاق اور ملک میں بڑھتی مہنگائی کے باعث عوام میں بڑھتی مایوسی کے سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ ‘جن لوگوں نے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا وہ آج بھی ان کے مداح ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگلے انتخابات میں بھی عمران خان کو اکثریت ملے گی اور وہ وزیرِ اعظم ہوں گے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری حکومت کے دوران 1100 ارب روپے شہری معیشت سے دیہی معیشت کو منتقل کیے گئے ہیں۔’

وزیر اعظم عمران خان کی کورونا وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی کامیاب رہی

ملک میں کورونا کی وبا کے دوران صرف ایک فیصد آبادی کو ویکسین لگانے اور پاکستان کا دنیا کے ان ممالک میں شمار ہونا جو ویکسینیشن کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں، فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘مجھے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر والکن بیسکر کی اس بات کو پڑھ کر سنانے کی اجازت دیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اپنی کووڈ 19 سے متعلق پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔’

انھوں نے کہا کہ جہاں تک ویکسینز کی بات کریں تو اب تک ملک میں 55 لاکھ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی حکومتی حکمت عملی کامیاب رہی ہے اور وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے جزوی لاک ڈاؤن لگانے کی حکمتِ عملی نے کام کیا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ہلاکتوں کی شرح صرف دو اعشاریہ دو فیصد اور مثبت کیسز کی شرح چھ فیصد سے کم رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp