انصاف دہلیز پر


کہتے ہیں نا انصافی کی بدترین شکل انصاف فراہم کرنے کا دکھاوا کرنا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال ہمارے ملک پاکستان میں بھی نظر آتی ہے جہاں بانی پاکستان نے قیام سے قبل عوام کو خواب دکھایا کہ ان کے لئے ایسا ملک ہو گا جس میں جس میں انہیں برابری کی بنیاد پر حقوق اور انصاف میسر ہو گا لیکن وقت نے انہیں مہلت نہیں دی اور اس کے بعد ملک کے حالات ایسے ہوئے کہ شعبہ قانون و انصاف پر توجہ ہی نہیں دی جا سکی جبکہ یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ کسی ملک کی مضبوط بنیاد، ترقی اور استحکام صرف قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی میں ہی مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے وطن میں یہ بالادستی قائم نہیں ہونے سے عام آدمی آج بھی انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہوا نظر آتا ہے۔

ملک میں مختلف حکومتوں کی جانب سے عوام کو فوری انصاف فراہم کرنے اور ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کے بیانات دینے کے باوجود جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں کئی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں ایک مرد کو صرف ایف آئی آر درج کرانے کے لئے 15 سے 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں شہریوں بالخصوص خواتین کو انصاف کے حصول کے لئے نہ جانے کیسی کیسی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں جن کا کسی حکمران کو احساس ہی نہیں ہے۔

قیام پاکستان کو 23 سال گزرنے کے بعد کسی سول یا مارشل لاء حکمران کی جانب سے ملک میں انصاف فراہمی کے لئے کوئی قابل قدر کام نہیں کیا گیا کیا اور سال 1983 ء میں سابق صدر ضیاء الحق نے ”انصاف دہلیز پر“ کا نعرہ لگاتے ہوئے ملک میں صوبائی سطح پر ہائی کورٹس کے نئے بینچز قائم کرنے کا حکم جاری کیا اور سال 2007 ء میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے فنانس بل کے تحت ہائی کورٹس میں ججز کی تعداد میں معمولی اضافہ کیا گیا اور اسی وجہ سے اب تک فراہمی انصاف کی صورتحال یہ ہے کہ کئی پسماندہ اور دوردراز علاقوں کے عوام کو اپنے مقدمات کی سماعت کے لئے ایک رات قبل سفر کر کے آنا پڑتا ہے اور کسی بھی وجہ سے مقدمہ کی سماعت ملتوی ہونے سے ان کی امیدوں پر ایسی اوس پڑتی ہے کہ قانون کی بالادستی کا یقین ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگتا ہے۔

سال 2007 ء میں ایک نئی صبح طلوع ہوئی اور وکلاء نے عدلیہ کی آزادی، غیر جانبداری اور فوری و سستے انصاف کی فراہمی کے لئے ایک ایسی بے مثال تحریک شروع کی کہ جس کے اثرات نے پوری دنیا کو ہی چونکا دیا اور مہذب دنیا کے دانشوروں نے اس تحریک کو ”کالے کوٹ کے انقلاب“ کا نام دیا اس تحریک کی کامیابی کے بعد عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کے سفر پر گامزن ہوئی اور غریب عوام تو ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی انصاف لینے کے لیے بطور سائل اپنی ہی عدالتوں میں کھڑے نظر آئے لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم رہا کہ ملک کے پسماندہ ترین علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہری کو دہلیز پر انصاف کس طرح میسر ہو گا۔

اس امر کے لئے سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے یکم جون 2009 ء سے ملک میں جوڈیشل پالیسی کے نفاذ کا اعلان کیا جس کے تحت پرانے مقدمات کو جلد سے جلد نمٹانے کے لیے اقدامات کیے گئے اور پالیسی میں وکلاء کے مطالبات پر کئی مرتبہ تبدیلیاں بھی کی گئیں لیکن فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کی صورتحال آج بھی دگرگوں نظر آتی ہے کہ اس پالیسی کو 12 برس مکمل ہونے کے بعد ملک بھر میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد 21 لاکھ 61 ہزار 946 ہو چکی ہے جبکہ پالیسی کے نفاذ کے وقت یہ تعداد 15 لاکھ 65 ہزار 926 تھی نیز کرونا وبا کے دوران اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ملک بھر کی عدالتوں کی جانب سے 31 دسمبر 2020 ء تک بھجوائے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2009 ء کے مقابلے میں سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 19055 سے 46516، وفاقی شرعی عدالت کے زیر التواء مقدمات 2092 سے کم ہو کر 178، لاہور ہائیکورٹ کے 84704 زیر التواء مقدمات 188176، سندھ ہائیکورٹ کے 18571 زیر التواء مقدمات 81684، پشاور ہائیکورٹ کے 10363 زیر التواء مقدمات 41042، بلوچستان ہائیکورٹ کے زیر التواء 4161 مقدمات 4194 ہو چکے ہیں۔

اس طرح سال 2009 ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا جس میں اب زیر التواء مقدمات کی تعداد 16288 ہے۔ اسی طرح کی صورتحال ملک بھر کی ضلعی عدلیہ میں بھی ہے کہ صوبہ پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں 1372908، سندھ میں 115815، کے پی کے میں 230869، بلوچستان میں 16034 اور اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں 48242 مقدمات زیر التواء ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کے انصاف سے ختم ہوتے یقین کو بحال کرنے اور مایوسی کو ختم کرنے کے لئے عدلیہ کو آزاد اور غیر جانبدار بنانے کے عملی اقدامات کرنے کے ساتھ ججز کی تعداد میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کرنے اور عدالتوں میں بہترین ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments