وہ جو سورج پہ کمند ڈالنے نکلے


جوانی واقعی دیوانی ہوتی ہے، نوجوان سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا بدل سکتے ہیں، انقلاب لا سکتے ہیں، سماج سے نا انصافی اور ظلم کا خاتمہ کر سکتے ہیں، امیر اور غریب کی تفریق ختم کر سکتے ہیں اور نجانے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور ان سے پہلے ڈی ایس ایف میں شامل نوجوان بھی سورج پہ کمند ڈالنے نکلے تھے۔ ان نوجوانوں نے ’اپنی چھاتی میں اس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے‘ ۔ وہ یہ گھاؤ بھر تو نہ سکے لیکن حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے ان نوجوانوں اور این ایس ایف کی ’بکھری ہوئی سرگرمیوں کی شیرازہ بندی‘ کا بیڑہ اٹھایا اور تین جلدوں پر مشتمل ”سورج پہ کمند ’کے عنوان سے ایک بے مثال دستاویز موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے تیار کر ڈالی۔

ان کی محنت اور لگن کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ پہلی جلد میں مختلف کارکنوں کی این ایس ایف سے وابستگی کا احوال پڑھنے کو ملتا ہے۔ پہلی جلد کی تقریب رونمائی 2018 میں ہوئی تھی۔ اور اب 2021 میں جلد دوم اور سوم ایک ساتھ سامنے آئی ہیں۔ دوسری جلد کا آغاز برصغیر میں تعلیمی اداروں کے قیام سے کیا گیا ہے۔ مصنفین کے مطابق انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں جدید عصری علوم کی منظم اعلیٰ تعلیم کا کوئی نظام نظر نہیں آتا تھا۔ دوسرا باب ابتدائی طلبہ تنظیموں اور تحریکوں کے بارے میں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ این ایس ایف کے طلبہ کے خوابوں، جذبوں، آدرشوں اور ولولوں کو سمجھنے کے لئے طلبہ تنظیموں اور تحریکوں کی تاریخ کے بارے میں جاننا ضروری تھا۔

میں نے جب 1968۔ 69 کے تعلیمی سال میں کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو این ایس ایف دو دھڑوں، کاظمی اور رشید گروپ میں تقسیم ہو چکی تھی۔ کاظمی گروپ روس نواز اور رشید گروپ چین نواز سمجھا جا تا تھا۔ مزے کی بات ہے کہ سورج پہ کمند کے مصنفین میں سے حسن جاوید کا تعلق ستر کی دہائی میں این ایس ایف کے رشید حسن خان گروپ سے تھا اور محسن ذوالفقار ساٹھ کی دہائی میں امیر حیدر کاظمی گروپ کے ساتھ کام کرتے تھے۔

ایوبی مارشل لا کے دور میں سات جنوری 1959 کو این ایس ایف پر پابندی لگا دی گئی لیکن وہ اپنا پندرہ روزہ جریدہ ”طالبعلم“ شائع کرتی رہی مگر جب اپریل 1959 میں اس جریدے نے حکومت کو سوشلسٹ نظام تعلیم اپنانے کا مشورہ دیا تو اس کا ڈیکلیریشن منسوخ کر دیا گیا۔ ایک سال بعد ایوبی آمریت نے لاہور کے شاہی قلعے میں حسن ناصر کو اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔

1961 میں انٹرنیٹ کی سہولت تھی نا الیکٹرانک چینلز تھے مگر جب جنوری میں کانگو کے عوام دوست رہنما لوممبا کو قتل کیا گیا تو این ایس ایف نے جبر و خوف کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک عوامی مظاہرہ کیا۔ اس جلوس پر حکومت کی حامی تنظیم سے حملہ بھی کروایا گیا۔

فروری 1961 میں ہندوستان کے شہر جبل پور میں مسلم کش فسادات ہوئے تو این ایس ایف نے ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا۔ پولیس نے پر امن طلبہ پر حملہ کیا اور بڑی تعداد میں طلبا کو گرفتار کر لیا گیا۔ جلد دوم میں اس طرح کے بہت سے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ جن میں مولانا بھاشانی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذکر بھی شامل ہے۔

جلد سوم میں این ایس ایف کا نظریاتی اور تنظیمی جائزہ لیا گیا ہے۔ پہلا پنجاب کنونشن جس میں احمد ندیم قاسمی نے صدارتی خطبہ دیا تھا۔ سندھ ورکرز کانفرنس، پہلا صوبہ سرحد کنونشن، پہلا کل مغربی پاکستان کنونشن اور دیگر سرگرمیوں کا احوال پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس کے بعد یحییٰ دور کی طلبا تحریکوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے جلد سوم میں میرے حوالے سے ہی ایک تنازعہ پڑھنے کو ملا، تریسٹھ واں باب جس میں جامعہ کراچی کے جلسۂ تقسیم اسناد کا ذکر میرے حوالے سے کیا گیا ہے اس میں کرامت علی کے جمعیت کے ہاتھوں پٹنے اور مرتے مرتے بچ جانے کا ذکر ہے، مصنفین نے لکھا ہے کہ ان کی مزید تحقیق کے مطابق یہ طالب علم عابد علی سید تھے۔

بات یہ ہے کہ میرے سامنے این ایس ایف کا کوئی بھی ساتھی پٹتا تو میں نے تو شور مچانا تھا لیکن عابد اور رشید دوسرے مقامات پر تشدد کا نشانہ بنے تھے۔ میرے اور نسرین کی آنکھوں کے سامنے کرامت پر تشدد ہوا تھا، اس کے بعد جب میں نے آرٹس لابی میں جا کر ’تقریر‘ کی تو میرے دائیں بائیں بہت سے ساتھی کھڑے تھے لیکن اس وقت مجھے جمعیت پر اتنا غصہ تھا کہ اپنے ساتھیوں کی موجودگی پر غور کرنے کا موقع نہیں تھا۔ ایک اور تصحیح بھی کرتی چلوں کہ نسرین تالپور کے تعارف میں لکھا گیا ہے کہ میں این ایس ایف میں اپنی شمولیت کا سہرا نسرین تالپور کے سر باندھتی ہوں۔

نسرین میری بہت پیاری دوست تھی لیکن این ایس ایف میں میری شمولیت کی وجہ معراج محمد خان کی بھتیجی اور اپنی دوست رخسانہ آفریدی کے اصرار پر اکنامکس سوسائٹی کی نائب صدر کا انتخاب لڑنا تھا۔ اس وقت کے سیاسی حالات کی وجہ سے یہ الیکشن بہت اہمیت اختیار کر گئے تھے۔ پیپلز پار ٹی نئی نئی بنی تھی اور جمعیت کو یہ خوف تھا کہ اگر کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے جیت گئے تو باہر یہ پیغام جائے گا کہ آنے والے ملکی انتخابات میں پیپلز پارٹی بھی جیت جائے گی۔

جمعیت نے مجھے ہرانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا لیکن این ایس ایف کے ساتھیوں کی محنت کی بدولت میں جیت گئی۔ خیر یہ تو بات سے بات نکل آئی۔ اس وقت ذکر سورج پہ کمند کی تین جلدوں کا ہو رہا ہے۔ بلاشبہ جو کوئی بھی پاکستان میں طلبا کی تحریک کے بارے میں جاننا، پڑھنا اور لکھنا چاہے گا، یہ کتاب اس کے لئے اہم ترین حوالہ ثابت ہو گی۔ حسن جاوید اور محسن ذوالفقار ہمارے شکریے کے حقدار ہیں۔ تین جلدوں پر مشتمل اس تحقیقی دستاویز کی تیاری ہر ایک کے بس کا کام نہیں تھا لیکن پھر این ایس ایف کی پہچان ہی ایسے کمیٹڈ لوگ ہیں۔ شکریہ پیارے دوستو بے حد شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments