غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی ایک علمی نشست!


مشاہدہ میرا یہ ہے کہ خدمت خلق اور مفاد عامہ کے کام خواہ حکومتیں کریں، سرکاری، غیر سرکاری تنظیمیں کریں یا افراد، اچھے کام اور منصوبے کسی تشہیر کے محتاج نہیں ہوتے۔ عوام الناس ان اداروں اور منصوبوں کی کارکردگی کا چلتا پھرتا اشتہار ہوتے ہیں۔ لہذا میڈیا کی مدد کے بغیر بھی، ان اداروں کی شہرت پھلتی پھولتی اور پھیلتی رہتی ہے۔ عمومی طور پر کسی غیر سرکاری تنظیم ( این جی او ) کا نام سن کر ہمارے ذہن میں مال بنانے والے کسی ادارے کا تصور ابھرتا ہے۔

تاہم بہت سے غیر سرکاری ادارے ایسے ہیں جن پر ہم آنکھیں بند کر کے اعتبار کرتے ہیں۔ نہایت اطمینان قلب کے ساتھ ہم انہیں عطیات دیتے ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بھی ایسا ہی ایک نیک نام ادارہ ہے۔ گزشتہ 26 برس سے یہ ادارہ پسماندہ دیہی علاقوں میں غریب اور ذہین بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ملک بھر کے پینتیس اضلاع میں کم و بیش ایک لاکھ بچوں کی ذمہ داری اس ٹرسٹ نے اٹھا رکھی ہے۔ کرونا کے ہنگام بھی غزالی ٹرسٹ نے تعلیم فراہم کرنے کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا۔ تعلیم سے ہٹ کر بھی یہ تنظیم خدمت خلق کے کام کرتی رہتی ہے۔

کافی عرصہ سے میں ارادہ باندھا کرتی کہ کسی روز غزالی ٹرسٹ کا دورہ کروں۔ اس کے زیر اہتمام چلنے والے کچھ اسکولوں کا بھی۔ تاکہ ان کے مختلف منصوبوں اور کام کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ لے سکوں۔ مگر اپنی خواہش اور غزالی کی طرف سے ملنے والے کئی دعوت ناموں کے باوجود اس ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔ اس مرتبہ غزالی ٹرسٹ کی طرف سے دعوت موصول ہوئی تو فوراً ہامی بھر لی۔ نور الہدی، غزالی ٹرسٹ میں ہونے والی تقریبات کی انتظامی ٹیم کا مستقل حصہ ہیں۔ ان کا شکریہ جو انہوں نے مجھے اپنے دفتر سے غزالی تک لانے لے جانے کی ذمہ داری لے لی۔

دفتر پہنچی تو عامر محمود صاحب سے ملاقات ہوئی۔ عامر صاحب گزشتہ پندرہ برس سے غزالی ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ غزالی کے تمام تعلیمی منصوبے انہی کے زیر سرپرستی چلتے ہیں۔ عامر صاحب اندرون ملک اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں۔ حال ہی میں انہیں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔ کچھ دیر ہم نے غزالی کے مختلف منصوبوں پر بات کی۔ دیہی علاقوں میں قائم اسکولوں سے تو میں آگاہ تھی۔

پتہ یہ چلا کہ لاہور میں ایک کالج بھی انہوں نے قائم کر رکھا ہے جو مستحق اور ذہین طالب علموں کو تعلیم فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں اور شہروں سے آنے والے طالب علم یہاں پڑھتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ جلد اس کالج کا دورہ کیا جائے۔ گفتگو جاری تھی کہ سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود صاحب چلے آئے۔ معروف کالم نگار نعیم مسعود صاحب اور اردو ڈائجسٹ کے مدیر طیب اعجاز صاحب بھی۔ عمران مسعود صاحب آج کل ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔

اس کے علاوہ ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ یونیورسٹیز آف پاکستان (APSUP) کے ترجمان ہیں۔ مجھے یاد ہے پرویز مشرف دور میں عمران مسعود تعلیمی معاملات کے ضمن میں کافی متحرک رہا کرتے تھے۔ عرض کیا کہ اگرچہ میں پرویز مشرف سمیت ہر آمر کی سخت ناقد ہوں۔ مگر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس دور میں تعلیم کے حوالے سے اچھا کام ہوا۔ بھاری بھرکم فنڈز تعلیم کے لئے مختص ہوئے۔ چوہدری پرویز الہی صاحب نے پڑھا لکھا پنجاب جیسا منصوبہ شروع کیا۔

موجودہ حکومت کی تعلیمی پالیسیوں پر بات ہوتی رہی۔ بجٹ کٹوتی اور تعلیم پر اس کے برے اثرات کا ذکر ہوا۔ معیار تعلیم کی گراوٹ کا تذکرہ ہوا۔ کچھ جامعات کے وائس چانسلر صاحبان کی اچھی بری کارکردگی زیر بحث آئی۔ طیب اعجاز صاحب کہنے لگے کہ تعلیم پر آج کل نہایت برا وقت چل رہا ہے۔ میں نے کہا کہ بھلا اس ملک میں تعلیم پر اچھا وقت آیا ہی کب ہے؟

لاہور کالج یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ مرزا، اسکردو کے خواتین ڈگری کالج کی پرنسپل ڈاکٹر عظمی سلیم، پنجاب گروپ آف کالجز کی ڈائریکٹر حلیمہ سعدیہ بھی اس تقریب میں شریک تھیں۔ مجھ سمیت ہم سب کی توجہ کا محور ڈاکٹر عظمی سلیم تھیں۔ سب ہی وہاں کے تعلیمی منظر نامے سے متعلق آگہی چاہتے تھے۔ پتہ یہ چلا کہ سکردو میں شرح تعلیم کافی زیادہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان بھر میں ہنزہ شرح تعلیم کے حوالے سے پہلے نمبر پر آتا ہے۔

ڈاکٹر عظمی بتانے لگیں کہ گلگت بلتستان میں لوگ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ تعلیم ہی ان کی معاشی صورتحال میں بہتری لا سکتی ہے۔ ان کی یہ بات کر میرا دھیان اس فلسطینی لڑکی کی طرف چلا گیا جو سال بھر پہلے مجھے روضہ رسول کی انتظار گاہ میں ملی تھی۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ ہم فلسطینی تعلیم کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ تعلیم ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ اگرچہ اعلیٰ ڈگریوں کے باوجود ہمیں نوکریاں نہیں ملتیں، تاہم ہمیں یہ تسلی تو ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو یہ ہتھیار سونپ رہے ہیں۔ میں بیٹھی سوچتی رہی کہ تعلیم کس قدر اہم شے ہے۔ کاش ہمارے ارباب اختیار بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں۔

یہ بات بھی چلی کہ گلگت بلتستان کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ ان کی بات سن کر مجھے وہ ادھیڑ عمر خاتون یاد آ گئیں جو چند ماہ پہلے ہنزہ کے دورے کے دوران مجھے ملی تھیں۔ وہ کریم آباد کے علاقے میں سوپ اور چھاپ چھورو کا ایک چھوٹا سا مگر معروف ریستوران چلاتی ہے۔ بات چیت ہوئی تو اس نے بتایا تھا کہ یہاں پر ہم خواتین جتنی بھی مجبور ہو جائیں اپنی روزی روٹی خود کماتی ہیں۔ کسی مرد کا سہارا میسر نہ ہو، تب بھی اس چیز کو انتہائی معیوب سمجھتے ہیں کہ عورت مانگ تانگ کر گزارہ کرے۔

اس کی دو بیٹیاں لاہور کی ایک مہنگی نجی جامعہ میں زیر تعلیم تھیں۔ ایک پائیلٹ بن رہی تھی اور دوسری بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ بہر حال سکردو کے بارے میں جان کر خوشی ہوئی۔ وگرنہ ہم نے تو سکردو کو بس سیر و سیاحت کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے۔ لیڈز یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد سرویا صاحب سے بھی گفتگو رہی۔ ڈاکٹر صاحب پنجاب ایچ ای سی میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ مختلف تعلیمی معاملات پر انہوں نے مجھے اچھی رہنمائی فراہم کی۔

طے یہ ہوا کہ کسی دن ایک نشست رکھی جائے تاکہ ان تمام معاملات پر تفصیلی بات ہو۔ نہایت اچھے الفاظ میں ڈاکٹر نظام الدین صاحب کا ذکر ہوا اور ہمارے استاد مرحوم ڈاکٹر مغیث صاحب کا بھی۔ شام ڈھلے یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ سچ یہ ہے کہ مجھ طالب علم کے لئے شعبہ تعلیم سے وابستہ ان شخصیات کو سننا میرے سیکھنے کے عمل (learning process) کا حصہ تھا۔ میرے نزدیک ایسی محفلوں کی اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ ہر ایک بغیر کسی خوف کے کھل کر بات کرتا ہے۔ اکثر ہم وہ باتیں بھی کہہ سن لیتے ہیں جو عام طور پر میڈیا پر لکھ بول نہیں سکتے۔ اس عمدہ محفل کے انعقاد پر غزالی اور اس کی ٹیم کا شکریہ۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments