نواز شریف اور عمران خان: خوش بخت لیکن متصادم


تقریباً ایک صدی پیچھے چلے جاتے ہیں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف 1919ء میں مقبوضہ کشمیر کے قصبے اننت ناگ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تلاش معاش کے سلسلے میں ان کا خاندان امرتسر چلا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد میاں محمد شریف رزق کی تلاش میں لاہور آ گئے۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی خراد مشین خریدی اور ایک چھوٹے سے گیراج میں کام کرنے لگے۔ تاہم ترقی کی رفتار وقت کی رفتار سے بہت کم تھی سو محنت اور غربت ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

یہی مسلسل محنت اور غربت انہیں 25 دسمبر 1949 ء کا ایک خوش بخت دن دکھا دیتی ہے۔ جب ان کے گھر ان کا پہلا بیٹا محمد نواز شریف اپنے خاندان کے لئے خوش بختیوں کا ایک سلسلہ لے کر پیدا ہوتا ہے اور یہیں سے ان کے دن پھرنے لگتے ہیں۔ پھر کہاں کی چھوٹی سی خراد مشین اور کہاں کی غربت!

پھر تو سلسلہ اتفاق فاؤنڈری سے پے درپے بادشاہتوں اور عالمی شہرت تک پھیل جاتا ہے۔

لیکن ایک اور کہانی بھی ہے۔ اس سے ملتی جلتی اور اس سے متضاد بھی اکرام اللہ خان نیازی 1925ء میں میانوالی کے ایک ممتاز فزیشن ڈاکٹر عظیم نیازی کے گھر سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ اعلٰی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے بحیثیت سول انجینئر کیرئیر کا آغاز کیا۔

25 نومبر 1952ء کو ان کے گھر ان کا اکلوتا بیٹا عمران خان پیدا ہوتا ہے۔ تو مزید دولت اور شہرت اس گمنام انجینئر کے گھر کا رخ کرنے لگتی ہے اور یہاں سے نصیبوں کے عروج اور تصادم کی وہ کہانی شروع ہو جاتی ہے جو آگے چل کر پورے ملک کی تقدیر پر اثر انداز ہوتی رہی۔

ساٹھ کے عشرے کے آخر میں ان دونوں ”شہزادوں“ (نواز شریف اور عمران خان) کی ملاقات ہوتی ہے۔ کیونکہ دونوں لاہور کے ایلیٹ کلاس خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کرکٹ کے شیدائی ہیں اور لاہور جم خانہ میں کھیلنے آتے ہیں۔ دونوں کی خواہش ہے کہ پاکستانی ٹیم کی طرف سے کھیلیں لیکن 70 کے عشرے میں عمران کا نصیب بازی لے جاتا ہے اور وہ پاکستانی ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں اور نواز شریف بظاہر ناکام ہو جاتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد ان کی فطری خوش بختی شہرت اور طاقت کے ایک اور سفر (سیاست اور اقتدار ) پر انہیں ڈال دیتی ہے۔

نواز شریف 1983 میں پنجاب کے وزیر خزانہ بن کر سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہیں اور صرف دو سال بعد 1985 ء میں مخدوم حسن محمود اور ملک اللہ یار جیسے ہیوی ویٹس کو پچھاڑ کر پنجاب کے وزیراعلٰی بن جاتے ہیں۔

ان کی خوش نصیبی کا دائرہ مبالغہ آمیز حد تک پھیلتا جاتا ہے۔ تین سال بعد 1988 میں دوبارہ وزیر اعلٰی بن کر پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کے مقابل آ جاتے ہیں تو ان کی خوش نصیبی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ناکامی سے دوچار کر کے انہیں بے نظیر سے زیادہ مقبولیت عطا کر دیتی ہے اور صرف دو سال بعد وہ پاکستان کے وزیراعظم بن جاتے ہیں اس دوران جو بھی شخص ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے، نواز شریف کی خوش بختی اسے ہڑپ کر جاتی ہے۔

آصف نواز جنجوعہ۔ جہانگیر کرامت۔ غلام اسحاق خان۔ جسٹس سجاد علی شاہ۔ فاروق لغاری حتٰی کہ 12 اکتوبر اور پرویز مشرف کو بھی اسی خوش نصیبی نے آخر پچھاڑ کر رکھ دیا اور وہ تیسری بار بھی وزیر اعظم بن گئے۔ دوسری جانب عمران خان کرکٹ کی کامیابیاں اور شہرت کے منازل طے کرتے حتی کہ 1992 میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر کچھ عرصے بعد سیاست کے میدان تک پہنچتے ہیں تو ان کا سامنا اس میدان کے سب سے خوش نصیب شہسوار نواز شریف سے ہوتا ہے اور یہاں سے نصیبیوں کے تصادم کی ایک اور کہانی جنم لیتی ہے

اسی لئے جب 2013ء میں الیکشن کا میدان سجتا ہے تو قسمت کے دونوں دھنی اپنے سامنے سروں کا سمندر دیکھتے ہیں عمران خان کو ان کے پیروکار اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ متوقع وزیر اعظم کے روپ میں بھی پیش کرنے لگتا ہے کہ الیکشن کے گرما گرم اور مصروف ترین دنوں میں اچانک عمران خان ایک جلسے کے دوران سٹیج سے گرتے ہیں اور شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔

ان کا سارا انتخابی کمپین کا شیڈول اور سیاسی سرگرمیاں مکمل طور پر مفقود ہو کر ان کی زندگی کے سوال کی طرف مڑ جاتے ہیں۔

ان معاملات میں دلچسپی لینے اور غور و فکر کرنے والے لوگ الیکشن کے نتائج الیکشن سے پہلے ہی سمجھنا شروع ہو گئے تھے اور پھر 11 مئی 2013 ء کی رات نواز شریف کی خوش بختی نے عمران خان کو کرشماتی شخصیت کے باوجود سیاسی طور پر ہڑپ کر لیا۔ تاہم عمران کی توانا خوش نصیبی نے انہیں جسمانی اور سیاسی طور پر بچا لیا لیکن جب نواز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں تو عمران خان ان پر یلغار جاری رکھتے ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟

مرکز اور پنجاب میں نواز شریف کی حکومتیں مضبوط بھی ر ہیں اور نسبتاً کامیاب بھی۔ لیکن نواز شریف کو پریشان کرنے کے بجائے الٹا عمران خان کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ جیسے ریحام خان کا معاملہ۔ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف حکومت کی ناکامی شدید سیاسی تنہائی اور پارٹی کے اندر شدید اختلافات جو اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔

نواز شریف کی دشمنی عمران خان کے لئے ہمیشہ خسارے کا سودا رہی لیکن اس کی رفاقت ہمیشہ عمران خان کے گراف کو اوپر کی طرف لے جاتی ہے مثلاً کرکٹ کے علاوہ صرف دو چیزوں نے عمران خان کو شہرت اور طاقت عطا کی ایک شوکت خانم ہسپتال اور دوسرا 2013 میں پہلی بار خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کا قیام حیرت انگیز طور پر ان دونوں معاملات میں میاں نواز شریف نے تعاون کیا (حالانکہ 2013 الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمن کی شدید خواہش تھی کہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ اور جمیعت علمائے اسلام مل کر مخلوط حکومت بنائیں)۔ 1992ء میں عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کا منصوبہ بنایا تو زمین نواز شریف نے فراہم کی جبکہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نواز شریف نے اس وقت عمران خان کی جھولی میں ڈال دی جب نواز شریف 2013ء میں بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد عمران کی بیمار پرسی کے لئے ہسپتال گئے۔

دیکھا گیا ہے کہ خوش بختی کے حوالے سے نواز شریف ہمیشہ عمران خان کو بھاری پڑتا رہا ہے جس کا کچھ نا کچھ روحانی پس منظر بھی ہے جس کا ذکر پھر کبھی! فی الحال موجودہ حالات میں نصیبیوں کے تصادم اور نتائج پر بات کر تے ہیں

وزارت عظمی سے معزولی کے بعد نواز شریف شدید مشکلات کا شکار ہوا تو عمران خان کا عروج بھی شروع ہوا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ فائدے میں کون رہا؟

ایک سیاسی لیڈر کی سیاسی زندگی کو عوامی مقبولیت اور ناراضگی کے پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے اور دونوں کے حوالے سے یہ بات سمجھنا اور نتائج اخذ کرنا اس وقت کون سا مشکل کام ہے

قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جن روایتی قوتوں کو اس وقت دن بدن جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیا پہلے متعدد سیاسی رہنماؤں سے تصادم کی صورت میں کبھی انہیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جو نواز شریف کے معاملے میں ہو رہا ہے۔

کسی جذباتی ذہن سے سوچنے کی بجائے اگر ہم اس حوالے سے ٹریک ریکارڈ کو سامنے رکھ کر تجزیہ کریں تو آسانی کے ساتھ سمجھ آ جاتی ہے کہ نواز شریف کے معاملے میں تسلسل کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے

مثلاً قسمت کا دھنی غلام اسحاق خان اس سے ٹکرایا تو طویل زندگی میں وہ پہلی بار طاقت اور اقتدار کے ایوانوں سے نکلا اور پشاور میں اپنی موت تک گوشہ نشین رہا جبکہ تصادم کے بعد نواز شریف کئی بار اقتدار میں آیا اور آج بھی سب سے مقبول ہے۔

پرویز مشرف کہاں اور کس حال میں ہیں؟

کیا چودھری نثار 1985 کے بعد زندگی میں پہلی بار الیکشن نہیں ہارا؟

یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد تصوف کے کسی معاملے کو سمجھنے کا دعوی بھی نہیں اور خود کو کوئی روحانی علوم کا ماہر ثابت کرنا بھی نہیں کیونکہ نہ تقوی کے اس عظیم معیار پر ہیں اور نہ ہی علم کے۔

البتہ مشاہدے میں آئے حقائق یہی تھے اور انہی حقائق کو سامنے رکھا۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments