کیا تصوف ایک ذہنی عیاشی ہے؟


فرسٹ لیڈی بشریٰ عمران صاحبہ نے صوفی یونیورسٹی کھولنے کی داغ بیل ڈالی ہے اور اب ڈاکٹرز، انجنیئرز، آئی ٹی سپیشلسٹ کی طرح صوفی بھی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوں گے۔ ہمارے ہاں جب عقلی دلائل ختم ہو جاتے ہیں تو پیچیدہ نفسیاتی الجھنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرار ڈھونڈا جاتا ہے اور عموماً کسی ننگ دھڑنگ، تہی مایہ، رال ٹپکاتے بھک منگے کو بھی ہم مجذوب کہہ دیتے ہیں۔ صوفی بنیادی طور پر تمام فکری الجھنوں سے آپ کی جان چھڑوا دیتا ہے اس لئے جلد مقبول بھی ہوتا ہے مثلاً یہ سوال کہ آ خر انسان کا نصب العین کیا ہے؟

کیا وہ فطرت کا ایک ایجنٹ ہے؟ کیا فرد مرتا ہے انسان رہتا ہے؟ اگر کوئی غیر مرئی طاقت ہے تو کیونکر ہے؟ کیا انسان اپنے اصل کی طرف لوٹے گا تو وہ اصل کوئی وجود ہے یا خیال؟ کیا وجود خیال ہی کا پر تو ہے؟ کیا اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہی ہے اور اگر ایک ہی ہے تو پھر مشاہدہ کس حساب میں ہے؟ کیا ہستی ایک فریب ہے؟ کیا نیستی ابدی ہے؟ ایسے بہت سے سوال ہمیشہ سے انسان کو پریشان کرتے رہے ہیں اور ان کے جواب پانے کے لئے سائنس اور فلسفہ بہت تگ و دو کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں محنت اور دماغی صلاحیتیں، ”کی فیدا“ کہہ کر یا ایک ادائے بے نیازی سے، ”کہ سائنس بھی کبھی نہیں جان سکتی کہ جان کتھوں پیندی اے، کتھے جاندی اے“ بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور، ”علموں بس کریں او یار“ کی بھٹکا دینے والی تشریح ہیش کر کے علم سے راہ فرار ڈھونڈتے لوگوں کی جذباتی تشفی کرتے ہیں جو پاکستانی برانڈ کا تصوف اپنا لیتے ہے یعنی علم و آ گہی کی جستجو چھوڑ کر، سائنس، فلسفہ اور ادب چھوڑ کر تارک الدنیا ہو جانے کو تصوف گردانتے ہیں یا زندگی کی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر کے درباروں پر منتیں مانتے، چڑھاوے چڑھاتے تصوف کا نشہ پورا کر لیتے ہیں۔

ایک اور طبقہ پڑھے لکھے لوگوں کا ہے جو دوسروں میں متصوفانہ خوبیاں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اور ہر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے شخص سے تصوف کی لو لگا بیٹھتے ہیں مثلاً آپ نے دیکھا ہو گا اگر ایک ان پڑھ لیکن تیز طرار شخص آ بادی میں رہتے ہوئے آ بادی سے ذرا دور اللہ کی جوت جگا کر بیٹھ جائے تو آہستہ آہستہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے جب تک کہ وہ کسی کی بیوی کو حاملہ نہ کر دے یا کسی کی بیٹی کا ہیجان ”ٹھیک نہ کر دے“ ۔

بعض اوقات مجذوب بے چارہ زندگی کے دن پورے کر رہا ہوتا ہے اور یہاں بینکوں کے قرضوں میں جکڑے، بچوں کی تعلیم اور نوکریوں کی فکر میں غلطاں، بزنس میں نقصان برداشت کرتے لوگ اس بابے کی خرافات کو بھی تصوف سمجھتے ہیں اور دعائیں کراتے رہتے ہیں۔ وہ بھی اتنا سیانا ہوتا ہے کہ کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اسی درد کی دعا کرتا ہے جو لاحق ہو اور تین چار بار غلط دعائیں دے کر اس بات کا ادراک ہو ہی جاتا ہے کہ تکلیف دراصل کہاں ہے۔

اب آ جائیے تصوف کے عملی اظہار کی طرف جہاں لوگ باقاعدہ مرشد پکڑ لیتے ہیں جیسا کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھی مرشد پکڑا ہوا ہے۔ مرشد حکمران اور عوام دونوں میں یکساں مقبول ایک ایسا روحانی پیشوا ہوتا ہے جس کے ”روحانی علم“ کی روشنی میں جوتا پہننے سے لے کر خلائی جہاز اڑانے تک ہر کام کیا جاتا ہے۔ یہ مرشد عجیب و غریب حرکتیں بھی کرتے ہیں مثلاً ننگے پاؤں درباروں تک جانا، حکمرانوں کو دالیں مل کر لٹانا، ان کی گاڑی کے ٹائروں پر پھونکیں مارنا، سریاں پھینکنا وغیرہ۔

تصوف کی یہ جہت بہت اہم ہے کیونکہ اس میں فوری نتائج دینا ضروری ہوتا ہے۔ ادھر خان صاحب نے پاکپتن میں بابا فرید شکر گنج کے دربار پر پھول چڑھائے ادھر وزیر اعظم بن گئے۔ بعد میں عقیدت سے مغلوب خان صاحب سیڑھیوں پر سجدے کرتے بھی پائے گئے۔ ولیم جیمز کے خیال میں یہ ہے تصوف اور مذہب کی کیش ویلیو جو اس پر ایمان تازہ رکھتی ہے۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف میں باقاعدہ درجات اور حفظ مراتب ہوتے ہیں اور یہ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں جو قدرتی آفات سے لوگوں کو بچا رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ انہیں ذمہ داریاں تفویض ہوتی ہیں اور انہیں سخت آزمائش سے گزار کر یہ منزل ملتی ہے۔ دنیا کی رغبت حتیٰ کہ اولاد کی محبت بھی ان کی راہ کھوٹی کر سکتی ہے۔ ایسے تصوف کو ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا انسان کے لئے بنی ہے اور اس کی خدمت پر مامور ہے جب کہ چند لوگ اس نظام ہستی کو اللہ تعالی کے حکم سے چلا رہے ہیں۔ تصوف کے اس رومانوی تصور میں کشش بہت ہے لیکن ظاہر ہے یہ لوگوں کو قناعت پسندی اور ظلم و زیادتی برداشت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

تیاگنے اور فراریت کے علاوہ تصوف کی ایک صورت ڈٹ جانے اور باغیانہ راہ عمل اپنانے کی بھی ہے جیسے خوشحال خان خٹک کی جد و جہد، مولانا عبید اللہ سندھی کی جد و جہد۔ تصوف کی یہ صورت پنجاب میں غیر مقبول ہے کیونکہ یہاں طاقتور کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی روایت عام ہے اور خاص طور پر یہاں تصوف کے والی وارث اشرافیہ سے ہیں اس لئے یہاں کا تصوف ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا ہے۔

ابو الحسن شازلی یونیورسٹی بنائیں اور تصوف کی تعلیم دیں کیونکہ ایک طرف ریاست طالبان اور شدت پسندوں سے چشم پوشی کرتی ہے اور فرقہ واریت سے اغماض برتتی ہے تو ایسی یونیورسٹی ایک متبادل بیانیہ تیار کر سکتی ہے جیسا کہ ساری دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کے نام پر اتنا ہی پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے جتنا کہ مختلف مذہبی عقائد کو لڑانے پر۔ یہاں تک تو یہ درست ہے کہ لیکن سوال یہ ہے کہ علمی سطح پر یہ کام مسلم اور مغربی فلسفہ اور تقابلی مذاہب پڑھا کر کیا جا سکتا تھا لیکن یونیورسٹیوں میں فلسفہ تو مفقود ہے۔

دوسری بات یہ کہ تصوف اب تک فرد کا معاملہ رہا ہے کیونکہ روح لطیف کا تجربہ کرنے والے ( اگر یہ ان کی کوئی خاص ذہنی حالت نہیں تھی یا کوئی نفسیاتی پیچیدگی نہیں تھی)، ولی اولیاء سے ہم کلام ہونے والے، مابعد الطبیعیاتی دنیا کا تجربہ کر لینے والے، مستقبل کی آ ہٹ وجدان سے سمجھنے والے، ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر موجود ہونے والے، علامتوں میں کسی غیر مرئی طاقت کے پیغام وصول کرنے والے، مراقبے میں انسانی حیثیت سے بلند ہو جانے والے لوگوں کے تجربات انفرادی ہوتے ہیں اور جس علم کو اجتماعی تجربہ کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا وہ ظاہر ہے علم کا ڈسپلن نہیں بن سکتا۔ ایمان بن سکتا ہے اور ایمان والے تو یہاں بہت ہیں۔

اگر یونیورسٹی کا مقصد رومانویت پر استوار تصوف پڑھانا ہے تو اشرافیہ سے ایسے مرد و خواتین مل جائیں گے جنہیں تصوف کا چسکا ہوتا ہے اور وہ روپیہ پیسہ بھی خرچ کر سکتے ہیں۔ فنڈنگ وغیرہ بھی بہت آ سکتی ہے کیونکہ آج کل مولانا روم کو پڑھنا یورپ میں ایک ذہنی عیاشی ہے۔ بہرحال یونیورسٹی میں اگر انسان کے ابدی سوالوں کو قبول کرنے پر توجہ دی جائے تو بہتر ہے ورنہ عمر بھر کا یہ سفر رائیگاں تو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments