ریاست آزاد میڈیا سے تقویت حاصل کرے


وہ پچھلے زمانے تو اب خواب و خیال ہوئے جب قدآور قومی اور صحافتی شخصیتیں اور اخبارات و جرائد کے تجربے کار ایڈیٹر اپنے حکمرانوں کو بے خطر غلطیوں پر ٹوکتے بھی تھے اور ملکی حالات میں بہتری کے کارآمد مشورے بھی دیتے تھے۔ روزنامہ زمیندار، نوائے وقت، جنگ، احسان، ڈان اور آزاد نے شمال مغربی اور شمال مشرقی ہندوستان کے مسلمانوں میں مسلم قومیت کا جذبہ ابھارنے کے لیے سخت جدوجہد کی تھی، مگر قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں بھی آزادی صحافت پر سخت وار ہوا۔

پنجاب میں جناب افتخار حسین ممدوٹ جو مسلم لیگ پنجاب کے صدر تھے، انہوں نے کابینہ بنائی جس میں جناب میاں ممتاز احمد دولتانہ اور سردار شوکت حیات بھی شامل ہوئے جو پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے آرزومند تھے، چنانچہ سیاسی رسہ کشی آغاز ہی میں شروع ہو گئی اور پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ نوائے وقت کے ایڈیٹر جناب حمید نظامی اس چپقلش میں افتخار ممدوٹ کے ہم نوا تھے۔ 1951 ء کے انتخابات میں دولتانہ صاحب کامیاب رہے جن کے بارے میں ’جھرلو‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی تھی۔

وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ نے نوائے وقت کی اشاعت بند کر کے آزادی صحافت پر پہلا وار کیا۔ اس کے بعد سیفٹی ایکٹ کے تحت یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ سیاست دانوں کی آپس کی سر پٹھول سے کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خاں نے اکتوبر 1958 ء میں مارشل لا نافذ کر دیا اور وہ دستوری معاہدہ تار تار کر ڈالا جو دونوں بازوؤں کے سینئر راہنماؤں نے بہت کاوش سے طے کیا تھا۔ اختلاف کی ہر آواز دبانے اور پریس کا گلا گھونٹ دینے کے لیے ایک طرف پی پی او (پریس پبلیکیشنز آرڈیننس) نافذ کیا گیا اور دوسری طرف جو اخبار و جرائد پروگریسو پیپرز کے زیراہتمام نکل رہے تھے، وہ قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ سیاست اور صحافت کا دائرہ تنگ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دسمبر 1971 ء میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا اور پاکستان کی ریاست سمٹ کے رہ گئی۔

صحافت کے ساتھ طاقت آزمائی کے نتائج مسٹر بھٹو کے حق میں بھی تباہ کن ثابت ہوئے۔ انہوں نے عوامی مقبولیت کے گھمنڈ میں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ زندگی، پنجاب پنچ، روزنامہ جسارت اور آؤٹ لک بند کیے اور ڈان کے ایڈیٹر جناب الطاف گوہر، جسارت کے ایڈیٹر جناب صلاح الدین، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، جناب مجیب الرحمٰن شامی، الطاف حسن قریشی، سجاد میر، حسین نقی، انور خلیل، مظفر قادر اور ذاکر علی گرفتار کر لیے گئے۔ ان کا پورا دورحکومت صحافیوں اور سیاست دانوں پر ظلم ڈھاتے گزرا اور اسی محاذ آرائی میں وہ اقتدار سے محروم اور غیر طبعی موت سے دوچار ہوئے۔

جنرل ضیاءالحق نے بھی اقتدار کی خاطر صحافیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھا اور اس حوالے سے انہیں تاریخ میں اچھے نام سے یاد نہیں رکھا جائے گا۔ جنرل پرویزمشرف بھی آزاد پریس سے خوش نہیں تھے۔ نہایت گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہوئے۔ ان تاریک ادوار میں بھی سرفروش صحافیوں نے مولانا حسرت موہانی کی استقامت اور جرات کی یادیں تازہ رکھیں اور پاکستان کا سر عالمی برادری کے سامنے خم نہیں ہونے دیا۔

ہمارے وزیراعظم جو میڈیا کی حمایت سے برسراقتدار آئے ہیں، وہ ان دنوں میڈیا سے بڑے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ غالباً ان کی خوفزدگی اور حواس باختگی سے پریشان ہو کر خفیہ ایجنسیوں نے اپنے طور پر ان بہادر صحافیوں کو ٹھکانے لگانے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے جو حکومت کے سکینڈل اور عوام پر ڈالے جانے والے ڈاکے بے نقاب کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ صرف اسلام آباد ہی میں تین چار عظیم المرتبت صحافیوں کے ساتھ انتہائی وحشت سے کام لیا گیا۔

جناب عرفان صدیقی، جناب ابصار عالم، جناب مطیع اللہ جان اغوا کر لیے گئے اور حال ہی میں اسد طور کے گھر داخل ہو کر چند افراد ان پر بہیمانہ تشدد کرتے رہے۔ اس ظلم و بہیمیت کے خلاف صحافیوں نے پریس کلب میں یوم احتجاج منایا جس میں نڈر اور حساس حامد میر اور جی دار محترمہ عاصمہ شیرازی نے مجرموں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر حکومت صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو وہ مجرموں کے اصل سرپرستوں کی نشان دہی کرنے پر مجبور ہوں گے۔

اس کے بعد اسد طور جو یوٹیوب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، انہوں نے اس واقعے کے حوالے سے بڑی سخت زبان استعمال کی۔ اس پر ایک ہوش مند شہری نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرایا کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ جناب حامد میر کی تقریر میں بھی بلا کی تلخی تھی۔ انہوں نے اپنا کلیجہ نکال کے رکھ دیا تھا۔ مختلف حلقوں میں شدید ردعمل کے نتیجے میں جیو ٹی وی کے منتظمین نے انہیں پیغام دیا کہ وہ پروگرام نہیں کر سکیں گے۔

میر شکیل الرحمٰن جو جنگ جیو گروپ کے مالک اور حوصلہ مند صحافی ہیں، وہ ماضی میں ہر قسم کا دباؤ برداشت کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں۔ انہیں اس جہاد میں دس ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ وہ ’جرم آگہی‘ پر دس ماہ کے قریب جیل میں بھی قید رہے ہیں۔ ہم ان کی عظمت اور استقامت کو سلام کرتے ہیں اور ان تمام صحافیوں کو اپنا قومی ہیرو مانتے ہیں جو سچائی کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں، البتہ انہیں زبان کے بارے میں احتیاط سے کام لینا ہو گا۔

جنرل ایوب خاں کے پی پی او سے بھی کہیں زیادہ کڑا شکنجہ عمران خاں کی حکومت پی ایم ڈی اے او (پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس) کے نام سے کسنا چاہتی ہے۔ اس میں حکومت کو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر مکمل کنٹرول کے بے محابا اختیارات دیے گئے ہیں۔ یہ آرڈیننس جہاں جمہوری حکومت کے لیے شرمساری کا باعث بنے گا، وہیں عالمی برادری میں پاکستان کے خلاف ایک طوفان امڈے گا جو طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔

حکومت نے اپنی طرف سے اہل صحافت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے جس کے جواب میں صحافت سے تعلق رکھنے والی تمام تنظیموں نے متفقہ طور پر اسے مسترد کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ وکلا برادری اور سول سوسائٹی کے تمام طاقت ور عناصر کی حمایت سے آزادی صحافت کا تحفظ کریں گے۔ یہ وقت ریاست کے لیے عوام کے زورآور عناصر سے الجھنے کے بجائے آزادی صحافت سے تقویت حاصل کرنے کا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے بروقت یہ محسوس کرنے کا ہے کہ اس کے بارے میں عوام کے اندر گہری تشویش پھیل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments