طاہر اشرفی صاحب کا فتویٰ اور کافروں کی نئی فہرست


پاکستان کے سیاسی منظر پر بوریت نام کی چیز کا وجود ممکن نہیں۔ اس کی سکرین پر ہر وقت کوئی نہ کوئی تماشہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر اس کا اہتمام اپوزیشن کی طرف سے نہ کیا جائے تو حکومتی اراکین باہمی تعاون سے کسی نہ کسی ڈرامے کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ چند روز قبل ایک ایسا ہی اہتمام کیا گیا۔

اس کی تفصیلات یہ ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے رکن نذیر چوہان صاحب کو بصیغہ راز یہ خطرناک خبر ملی کہ انہی کی پارٹی تحریک انصاف کے شہزاد اکبر صاحب عقیدہ کے اعتبار سے احمدی ہیں۔ پڑھنے والے یہ تو جانتے ہیں کہ شہزاد اکبر صاحب کا نام نامی اور احتساب ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خوفناک خبر سن کر نذیر چوہان صاحب کے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ کئی روز تک وہ صدمے کی وجہ سے اس بارے میں کوئی بیان بھی نہیں دے سکے۔

ان کے ہوش میں آنے کی وجہ یہ بنی کہ ان کے خلاف مقدمات قائم ہونے شروع ہو گئے۔ جب یہ مقدمات بننے شروع ہوئے تو نذیر چوہان صاحب نے اس راز سے پردہ اُٹھانا مناسب خیال فرمایا۔ اور ایک مرحلہ پر اپنے مداحوں کے ایک مختصر ہجوم میں کھڑے ہو کر شہزاد اکبر صاحب کے بارے میں یہ بیان دیا کہ

” میرا پوائنٹ آف ویو یہ تھا کہ چونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اور ہم نے پاکستان تحریک انصاف کے جو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگ ہیں ان کو واچ رکھنا ہے اور ہمیں دیکھنا ہے ان لوگوں کا مسلک کیا ہے اور یہ لوگ کس طرح سے کام کر رہے ہیں۔ مجھے بارہا دفعہ ثبوتوں کے ساتھ پتا چلا اور میں اس کو دباتا رہا اور آخر میں نے ایک دن آکر ٹی وی پر یہ بات کہی کہ مجھے پتہ چلا کہ آپ کا کسی قادیانی گروپ کے ساتھ تعلق ہے تو براہ مہربانی آپ وزیر اعظم صاحب کے معاون خصوصی ہیں اور پنجاب کا ایم پی اے ہوں، میرا حق بنتا ہے کہ یہ سوال اُٹھائوں۔۔۔ میں نے ان کو ٹائم دیا کہ براہ مہربانی آپ وضاحت دیں اپنی کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہوں اور میں اس عہدے پر کام کر رہا ہوں۔”

اس کے بعد نذیر چوہان صاحب نے ایک خاص جلالی انداز میں فرمایا کہ اگر شہزاد اکبر صاحب اس عہدے پر بیٹھ کر کسی خاص مسلک سے وابستہ ہیں تو میں فوری طور پر ان کے استعفے کا مطالبہ کرتا ہوں۔

یہ اعلان ہونے کی دیر تھی کہ شہزاد اکبر صاحب نے لاہور کے ایک تھانے میں مقدمہ درج کرایا۔ اور اپنی درخواست میں یہ لکھنے کے بعد کہ یہ الزام بالکل غلط ہے یہ بھی لکھا کہ اس غلط الزام سے میری زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اس صورت حال میں بعض سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیا یہ نذیر چوہان صاحب کی سرکاری طور پر ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ وہ ہر عہدیدار کے مسلک اور عقائد پر نظر رکھیں۔ یا انہوں نے از خود یہ نیک کام کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ اور یہ وضاحت انہوں نے نہیں کی کہ انہیں دوسروں کے عقائد کو پرکھنے کا آئینی حق دستور کی کس شق یا کس قانون کے تحت حاصل ہے۔ نیز یہ کہ انہوں نے اس کے لئے کیا سائنسی طریقہ استعمال کیا تھا۔ اور اتنی گہری نظر رکھنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

نذیر چوہان صاحب نے یہ نتیجہ کس طرح نکالا کہ وزیر اعظم کے مشیر کے لئے کسی خاص مسلک، عقیدے یا مذہب سے منسلک ہونا ضروری ہے؟ میری گذارش ہے کہ وہ آئین کا مطالعہ فرمائیں۔ وزیر اعظم کا مشیر ہونے کے لئے مسلک اور عقیدہ کی کوئی شرط نہیں۔ پھر کس بنا پر نذیر چوہان صاحب ایک فرضی الزام لگا کر شہزاد اکبر صاحب کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

جہاں تک شہزاد اکبر صاحب تو ہم ان سے لاکھ اختلاف رکھیں لیکن یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ ان کا مذہب وہی ہے جو وہ کہتے ہیں کہ یہ میرا مذہب ہے۔ بلکہ نذیر چوہان صاحب یا کسی اور ممبر اسمبلی کا یہ حق نہیں کہ وہ ان سے یہ سوال بھی کرے کہ آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ خاص طور پر جب انہوں نے خود کہا ہے کہ وہ احمدی نہیں ہیں تو کسی اور کا حق نہیں کہ ان سے کسی قسم کی وضاحت طلب کرے۔ ہر شخص کا مذہب اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن خاکسار شہزاد اکبر صاحب سے ایک سوال کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے کہا ہے کہ اس الزام کی وجہ سے میری زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ کیوں؟ اگر آپ کو غلط طور پر احمدی کہا جائے تو آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے آپ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کی زندگی کو خطرہ ہے اور وہ مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں ورنہ نذیر چوہان صاحب کے بیان سے آپ کی زندگی خطرے میں کیوں پڑ گئی ہے؟ دوسری طرف آپ کی حکومت بار بار یہ بیان جاری کرتی رہی ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

اس صورت حال پر وزیر اعظم کے ایک مشیر طاہر اشرفی صاحب کا بیان بہت دلچسپ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی مسلمان کو قادیانی قرار دے دے تو وہ شخص خود کافر ہو جاتا ہے۔ جب یہ بیان پڑھ کر ہم نے پاکستان کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالی تو ایک لمبی فہرست ہمیں طاہر اشرفی صاحب کے اس فتوے کی زد میں آتی ہوئی نظر آئی۔ صرف چند مثالیں پیش ہیں۔

مثال کے طور پر جب 1953 میں احمدیوں کے خلاف تحریک چل رہی تھی، اس تحریک کے قائد عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے ایک جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ مجھَ تو لگتا ہے کہ خواجہ ناظم الدین [اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان] قادیانی ہو گئے ہیں بلکہ کچھ خصوصی حلقوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کے بچوں کے رشتہ بھی قادیانیوں میں ہو گئے ہیں۔ اس طرح 1953 میں یہ تحریک چلانے والے طاہر اشرفی صاحب کے فتویٰ کفر کی زد میں آئیں گے۔

اسی طرح صدر ایوب اور جنرل پرویز مشرف صاحب پر بھی یہ الزام لگایا گیا کہ وہ احمدی ہیں۔ اور تو اور جنرل ضیاء الحق صاحب پر بھی یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ احمدی ہیں۔ حالانکہ انہوں نے امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ کیا تھا [روزنامہ اسلام 3 دسمبر 2016]۔ ظاہر ہے ان تینوں حضرات میں سے کوئی بھی احمدی نہیں تھا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان پر یہ الزام لگانے والے علماء طاہر اشرفی صاحب کے فتویٰ کفر کی زد میں آ سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب پر بھی یہی الزام تھا کہ وہ احمدیوں کی مدد سے اقتدار میں آئے ہیں۔ 1970 کے انتخابات کے بعد ہفت روزہ چٹان نے اپنے سرورق پر بھٹو صاحب کی دو پروں کے ساتھ ایک تصویر شائع کی تھی۔ ایک پر پہ سوشلزم اور دوسرے پر قادیانیت لکھا ہوا تھا۔

اور تو اور نشان حیدر حاصل کرنے والے بھی اس عمل سے محفوظ نہیں رہے۔ عزیز بھٹی شہید کے متعلق بھی یہ افواہ اڑانے کی کوشش کی گئی کہ ان کا خاندان چھپا ہوا احمدی ہے۔ [پاکستان مصنفہ میجر امیر افضل خان ص118]۔ افواج پاکستان کے موجودہ سربراہ جنرل قمر باجوہ کو بحیثیث سربراہ فوج توسیع کے وقت پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دی گئی تھی کہ جنرل قمر باجوہ صاحب احمدی ہیں۔ حالانکہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔

کشمیر کے شیخ عبد اللہ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ میر واعظ اور ان کے حامی انہیں احمدی قرار دیتے رہے۔ [آتش چنار ص180]

اسی طرح فلاحی کام کرنے والوں کو بھی احمدی قرار دے کر گردن زدنی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ فیصل ایدھی بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے خطبے میں کبھی عبد الستار ایدھی کو قادیانی قرار دیا گیا اور کبھی آغا خانی بنایا گیا۔ [بی بی سی اردو 11 جولائی 2016]

ان چند مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان میں یہ عام رواج ہے کہ اگر بغیر دلیل کے کسی کی مخالفت کرنی ہو تو اس کے لئے مجرب نسخہ یہ ہے اس کے عقائد کے متعلق افواہیں اڑانی شروع کردو۔ اسے احمدی قرار دے کر اس کے خلاف نفرت انگیزی شروع کردو۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں اس مجرب نسخے کو کئی دہائیوں سے آزمایا گیا ہے اور ہر مرتبہ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے گئے ہیں۔ اور بد قسمتی سے یہ سلسلہ ان تک جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments