پولیس، ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ اور دیگر کہانیاں


حال میں کراچی کی ایک ویڈیو نے ہر قسم کے ذرائع ابلاغ پر بڑی دھوم مچائی۔ ویڈیو کے دو حصے تھے۔ اول حصے میں ویڈیو ایک گاڑی کے اندر سے بنائی جا رہی ہے۔ گاڑی کے باہر پولیس کے جوان کھڑے ہیں جو کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے نوجوان کو باہر نکالنا چاہ رہے ہیں۔ باہر سے پولیس والے بھی گاڑی کے اندر کی ویڈیو بنا رہے ہیں۔ نوجوان فون پر کسی سے ’بندے‘ منگوا رہا ہے۔ اس کے بعد ایک اور ویڈیو ہے جس میں نیوی کے بہادر سپوت سندھ پولیس کو فتح کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک پولیس والے کے سر سے خون بہہ رہا ہے باقی حیران و پریشان و خوفزدہ کھڑے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق نیوی کے بہادر جوان اپنے افسر کے حکم کی بجاآوری میں پولیس کی ٹھکائی کر رہے تھے۔ افسر محترم کا ’ہاکس بے‘ جانے کا موڈ تھا اور پولیس بلاوجہ درمیان میں ’کرونا‘ کو لے آئی۔ انہیں روکنے کی کوشش کی جو کہ نیوی کے عظیم سپوت کو برداشت نہ ہوا اور پھر وہی ہوا جو سب نے دیکھا۔

ان ویڈیوز کو عوام کی اکثریت نے بہت سراہا۔ یہ ویڈیوز ہزاروں مرتبہ ’شیئر‘ ہوئیں۔ ’شیئر‘ کرنے والوں کی اکثریت وہی تھی جن کو کہ یہ واقعہ بہت پسند آیا تھا۔ ہزاروں لوگوں نے رائے دی کہ ’پولیس کے ساتھ بہت اچھا ہوا۔ غلط جگہ (عرف عام میں )‘ پنگا ’لینے کا یہی انجام ہوتا ہے۔‘ یہ دونوں ویڈیوز سماجی میڈیا کی ایک بھیانک اصطلاح ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ کے عنوان کے ساتھ شیئر ہوئیں۔ جو قارئین اس اصطلاح سے ناواقف ہیں ان کی آسانی کے لئے بتاتے چلیں کہ بل اصل یہ اصطلاح کمپیوٹر اور موبائل فونز میں موجود ’سافٹ ویئرز‘ اور ’ایپز‘ کے جدید ’ورژن‘ کے ’انسٹال‘ ہو جانے کے لئے استعمال ہوتی ہے مگر یہ سماجی میڈیا پر چند سال سے یہ ایک خاص معنی میں استعمال ہوتی۔

جب کوئی بھی شخص کسی طاقتور سے ٹکر لینے کی سعی کرے مگر مار کھا کر یا تشدد سہنے کے بعد اپنے موقف یا اپنی کوشش سے ’یو ٹرن‘ لے لے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو گیا۔ پاکستان میں ویسے تو یہ طریقہ پرانا ہے مگر یہ اصطلاح کافی نئی ہے۔ مجھے یہ تو واضح یاد نہیں کہ یہ اصطلاح سب سے پہلے کب استعمال ہوئی تھی مگر قیاس ہے کہ شاید ایسا پہلی مرتبہ ہوا جب تھا جب ایم کیو ایم پاکستان کے لیڈران نے الطاف حسین کی بائیس اگست کی تقریر کے بعد حراست میں جانے کے ایک ہی دن بعد ایم کیو ایم لندن سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس اصطلاح نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ ہمارے ریاستی اور حراستی ادارے آئے دن ’سافٹ ویئر اپڈیٹ‘ کرتے رہے اور سماجی میڈیا پر ہماری عوام تالیاں بجاتی رہی۔ ان ہی ریاستی اور حراستی اداروں نے ایک دوسرے کے بھی سافٹ ویئر خوب کھل کھلا کر اپ ڈیٹ کیے۔ موٹر وے پر فوج کے چند گرم خون جوانوں نے پولیس کے نرم خون جوان کو خوب دھویا۔ بعض صحافیوں کا خلائی مخلوق نے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا۔ ایک آدھ پروفیسرز بھی پی ٹی ایم اور ایم کیو ایم لندن کی وجہ سے سافٹ ویئر اپڈیٹ سے گزرے۔

پولیس نے بھی کمزور عوام کے سافٹ ویئر اپڈیٹ کیے۔ ’کرونا‘ کے دوران باہر نکلنے والوں کو سر عام تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور یہ بھی سافٹ ویئر اپڈیٹ قرار پایا۔ پشاور کے ایک ہوٹل کے ویٹر عامر تھکالے ؔ کو خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی برہنہ ویڈیو سماجی میڈیا پر ڈالی گئی اس لیے کہ اس نے پولیس کو نشے کی حالت میں گالیاں دی تھیں۔

الغرض جب سے اس سماج کو یہ غلیظ اصطلاح ملی ہے تب سے کسی نہ کسی کا ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ ہی ہو رہا ہے۔ لوگ تالیاں بجا رہے ہیں کہ ’دیکھو فلاں مار کھا کر کیسا سیدھا ہو گیا‘ ، ’فلاں کی بولتی کیسی بند ہو گئی‘ ، ’فلاں نے کیسی معافی مانگی‘ ، ’فلاں کیسے رو رہا تھا۔‘ اس تضحیک کے پیچھے کوئی نظریہ نہیں بس سب کے لئے ایک پیغام ہے کہ طاقتور سے ٹکرانے کی غلطی کوئی نہ کرے۔ طاقتور سے سے لڑائی کا کوئی نہ سوچے۔ اس سے کوئی سوال نہ کرے، نہ کوئی جواب طلب کرے۔

اگر ایسی غلطی کسی نے بھی کی تو طاقتور اس کا ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ کردے گا۔ یعنی ایسی غلطی کرنے والے کو سرعام مارا پیٹا جاسکتا ہے، حراستی مرکز لے جایا جاسکتا ہے، غائب کیا جاسکتا ہے، قتل کیا جاسکتا ہے۔ ان سب باتوں میں سے کوئی بھی بات ہو سکتی ہے۔ اس لیے طاقتور سے پہلے ہی جھگڑا مول نہ لیا جائے تاکہ ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ کی نوبت ہی نہ آئے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ اس سماج میں بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب، مسلک و نظریہ ہر انسان اس بات پر قائل ہو گیا ہے کہ طاقتور سے ٹکرانا بیوقوفی ہے۔ یہ ایسا عمل ہے کہ جس پر بہیمانہ قوت والا طاقتور نہیں بلکہ ٹکرانے والا کمزور قابل تضحیک ہے۔ یہ سماج طاقتور کو خدا بنا بیٹھا ہے۔ یہ سماج بندوق والوں کو، وردی والوں کو، طاقت والوں کو حق سمجھتا ہے اور باقی سب کو باطل۔

یہ قیدیوں کی نفسیات ہے۔ جیل میں قیدی ایک دوسرے کو ہر وقت یہی سمجھاتے رہتے ہیں کہ ’کچھ بھی ہو جیل انتظامیہ (جس کو کہ جیل میں‘ گورنمنٹ ’کہا جاتا ہے ) سے ٹکر مت لینا۔‘ ، ’جب بھی راونڈ آئے اپنا سارا سامان خاموشی سے اٹھا کر باہر رکھو اور زمین پر اکڑوں بیٹھ جاؤ۔‘ ، ’خبردار جو سامان اٹھانے میں نخرے کیے۔‘ ، ’صبح اور شام‘ جوڑی ’کے وقت اکڑوں بیٹھ کر حاضری دو۔‘ ، ’گورنمنٹ جو بھی سہولت واپس لے چوں نہ کرو۔‘ ، ’ان سے کسی بات پر نہ اٹکو اس لیے کہ اگر ایسا کیا تو وہ تمہارا‘ سافٹ ویئر اپڈیٹ ’کردیں گے۔‘ جیل میں ’گورنمنٹ‘ کے اتباع کی یہ صورت سمجھ بھی آتی ہی کہ آخر وہ جیل ہے، مگر جب سارا سماج ہی یہی سوچ اپنا لے تو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حال میں جی رہے ہیں؟

جیل میں کم از کم قیدی یہ تو جانتا ہے کہ سپریٹنڈنٹ جیل ہے کون مگر ہمارے سماج کو تو صحیح سے یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس میں سب سے قوی کون ہے؟ پولیس عامر تھکالے ؔکا مزاج درست کر سکتی ہے اس لیے کہ وہ ایک مفلوک الحال انسان ہے جس نے پولیس کی شان میں شراب کے نشے میں گستاخی کردی۔ مگر اسی پولیس کو نیوی کے ’سیلر‘ سڑک پر مار مار کر ادھ موا کردیں تو وہ کچھ نہیں کر سکتی اس لیے کہ ان کے مقابلے میں وہ ’عامر تھکالے‘ ہے۔

پولیس کی شان عامر تھکالے کے لئے الگ ہے اور نیوی کے جوان کے لئے الگ؟ پولیس والے اپنے علاقے میں غنڈے بنے گھومتے ہیں یہاں تک کہ ان کا سامنا کسی رینجرز سے ہو جائے۔ افواج کے لوگ اپنے سے بڑے رینک والے کے سامنے عامر تھکالے ؔ ہیں اور سارے ہی یونیفارم اور غیر یونیفارم لوگ خلائی مخلوقات کے سامنے عامر تھکالے ؔ ہی۔ اس ملک میں صرف طاقت کا تاثر ہی اتنے کام کرا دیتا ہے کہ ہر سال سیکڑوں کی تعداد میں خود کو پولیس والا، فوجی، انٹیلی جنس افسر اور نجانے کیا کیا کچھ ظاہر کرنے والے جعل ساز پکڑے جاتے ہیں۔

یہ کیسا سماج ہے کہ جہاں کسی ادارے کی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں بس ساری ساکھ طاقت کی ہے۔ بہت اکڑ کر بات کرنے والے اپنے سے بڑے کے آ جانے پر بکری کی طرح منمناتے ہیں۔ اور اگر نہ منمنائیں تو ان کا ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹ‘ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے سے بڑے کی شان بیان کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ تو بہت اچھے بچے ہیں بس وہ تھوڑا بہک گئے تھے۔ وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ ان میں کوئی ریڑھ کی ہڈی نہیں۔ وہ تو بس نشے میں آ گئے تھے۔

اب ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو گیا ہے۔ وہ آئندہ شرارت نہیں کریں گے۔ طاقتور ان سے خوش ہو کر کہتا ہے، ’شاباش، اپنے سے کمزوروں کے ساتھ وہی کرتے رہو جو تم کر رہے تھے بس میرے راستے میں آئندہ مت آنا۔‘ ’سافٹ ویئر اپ ڈیٹیڈ‘ لوگ طاقتور کو سلام کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں وہ وہ اپنے سے کمزوروں کا سافٹ ویئر اپڈیٹ کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments