ادھر ادھر سے



پاکستان کے ممتاز صحافی اور مصنف سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے حالیہ کالم میں عمران قادری دھرنوں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اور ان سے جڑے افسوس ناک واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ لندن میں پلان شدہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے 2014 کے دھرنوں کو ملک کی سیاسی تاریخ کے سیاہ ترین ایونٹس کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ 126 دن تک جاری رہنے والے ان دھرنوں کی وجہ سے پاکستان کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بڑی مشکلات پیش آتی رہیں۔

ڈی چوک اسلام آباد کے سٹیج سے قائدین اپنے مٹھی بھر کارکنوں کو پارلیمنٹ کی عمارت اور وزیراعظم ہاؤس کی طرف پیش قدمی کے احکامات جاری کرتے۔ اور ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ جمہوریت کی اس سے بڑی تذلیل اور کیا ہو سکتی ہے۔ کہ عمران خان اور شیخ رشید پارلیمنٹ پر مسلسل لعنت بھیجنے میں مصروف تھے۔ ان دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ التوا کا شکار ہوا۔ جس کی وجہ سے ریاست بدنام ہوئی۔ جناب عرفان صدیقی اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔

پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے جتھے وزیراعظم ہاؤس کے مین گیٹ پر قابض ہوچکے تھے۔ جس کی وجہ سے میاں نواز شریف وزیراعظم ہاؤس میں محصور ہوچکے تھے۔ وہ صرف ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی باہر نکل سکتے تھے۔ مگر وہ بڑے پرسکون رہے اور اپنے ملٹری سیکرٹری کے ہیلی کے ذریعے باہر جانے کے مشورے کو مسکرا کر ٹال دیا۔ درحقیقت عمران خان اور ان کے سیاسی کزن علامہ قادری نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا۔ اور عوام کو سول نافرمانی پر اکسانے کی کوشش کی تھی۔

دونوں لیڈر بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تھے۔ مگر ”بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے“ کے مصداق انہیں منہ چھپا کر اسلام آباد چھوڑنا پڑا۔ عمران خان آج بڑے فخر کے ساتھ اپنی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں انہوں نے اپنے دھرنے کی وجہ سے جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا ہے۔ اس نے ان کی طویل جدوجہد کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ عمران خان کو اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ جب وہ ورلڈ کپ جیت کر لائے تھے تو پوری قوم نے ان کو سر پر بٹھایا تھا۔ مگر اب عوام کی اکثریت ان سے کیوں نفرت کرتی ہے۔

ارباب اختیار اگر ملک کو آگے لے کر چلنے میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے ان دھرنوں کے ذمے داران کو بے نقاب بھی کرنا ہوگا۔ اور اس طرح کے ایونٹس کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے۔ سیاست کے بجائے ریاست بچاؤ کا نعرہ بلند کرنے والوں سے بازپرس کرنا ہوگی۔ کہ ایک مضبوط جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کے پیچھے ان کے کیا مقاصد تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چشم پوشی پر بھی سوالات بنتے ہیں۔ ان بدنام زمانہ دھرنوں کی وجہ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

بعض خواتین نے جذبات میں آ کر اپنی جمع پونجی اور سونے کے زیورات علامہ طاہر القادری کو عطیہ کر دیے تھے۔ وہ بھولی بھالی خواتین اس زعم میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ کہ شاید علامہ صاحب انقلاب کے ذریعے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور موصوف اپنی دکان بڑھا کر بیرون ملک جا بسے۔ اور ان کی رسید بھی نہیں ملی۔

اس وقت جو دوسرے موضوع زیر بحث ہیں۔ ان میں دوران پرواز ایک مسافر جوڑے کی غیر اخلاقی حرکتیں، اقلیم اختر عرف جنرل رانی کا ذکر اور وزیراعظم کا فون کے ذریعے عوام سے رابطہ جیسے معاملات شامل ہیں۔

جہاں تک پرواز کے دوران پیش آنے والے واقعے کا تعلق ہے۔ اس پر دو تین کالم لکھے جا چکے ہیں۔ ایک صاحب نے اسے فحاشی سے تعبیر کرتے ہوئے دونوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا ہے۔ مگر کسی جانب سے اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ دونوں کا آپس میں رشتہ کیا تھا۔ میاں بیوی ہونے کی صورت میں وہ سرعام اس طرح کی حرکت کرنے سے شاید اجتناب کرتے۔ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناتے متعلقہ اداروں کو ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔

تاکہ اوروں کو سبق حاصل ہو۔ ہمارا ملک کوئی مادر پدر آزاد معاشرہ نہیں ہے۔ کہ جس کا جو جی چاہے وہی کرتا پھرے۔ اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ چائے کوئی جوان جوڑا سربازار آپس میں لپٹ جائے۔ اور اردگرد کھڑے لوگ واہ واہ کرنے لگ جائیں۔ جہاز میں دوران سفر بے ہودگی پھیلانے والے جوڑے سے ایک سوال کیا جا سکتا ہے۔ کہ کیا وہ اپنی بہنوں اور والدین کی موجودگی میں اس طرح کی گندی حرکت کر سکتے ہیں۔ اگر ان کا جواب ناں میں ہوا۔ تو پھر انہیں جہاز میں سوار دوسرے شریف مسافروں کی عزت نفس مجروح کرنے کی جرآت کیسے ہوئی۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد اسلامی اور مشرقی اقدار کی پاسداری کرانا وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ ورنہ حالات خرابی کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ اور اس طرح کے بیہودہ واقعات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ حکومت کو مختلف ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے چند مارننگ شوز جس میں فحاشی پھیلائی جا رہی ہے۔ کو بھی روکنا ہوگا۔

جہاں تک وزیراعظم کی طرف سے عوام کے ساتھ بذریعہ فون رابطے کا تعلق ہے۔ جب کوئی کالر عوام کو ریلیف دینے یا کسی اور مسئلے پر بات کرتا ہے۔ اس کا پراپر جواب دینے کے بجائے خان صاحب ایک لمبا چوڑا لیکچر جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے وہ ہیر رانجھا کی داستان سنا رہے ہوں۔ آخر میں ان کی تان اس بات پر ٹوٹتی تھی۔ کہ نون لیگ کی حکومت نے جاتے ہوئے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ اور انہیں تباہ حال ملک ورثے میں ملا۔ جس کی وجہ سے ملک ابھی تک ٹیک آف نہیں کر سکا۔

وزیراعظم صاحب اگر سنجیدگی سے سوچیں تو ان کے دھرنے اور مسلسل محاذ آرائی نون لیگ کی حکومت کی پرفارمنس پر اثرانداز ہوئے تھے۔ خان صاحب کا مزید فرمانا تھا کہ ان کی معاشی ٹیم کی محنت کی وجہ سے آج جی ڈی پی صفر سے 4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مگر یہ بات باعث حیرت ہے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور معاشی اعشاریے بلندی پر پہنچ گئے۔ اپوزیشن بھی وزیر اعظم کے اس دعوے پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ستم ظریفی کی بات مگر یہ ہے کہ خان صاحب کے چوتھے وزیر خزانہ شوکت ترین معیشت کو 2018 کی سطح تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ نون لیگ کے دور میں معیشت بڑی مستحکم تھی۔ جو تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے دھڑام سے نیچے آ گری ہے۔

اقلیم اختر جیسے کرداروں نے ماضی میں پاکستانی قیادت کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ جس کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوا۔ اور بھارت سے شکست کی خفت اٹھانا پڑھی۔ اب بھی ایسے کردار ایوان اقتدار کی راہداریوں میں مٹر گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پروردگار پاکستان کو اور قیادت کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments