منٹو کا افسانہ ’لائسنس‘ اور صحافی کا روزگار


درویش گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا تو ایک طرف، ڈھنگ سے سڑک پار کرنا بھی نہیں جانتا۔ وہی جو سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا، ’کم بخت جب ملا ہمیں، کم آشنا ملا‘۔ اساتذہ نے سبق دیا تھا کہ صحافی کو صیغہ متکلم سے گریز کرنا چاہیے۔ اخبار کا صفحہ پڑھنے والوں کی امانت ہے، صحافی کی ذات کا اشتہار نہیں۔ مجبوری آن پڑی ہے۔ کچھ ایسا بجوگ پڑا ہے کہ کسی کا نام لئے بغیر بھی بات کرو تو طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ کورونا کی وبا ایسا ایسا چہرہ تہ خاک لے گئی کہ غالب کے لفظوں میں ’واللہ اب شہر نہیں، کیمپ ہے، چھاﺅنی ہے۔‘ غالب تو اپنے خطوط میں سنہ ستاون کا آشوب بیان کر رہے تھے۔ ہمارے حصے میں وبا کی غارت گری ہی نہیں آئی، وہ اندھیر نگری بھی اتر رہی ہے بلکہ اتر چکی جسے ن م راشد نے ’آوازوں کا قحط‘ کہا تھا۔ مہاتما بدھ نے فرمایا تھا کہ ایسے میں ’اپنے بھیتر میں رہ اور باہر پر آنکھ رکھ‘۔ تو چلیے اپنے بارے میں ایک اعتراف اور سہی۔ درویش اپنی نسل کے ان گنے چنے افراد میں سے ہے جنہوں نے زندگی بھر پاکستان اور بھارت کی کوئی فلم نہیں دیکھی۔ فلمیں بہت دیکھیں بلکہ برسوں فلم پڑھائی بھی لیکن سب بدیسی۔ تقابل کی جسارت نہیں لیکن اپنے محمد حسن عسکری کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ کبھی ملک سے پاﺅں باہر نہیں نکالا لیکن پیرس، ویانا اور لندن سے اس درجہ باخبر تھے گویا رات بھر Saint Germain اور Bloombury کے کسی کیفے میں اہل علم سے مجلس رہی ہے۔

عسکری صاحب کا مطالعہ بے کراں تھا۔ ناچیز کے حصے میں صاحبان علم کی عقب نشینی آئی۔ بس ایسی ہی کسی مجلس میں 1957 میں بننے والی پنجابی فلم ’یکے والی‘ کا ذکر سننے میں آیا۔ معلوم ہوا کہ ہدایت کار ایم جے رانا کی یہ فلم منٹو کے افسانے ’لائسنس‘ سے ماخوذ تھی۔ سادہ سی کہانی ہے۔ ایک بیوہ عورت دو وقت کی روٹی کے لئے اپنے مرحوم شوہر کا تانگہ چلانا شروع کرتی ہے لیکن میونسپل کمیٹی کے ضوابط میں کسی عورت کو تانگہ چلانے کا لائسنس نہیں مل سکتا۔ البتہ اسے ایک دوسرا لائسنس مل جاتا ہے جو انسانی تاریخ کے دوسرے قدیم ترین پیشے سے تعلق رکھتا تھا۔ نصف صدی قبل حبیب جالب نے لکھا تھا۔ ’لائسنسوں کا موسم ہے‘۔ ان دنوں ایک اور پیشے کے لئے لائسنسوں کے اجرا کی خبر آ رہی ہے۔ ارے دیکھیے، اشہب قلم پھر بھٹکا۔ ابراہیم ذوق نے کہا تھا۔ پھر مجھے لے چلا ادھر دیکھو / دل خانہ خراب کی باتیں۔ فکر نہیں کیجئے۔ ہمیں اپنے صحافتی ادارے کا مفاد عزیز ہے۔ ہٹائیں لائسنس کا قصہ۔ ایک عمدہ سی فلم پر بات کرتے ہیں۔

فلورین ہینکل جرمن ہدایت کار ہیں۔ 1973 میں کولون میں پیدا ہونے والے فلورین نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ پڑھا اور میونخ میں فلم کی تعلیم پائی۔ نوجوانی برلن کی دیوار کے سائے میں گزری۔ سمجھنا چاہیے کہ دیوار اور دریا میں تاریخ کی کشمکش کا تلازمہ ہے۔ دیوار رکاوٹ ہے اور دریا کو بہتے رہنا ہے۔ فلورین ہینکل نے بطور ہدایت کار 2006ء میں پہلی ہی فلم The Lives of Others کے عنوان سے خود لکھی اور میلہ لوٹ لیا۔ 1984 کے لگ بھگ مشرقی جرمنی کی سیکرٹ سروس Stasi کے ایک ایجنٹ وائزلر کو ملک کے معروف ترین ڈرامہ نگار جارج ڈریمن اور اس کی محبوبہ مارٹینا کی نجی زندگی پر نظر رکھنے کا حکم ملتا ہے۔ مارٹینا ایک اداکارہ بھی ہے اور ملک کا وزیر ثقافت اس پر بری نظر رکھتا ہے۔ ایجنٹ وائزلر ریاستی استبداد کا کارندہ ہے، بے رنگ شب و روز اور داخلی لایعنیت کا کھوکھلا پن۔ ادھر جارج ڈریمن کے ہاں آرٹ، محبت، کتابیں، موسیقی، رقص اور نکتہ رس محفلوں کی تہ در تہ لطافتیں ہیں۔ سرکاری ملازم اختیار کی تنہائی میں ہے اور تخلیق کار مزاحمت کی سرخوشی میں زندہ ہے۔ کہانی بہت سے موڑ کاٹتی ہے۔ فلم تو آپ خود دیکھ لیں گے۔ ایک آدھ مکالمہ پیش کرتا ہوں۔ جارج ڈریمن کی محبوبہ مارٹینا کو گرفتار کر کے عقوبت خانے میں لایا گیا ہے۔ ناپسندیدہ ادیبوں، صحافیوں اور فنکاروں کے اس اصلاح خانے کا انچارج بظاہر ہلکے پھلکے انداز میں نوجوان خاتون کو اپنے کام کے بارے میں بتا رہا ہے۔

’میں نرا تفتیش کار ہی نہیں، نوآموز ملازموں کی تربیت بھی کرتا ہوں۔ یہ جو خناس بھرے دانشور یہاں لائے جاتے ہیں نا، ان کی کل پانچ قسمیں ہیں۔ یہ جو تمہارا دوست ڈریمن ہے، یہ ٹائپ 4 میں آتا ہے، باتونی، ذہین مگر سادہ لوح۔ انہیں ہمیشہ دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے نمونوں سے نمٹنا آسان ہوتا ہے۔ کوئی مار پیٹ نہیں، کوئی بدسلوکی نہیں۔ بس انہیں انسانی رابطے سے محروم کر دو۔ وجہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ مکمل تنہائی اور رہائی کی کوئی مقررہ تاریخ نہیں۔ ایسا کچھ نہیں کرنا جس کے بارے میں وہ بعد میں کہانیاں لکھنے بیٹھ جائیں۔ چند ماہ بعد رہا کر دو۔ بالکل انسان کے بچے بن جاتے ہیں، جانتی ہو کہ بہت سے ٹائپ 4 جن کے ساتھ ہم نے اس طرح کارروائی کی، وہ پھر کبھی کچھ نہیں لکھتے۔ مصوری، موسیقی اور بے کار کی بحثیں سب بھول جاتے ہیں۔ ہے نا زبردست اور وہ بھی بغیر طاقت استعمال کیے….‘

واقعی ایک مستعد اور ماہر کارندہ یہ سب کرنا جانتا ہے۔ ایک بات نہیں جانتا۔ اس کے ایجنٹ وائزلر کے اندر کی دنیا بدل چکی ہے۔ اس نے زندگی کا حقیقی حسن دیکھ لیا ہے۔ ڈریمن اب کچھ لکھے یا نہیں، ایک روز (شاید نومبر 1989 کی کوئی تاریخ تھی) دیوار برلن منہدم ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ قلم کو پابند کیا جا سکتا ہے، تاریخ کے دریا پر بند نہیں باندھا جا سکتا۔ یہ بات 1780 میں برصغیر میں صحافت کا ابتدائی قانون بنانے والا انگریز جانتا تھا۔ اس نے صحافت کے لئے ڈیکلریشن کا لفظ منتخب کیا۔ لائسنس کی ضرورت تو منٹو کے افسانے کی عنایتی کو پڑتی ہے۔ صحافت میں لائسنس نہیں ہوتا، ڈیکلریشن ہوتا ہے۔ انسانی ترقی، تمدنی شعور, حقوق اور اختیار کی حرکیات بیان کرنے کی اجتماعی ذمہ داری اٹھانے کا اعلان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments