ورلڈ فوڈ سیفٹی ڈے اور موت کا کاروبار


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی مشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا بھر میں 7 جون 2019 کو پہلا فوڈ سیفٹی ڈے منایا گیا جس کے بعد اب ہر سال 7 جون کو ورلڈ سیفٹی فوڈ ڈے منایا جاتا ہے۔ اس سال اس دن کا موضوع ہے ”صحت مند کل کے لئے محفوظ کھانا“ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آلودہ اور غیر معیاری خوراک اور پانی کے باعث انسانی صحت پر ہونے والے مضر اثرات اور پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ اس دن کے موقع پر یہ شعور بھی بیدار کیا جاتا ہے کہ انسانی صحت کے لئے معیاری خوراک اور صاف پانی کس قدر ضروری ہیں اور اس کے حصول کے لئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال دس میں سے ایک شخص آلودہ کھانا کھانے کے باعث بیمار پڑ جاتا ہے جبکہ اسی آلودہ کھانے کی وجہ سے سالانہ چار لاکھ بیس ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اس طرح سالانہ ( 33 ) تینتیس ملین افراد صحت مند زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق آلودہ خوراک میں خطرناک قسم کے بیکٹیریا، وائرس اور کیمیکلز شامل ہوتے ہیں جن سے عام بیماریوں ڈائیریا (اسہال) سے لے کر کینسر تک کے امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔

ان بیماریوں میں اسہال کی بیماری سب سے زیادہ عام ہے جس کی بنیادی وجہ آلودہ کھانے کا استعمال ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ہر سال 550 ملین افراد بیمار اور 2 لاکھ 30 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا 40 فیصد 5 سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے، سالانہ ایک لاکھ پچیس ہزار کم عمر بچے آلودہ کھانے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں غیر محفوظ خوراک کے نتیجے میں پیداواری اور طبی اخراجات میں ہر سال 110 بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے کھانے پینے کی ہر چیز میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ اس گھناونے کاروبار میں انسانی جان کے بدلے پیسہ کمانے میں کوئی عار، کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی لیکن موت کا کاروبار کرنے والے یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اگر وہ ملاوٹ کر کے غیر معیاری اور مضر صحت کھانے پینے کی اشیاء بیچ رہے ہیں تو خود اپنے ہاتھوں اپنی آنے والی نسلوں کو برباد کر رہے ہیں کیونکہ کسی نہ کسی طرح وہ خود اور ان کے اہل خانہ بھی موت کے اس کاروبار کا شکار ہو رہے ہیں۔

موت کا کاروبار کرنے والے ہر شخص کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر وہ دوسروں کو مضر صحت چیز بیچ رہا ہے تو بدلے میں اپنے بچوں اور اہل خانہ کے لئے مضر صحت چیز خرید بھی رہا ہے۔ مضر صحت دودھ بیچ کر کمائی کرنے والا انہی پیسوں سے کس طرح اپنے بیوی بچوں کے لئے خالص خوراک خریدنے کی توقع کر سکتا ہے جو بیماریاں وہ معاشرے میں بانٹ رہا ہے وہی بیماریاں دوسری جانب سے اپنے گھر والوں کے لئے خرید بھی رہا ہے اس طرح اگر دیکھا جائے تو کھانے پینے کی مضر صحت اشیاء بیچنے والے صرف اپنے گاہکوں کو ہی موت کے منہ میں نہیں دھکیل رہے بلکہ ان کے بیوی بچے بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔

اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اہل خانہ، بیوی بچے صحت مند زندگی گزاریں تو ملاوٹ پر مبنی موت کے اس کاروبار، اس کھیل کو سب سے پہلے انھیں خود بند کرنا ہوگا۔ جب دودھ والا، پرچون والا، گوشت والا اور اشیائے خورد و نوش بیچنے والے تمام افراد اپنے اپنے لیول پر ملاوٹ اور آلودہ خوراک کو بیچنا بند کریں گے تب ہی وہ اپنے بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنا سکیں گے۔

اکثر آئے روز اخبارات، میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ مضر صحت کھانا کھانے سے بچے ہلاک ہو گئے لیکن منافع خور کتنے سنگدل ہیں جو ایسی اموات کو نظر انداز کر کے ملاوٹ کے نت نئے طریقے اختیار کرتے رہتے ہیں۔ کبھی دودھ میں یوریا کھاد ملائی جا رہی ہے تو کبھی مرچوں میں بھوسے، مکئی اور چوکر کی ملاوٹ کی جا رہی ہے، کبھی مردہ جانوروں کے خون سے کیچ اپ تیار کی جا رہی ہے تو کبھی مردہ مرغیوں، بکروں اور گائے کا گوشت پیچا جا رہا ہے، ڈرنکس میں مضر صحت کیمیکل ڈالے جا رہے ہیں، مکھن اور دودھ کے نام اور تصویریں استعمال کر کے کچھ اور ہی بیچا جا رہا ہے، ناخالص آٹا، گھی، دالیں، چینی بیچی جا رہی ہے حتیٰ کہ مضر صحت قدرتی پھل اور سبزیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔

ابھی کچھ روز قبل ہی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اپنی ایک کارروائی کے دوران صوبہ بھر کی 527 منڈیوں کی چیکنگ کرتے ہوئے 1345 کلو آم تلف کیا جو مضر صحت کیمیکل سے پکائے گئے تھے، اسی طرح مختلف شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کرتے ہوئے ہزاروں لٹر مضر صحت دودھ اور ہزاروں من مضر صحت گوشت تلف کیا گیا ہے لیکن افسوس موت کا کاروبار تب بھی زور و شور سے جاری تھا جب کورونا وبا کی وجہ سے موت کے سائے ہر طرف منڈلا رہے تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ موت کا کاروبار بند کروانے کے لئے ہر ممکن سخت اقدامات کرے تاکہ پاکستان کو ایک روشن اور صحت مند مستقبل فراہم کیا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments