آئیں امام خمینی رح سے کچھ پوچھتے ہیں


آج 4 جون کو تمام مسلمان بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی رضوان اللہ کا 32 ویں برسی منا رہے ہیں۔ آپ کی رحلت کی خبر پاکستان کے مشہور و معروف اخبار روزنامہ جنگ میں شہ سرخی کے ذریعے یوں دی گئی۔

کہ۔ عالم اسلام کے عظیم فرزند امام خمینی انتقال کر گئے۔

اسی طرح ہمارے پاکستان کے ہی مشہور و معروف شاعر کوثر نیازی صاحب نے بھی ان کی رحلت پر یوں خراج تحسین پیش کی گئی تھی۔

حال ما در ہجر رہبر کمتر از یعقوب نیست
او پسر کم گم کردہ است او ما پدر گم کردہ ایم۔

چونکہ ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب بھی ریاست مدینہ کے نام پر ایک اسلامی نظام کے لئے کوشش کر رہی ہیں۔ میری ناقص رائے کے مطابق اگر واقعاتا وزیراعظم سچے دل سے ایک ریاست مدینہ کا خواب دیکھ رہی ہیں تو انہیں انقلاب اسلامی ایران سے سبق لینی چاہیے۔ ان سے پوچھنا چاہیے۔

ہمارے سامنے انقلاب اسلامی ایران موجود ہے۔ یہ دیکھیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ تصور لیا۔ اصل منبع کیا تھی۔ اس بارے میں بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی رحمۃ اللہ کے خطبات، فرامین، اور بیانات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے۔ کہ انہوں نے یہ تصور قرآن اور رسول اللہ صلی سے حاصل کی تھی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی کو نمونہ قرار دیا۔ اور حضور کی زندگی تو عملی تفسیر قرآن ہے حضور اکرم صلی نے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے جو آئین و قوانین ترتیب دی گئیں تھیں، وہ سب کے سب در اصل قرآن مجید سے ماخوذ تھی۔

یہی وجہ ہے کہ ریاست مدینہ دنیا کے کامیاب ترین ریاست سمجھی جاتی ہے۔ ریاست مدینہ کو ہی نمونہ سمجھ کر امام خمینی رحمۃ اللہ نے بھی ایک اسلامی نظام کے لئے جد و جہد کی تھی۔ اور آپ کامیاب بھی ہوئے۔ اس مختصر تحریر میں ہم پانچ ایسی بنیادی چیزوں کو ضبط تحریر لانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے امام خمینی رحمۃ اللہ ایک کامیاب اسلامی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اول۔ دین کی صحیح تبلیغ اور حفاظت۔ یہ بظاہر آسان لیکن یہ اولین کام ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ اس بات سے بخوبی

آگاہ تھے، ان کے سامنے تاریخ انبیاء علیہم تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کے سلسلے کو زیادہ اہمیت دی۔ مساجد، دینی عبادات گاہوں کے علاوہ یونیورسٹیوں تک اسلام کی تبلیغ کی۔ اور اس دور کے ہر پلیٹ فارم پر دین اسلام کے پیغام کو عام کیا۔ آپ کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر اسلام کا اپنی اصل اور خالص شکل و صورت میں لوگوں کے سامنے تعارف کرایا جائے تو بہت جلد وہ پورے عالم کو تسخیر کر لے گا۔

دوم فلسفہ دین کو درک کرنا۔

اس دور میں بھی آج کی طرح لوگ برائے نام نماز پڑھتے تھے، روزہ تو رکھ لیتے فلسفہ روزہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اسی طرح باقی عبادات و معاملات کو تو انجام دیں دیتے لیکن کبھی بھی ان میں موجود حکمت و فلسفے جاننے کی کوشش ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

امام خمینی رحمۃ اللہ نے فلسفہ دین پر درس دیے۔ اور لوگوں کو فلسفہ دین سمجھا۔ کیونکہ جب لوگ اس وقت ظاہر میں مشغول ہو کر مفہوم کو ترک کر دیتے تھے۔ اس کی واضح مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ۔ جب انگریز عراق میں آئے تو ان کے سربراہ نے دیکھا کہ کوئی اذان دے رہا۔ پوچھا : یہ کیا کہہ رہا ہے؟ جواب دیا گیا: یہ اذان دے رہا ہے۔ پوچھا کیا اس کا انگلستان کی بادشاہت سے کوئی سروکار ہے؟ کہا گیا : نہیں۔ کہا : کوئی بات نہیں اسے جو چاہے کہنے دو۔ جو چیز باعث ضرر تھی وہ مفہوم اسلام تھا۔

سوم دشمن نشانی: انقلاب اسلامی ایران کے کامیابی کے رازوں میں سے ایک بانی کا دشمن شناسی ہونا ہے

اسلام کو بھی ایک فطری دین ہونے کے باوجود ہر زمانے میں دشمنوں کا سامنا رہی ہیں، خود رسول اللہ کے دور میں اور اس کے بعد میں جتنی بھی جنگیں یا غزوات ہوئی۔ سب اسی اسلام دشمن کی وجہ سے تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ اپنے وقت کے حقیقی دشمن کو جانتے تھے، اور یہ بھی جانتے تھے کہ وقت کے دشمن کو کس طرح شکست دینی ہے۔ آپ نے اپنے خطبات میں مرگ بر امریکہ، برگ بر اسرائیل کا نعرہ ببانگ دہل لگایا۔ اور مسلمان کو بھی وقت کے اصلی دشمن کا چہرہ واضح و آشکار کر دیا۔

چہارم اسلامی اتحاد: حدیث رسول اللہ صلی اللہ کے مطابق مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے ”۔

امام خمینی رحمۃ اللہ اپنے دور کے سب سے بڑے اتحاد اسلامی کے نہ صرف داعی تھے بلکہ عملاً اس کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ آپ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اخوت بڑھانے کے لیے مختلف کوششوں کی ترغیب دلاتے اور فرماتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے قیام اور باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے علماء، دانشوروں اور معاشرے کی اہم شخصیات کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے قرآنی حکم کو عملی جامہ پہنائیں۔ اتحاد اسلامی کے حوالے سے آپ کا یہ مشہور جملہ ہی کافی ہے۔ جس میں آپ نے تمام مسلمانان جہاں سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ نماز میں ہاتھ کھولنے اور باندھے میں لگے ہو اور دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی فکر میں ہے۔

پنجم محروم و کمزور عوام کی حمایت۔
ہر معاشرے میں کمزور اور محروم طبقے ہوتے ہیں۔

انبیاء کرام اسی طبقے کا خاص خیال رکھتے تھے۔ انقلاب اسلامی کے تحریک آغاز سے آج تک جب بھی دنیا کے کسی بھی گوشے میں کوئی ظلم و بربریت ہو جائے۔

تو مظلوم عوام کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہوتی ہیں۔ اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے جد و جہد کرتی چلی آئی ہیں مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اسرائیل اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھ ڈال للکار ہیں۔ اور مسئلہ فلسطین کو تمام مسلمانوں کا مسئلہ قرار دینے میں کامیاب ہوا۔ یہ وہ پانچ بنیادی چیزیں ہیں جس کے ذریعے انقلاب اسلامی کامیاب ہوا۔ ظاہر ہے اتنی عظیم انقلاب کے وجود میں اس کے علاوہ بھی بہت ساری عوامل بھی ہیں لیکن وہ سب یہاں ذکر نہیں کر سکتا۔

یہاں میں چند سوالات آپ معزز قاریوں کے سامنے رکھوں گا۔ وہ یہ کہ امت مسلمہ اس وقت 57 ممالک پر مشتمل ہے جو دنیا میں ہر طرح کے وسائل و ذرائع سے مالامال ہے وہ چاہے تیل کے کنویں ہوں یا سونے اور دیگر معدنیات کی کانیں، سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا ایٹمی و نیوکلیائی ہتھیار۔ لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود دنیا میں اس وقت کوئی قوم مظلوم و محکوم ہے تو وہ یہی امت مسلمہ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہیں؟ اتحاد بین المسلمین میں میرا انفرادی کیا ذمہ داری ہے؟

کیا بحیثیت مسلمان اپنی اپنی بساط کے مطابق اسلامی نظام کے قیام کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہیں۔ ؟

ایک مسلمان ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ایران اور سعودی حکومت کے درمیان جو جو خدشات موجود ہیں ان کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا لائحہ عمل ترتیب دیے رہیے ہیں۔ ؟ جبکہ یہ دونوں اسلامی ملک کے اہم ممالک میں شمار ہوتیں ہیں۔

آخر میں وزیراعظم عمران خان صاحب سے گزارش کروں گا کہ اگر آپ پاکستان میں ریاست مدینہ کی طرز پر نظام قائم کرنے کی بات کرتے ہیں تو آپ کے لیے آسان راستہ یہ ہیں کہ انقلاب اسلامی ایران کا عمیق طریقے سے مطالعہ کریں۔ اور اسی کو نمونہ بنائے ورنہ آپ ارطغرل غازی اور عثمان غازی کی طرح ہزاروں سیزن چلائے اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments