غریبوں کی خواہشات اور مشکلات



پاکستان کی آبادی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں غربت کی شرح خوفناک حد تک تیزی سے بڑھ رہی ہے پلاننگ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 7 کروڑ 77 لاکھ افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ پنجاب میں غربت کی شرح 4.31 فیصد سندھ میں 43 خیبرپختونخوا 49 اور بلوچستان میں سب سے زیادہ 71 فیصد ہے پاکستان میں تین طبقات آباد ہیں ان میں امیر درمیانہ اور غریب طبقہ شامل ہے گزشتہ چند برسوں سے وطن عزیز کے معاشی حالات مزید خراب ہوئے ہیں جس کے باعث بے روزگاری تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ عصر حاضر میں کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لاک ڈاؤن تجارت میں خسارہ یہ ہی وہ محرکات ہیں جس کے باعث بڑی بڑی کاروباری کمپنیاں اپنے ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کر رہی ہیں۔

آج حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان میں 60 لاکھ سے زائد بے روزگار افراد موجود ہیں ان میں تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈر اور ان پڑھ دونوں شامل ہیں پاکستان کا شمار دنیا کی چھٹی بڑی افرادی قوت رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ وطن عزیز کا 63 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے تحریک انصاف کی حکومت کو اڑھائی برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے تاہم حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ آئے دن پیٹرولیم مصنوعات بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے بجلی اس قدر مہنگی ہو چکی ہے کہ ہماری صنعتیں و کارخانے عالمی منڈی میں اپنی مصنوعات فروخت کرنے سے قاصر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اشیاء خورد و نوش دالیں چاول آٹا گھی تیل اب غریب کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے آٹے کا دس کلو کا تھیلا اب 550 روپے میں فروخت ہو رہا ہے چکن برائلر گوشت جو کبھی 200 روپے فی کلو میں عام دستیاب ہوتا تھا گزشتہ دنوں 450 روپے فی کلو تک پہنچ گیا تھا۔ آج کل برائلر گوشت میں رانی کھیت اور انفلوئنزا وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہونے کے سبب چکن کی کھپت میں واضح کمی رونما ہوئی ہے جس کے باعث اب برائلر گوشت کی قیمت 320 روپے پر آ چکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ غریب لوگ کیسے اس ناقابل برداشت مہنگائی کے عالم میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ اس مہنگائی کے ہی منفی اثرات ہیں کہ متوسط طبقہ غریب طبقے میں تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے یہ ہی وجوہات ہیں کہ عام آدمی کی قوت خرید تیزی کے ساتھ ختم ہوتی چلی جا رہی ہے جس کے باعث لوگوں کے کاروبار نہیں چل رہے۔ ان سفید پوش افراد کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی جو ہفتہ میں پانچ دن اس عزم کے ساتھ دکان کھولتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان کے تمام خسارے نفع میں تبدیل ہوجائیں گئے لیکن افسوس ان کی یہ امید ہر روز ٹوٹ جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں سڑک پر ایک محنت کش کی فیملی کو میں نے دیکھا مذکورہ شخص سائیکل چلا رہا تھا اس کی بیٹی ہینڈل کے پیچھے راڈ پر بیٹھی تھی اس کی بیوی کیریر پر ایک چھوٹے بچے کو لیے سوار تھی اور اس کا بڑا بیٹا جو کہ 4 سال کا ہوگا کیریر پر کھڑا اپنے باپ کے کندھوں کو پیچھے سے مضبوطی سے پکڑے بڑے اطمینان کے ساتھ اس سفر سے محظوظ ہو رہا تھا۔ اس بچے کا باپ اس کا آئیڈیل ہے اس محنت کش کے بچے جو بھی فرمائش کرتے ہیں یہ بات اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ مذکورہ شخص ان کی خواہشات و ضروریات اس مہنگائی کے دور میں کیسے پوری کرتا ہوگا غریب کی فقط ایک ہی خواہش ہے کہ اسے دو وقت کی روٹی اور ذریعہ معاش کا سلسلہ میسر رہے۔

غربت کے ہی اثرات ہیں کہ چائلڈ لیبر ہمیں ورکر شاپوں دکانوں مارکیٹوں میں کم اجرت پر کام کرتی عام دکھائی دیتی ہے ورنہ کس کا دل کرتا ہے کہ اپنے لخت جگروں کو کھیلنے تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں مشقت والے کاموں پر ڈالے۔ ہم آئے دن اخبارات میں دلخراش خبریں پڑھتے ہیں کہ غربت سے تنگ آ کر فلاں شخص نے خودکشی کرلی فلاں عورت نے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا وغیرہ وغیرہ۔ ایک وہ بھی وقت تھا جب سلطنت کا بادشاہ رات کی تاریخی میں اپنی رعایا کی تکالیف و مسائل جاننے کی کوشش میں پیدل سفر کیا کرتا تھا اور دن کی روشنی میں ان کے تمام مسائل حل کروا دیا کرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments