افغان طالبان، ضیا الدین یوسفزئی کے سوالات کا جواب دیتے ہیں


تیس مئی کو ”ہم سب“ میں جناب ضیا الدین یوسفزئی صاحب کا مضمون بعنون ”افغانستان میں دائمی قیام امن کے لئے طالبان سے چند گزارشات“ شائع ہوا تھا۔ افغان طالبان نے اس کا باقاعدہ جواب ”ہم سب“ کو ارسال کیا ہے جو کسی قطع برید کے بغیر پیش خدمت ہے۔ یہ مضمون دو حصوں پر مشتمل ہے جو ایک ساتھ شائع کیے جا رہے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ضیاء الدین یوسفزئی صاحب کے امارت اسلامیہ سے سوالات اور ہماری معروضات

از اکرم تاشفین
معاون مدیر ماہنامہ شریعت، اردو ترجمان میگزین امارت اسلامیہ افغانستان

جناب ضیاء الدین یوسفزئی صاحب کی تحریر سوشل میڈیا پر کہیں نظر نواز ہوئی۔ انہوں نے امارت اسلامیہ افغانستان سے کچھ سوالات کیے تھے۔ یہ سوالات اسی نوعیت کے کچھ سوالات تھے جو گزشتہ تین سالوں سے قطر سے لے کر بین الاقوامی افغان کانفرنسز، ٹی وی شوز اور دیگر فورمز پر امارت اسلامیہ کے رہنماؤں اور ترجمانوں سے کیے جاتے رہے ہیں۔

ان سوالات پر بھی بات کریں گے لیکن اس سے زیادہ ان سوالات کے سیاق و سباق میں کی گئی گفتگو اہم ہے۔ ان کی پوری تحریر کا لہجہ کسی مکالماتی ماحول کی تشکیل میں مدد فراہم نہیں کرتا۔ ”اسلامی آمریت ’‘ اور“ طالبانی امن ”ایسی دیگر ترکیبیں استعمال کر کے انہوں نے تنفر میں کوئی بھی کسر نہ چھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ ایک تعلیم یافتہ یا تعلیم کے مشن سے وابستہ شخص سے عموماً نرم گفتگو اور مہذب رویے کی توقع کی جاتی ہے۔

ہم ان کے لہجے سے بھی درگزر کرتے ہوئے ان زمینی حقائق پر بات کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے یکسر نظر انداز کر دیں۔ یوں تو ان کے ایک ایک جملے اور ایک پیرے پر بات کی جا سکتی ہے کہ اس میں حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا ہے؟ فی الحال ہم چند امور پر بات کریں گے۔

امارت اسلامیہ کا دور حکومت

جناب ضیاء الدین صاحب نے اپنی تحریر کے دوسرے پیرے میں امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں ہونے والی کسی بھی مثبت سرگرمی، تعمیر نو کے کسی بھی کام اور ترقی کے کسی بھی عمل کی یکسر نفی کی اور اس دور کو محض تشدد کا دور قرار دیا۔

26 ستمبر 1996 کو امارت اسلامیہ کے ہاتھوں کابل فتح ہوا۔ اس دن سے 20 دسمبر 2001 تک، جب امریکی بمباری کے نتیجے میں امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ اور امارت اسلامیہ نے اپنے آخری شہر قندھار سے بھی عقب نشینی اختیار کی۔ 5 سال 2 ماہ 24 دن کے اس عرصے میں امارت اسلامیہ نے اس قوم کو کیا دیا؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے پہلے ان حالات کا جائزہ لینا ہو گا جس کی وجہ سے افغانستان کی طالبان تحریک وجود میں آئی۔ 28 اپریل 1992 کو ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنی حکومت سے استعفی دیا۔ جس کے بعد کابل شہر پر ہر طرف سے جہادی تنظیمیں امڈ آئیں۔ کابل اس وقت پانچ تنظیموں کا میدان جنگ بن چکا تھا۔ کابل ایسے تاریخی اور نفیس شہر میں دو جنگیں بیک وقت جاری تھیں۔ ایک جنگ انجینئر گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی اور پروفیسر برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی کے درمیان جاری تھی۔ جمعیت اسلامی کا مضبوط کمانڈر احمد شاہ مسعود تھا جس نے عبدالرشید دوستم کی گلم ملیشیا سے اتحاد کر کے حزب کے خلاف محاذ سجا لیا تھا۔ کابل کے اہم علاقوں پر قبضہ کے لیے احمد شاہ مسعود اور دوستم کے اتحاد نے انہیں مضبوط کر دیا۔ یہ جنگ تین سال تک جاری رہی۔ پچاس ہزار شہری اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ دوسری جنگ استاد (پروفیسر) سیاف اور شیعہ تنظیم حزب وحدت کے درمیان لڑی جا رہی تھی۔

جنگیں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ مگر یہاں جنگوں کے ساتھ جو ناقابل تلافی تباہی ہوئی وہ اس معاشرے کا اخلاقی زوال تھا۔ کابل میں اور کابل سے باہر یہ لوگ اخلاقی لحاظ سے جس سطح تک گر گئے اس کے بعد جنگل کے وحشی درندوں کا بھی کوئی درجہ نہیں رہ جاتا۔ پل چرخی چھاؤنی کے پاس سڑک پر کھڑے گلم جم ملیشیا کے اہلکار دن دیہاڑے نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے اور کنٹینروں میں میوزک اور شراب کی مستی میں ان کی آبرو ریزی کرتے۔ اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تو مار دیا جاتا۔ چوری، ڈاکے، لوٹ مار، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان تو روز کے معمولی واقعات بن چکے تھے۔ کابل یونیورسٹی کے ”پروفیسر“ برہان الدین ربانی کی جماعت کے لوگ بھی اس میں کسی سے کم نہ تھے۔ ان کا ایک کمانڈر ایک شہری کی بیوی کو اس کے گھر سے اٹھا کر لے گیا۔ شہری نے آ کر تحریری درخواست پروفیسر صاحب کے سامنے رکھ دی۔ پروفیسر برہان الدین ربانی نے درخواست کی پشت پر اپنے کمانڈر کو لکھا ”قومندان صیب لطفا زنش را بدہ“ (کمانڈر صاحب برائے مہربانی اس کی اہلیہ اس کے سپرد کر دیں ) اس واقعے سے ان جنگجو کمانڈروں کی خود سری اور ظلم اور عوام کی بے بسی کا اندازہ لگائیں۔ حزب اسلامی نے کابل شہر پر جو راکٹ برسائے اس کی تباہی آج بھی کابل کے شہریوں کو یاد ہے۔

حزب وحدت اور سیاف کی لڑائی صرف ایک تنظیمی جنگ نہیں رہی، پشتون اور ہزارہ کی لڑائی بن گئی۔ سیاف کے مسلح لوگوں نے حزب وحدت کے علاقوں میں عام ہزارہ شہریوں کو قتل کیا۔ خواتین کی عزتیں پامال کیں۔ گھروں کو لوٹا۔ جب کہ عبدالعلی مزاری کی قیادت میں حزب وحدت کے جنگجوؤں نے عام پشتون شہریوں کو پکڑ کر قتل کیا۔ ان کے سروں میں کیلیں ٹھونکیں۔ ”رقص مردہ“ کا بھیانک ظلم انہیں کی ایجاد ہے۔

دارالحکومت کابل سے باہر صورتحال اس سے بھی گئی گزری تھی۔ کمیونسٹ تنظیموں کے مقامی جنگجو بھی اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے نکل پڑے تھے۔ ہر علاقے میں مقامی وار لارڈز کا قبضہ تھا۔ گورننس نام کی چیز تو کابل ہی میں ناپید ہو گئی تھی پھر دوسری جگہوں پر اس کا کیا سوال۔ بولدک بارڈر سے لے کر شمالی افغانستان تک پورا ملک انسانی المیے اور بحران سے دوچار تھا۔ بڑی شاہراہوں پر شہریوں کا چلنا محال ہو گیا تھا۔ چوکیوں پر تعینات اوباش درد زہ میں مبتلا خواتین کو گاڑی سے اتار کر تماشا دیکھتے۔ نوعمر لڑکے لڑکیاں کوئی ان کی دست اندازی سے محفوظ نہ تھا۔ طالبان نے جب ان سڑک کنارے جنگجووں کی چوکیوں پر حملے کیے تو چوکیوں کے اندر سے کئی کئی دن پرانی لاشیں بھی ملیں۔ یہ جنگجو انہیں لاشوں کے ساتھ یہاں رہتے بھی اور کھانا پینا بھی یہیں ہوتا۔

امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ ویسے ان حالات کو خود دیکھ رہے تھے۔ ایک حساس اور باضمیر افغان شہری کی حیثیت سے تڑپتے بھی تھے مگر جس واقعے نے فوری طور پر اقدام کرنے اور ہمت جمع کر کے اس ملک سے فسادات کے خاتمے کے لیے انہیں عملی اقدام پر مجبور کیا وہ ان کا واقعہ تھا کہ ایک دن سڑک کنارے ایک بے حس و حرکت کھڑے شخص کے قریب جب وہ گئے تو وہ ایک مردہ لاش تھی۔ قریبی چوکی کے اہلکاروں نے لاش اکڑنے کے بعد سڑک کنارے تفریح کے لیے کھڑی کردی تھی، جس طرح لوگ برفباری میں سڑک کنارے برف کا آدمی بناتے ہیں۔

انہیں حالات کی تڑپ تھی جس نے ملا عمر جیسے مسجد کے حجرے نشین شخص کو مجبور کیا کہ وہ ان مظالم اور فسادات کے خلاف اور امن کے قیام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ یہ حالات محض طوائف الملوکی یا بدامنی کے نہیں تھے۔ اس کے مضمرات اور اثرات بڑے گہرے تھے۔ اس نے سماج کو آئندہ کئی عشروں کے لیے اخلاقی زوال میں ڈال دیا تھا۔

اس خانہ جنگی نے افغانستان کو ہر حوالے سے نقصان پہنچایا۔ یہ صرف، معاشی، مذہبی یا سماجی نقصان نہیں تھا۔ اس خانہ جنگی سے یہاں لسانی تقسیم، بلکہ لسانی دشمنیاں پیدا ہو گئیں۔ معاشی سرگرمیاں صفر پر آ گئیں۔ تعلیم، ہنر اور روزگار کا تو سوال ہی ختم ہو گیا۔ سماج میں کوئی عمرانی اصول نہ رہے۔ جنگل کا قانون تو محض محاورہ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگل بھی یہاں سے زیادہ مہذب نظر آتا تھا۔

ایسے حالات میں معیشت، تعلیم، سماجی بہبود، تربیت، ٹریفک کے اصول، شہر کی صفائی، علمی و سائنسی برتری، یہ سب چیزیں بعد اور بہت بعد کی چیزیں لگتی تھیں۔ سب سے پہلے تو یہاں ایک ایسی قوت کی ضرورت تھی جو شر اور فتنہ کے ان تمام منابع کا صفایا کرے۔ جو کسی طاقت سے مرعوب نہ ہو، کسی عیاشی اور فحاشی کا شکار نہ ہو، جو دولت کی لالچ سے بھی ماورا ہو۔ جو اخلاقی لحاظ سے بھی سب سے بہتر ہو۔ جو منظم، متحد، قانون کی پابند، اصولوں پر عمل پیرا اور قوم کو امن دے سکے۔ جس کے دل میں خدا کا خوف اور اس کے بندوں سے محبت ہو۔ امارت اسلامیہ نے اس قوم کو جس سماجی ابتری، معاشی کسمپرسی، انسانی المیے اور بحران، بدامنی، لاقانونیت، لسانی دشمنی، جغرافیائی تقسیم اور اخلاقی زوال کے پاتال سے نکالا، افغانستان کی تاریخ کا ایک روشن باب بننے کے لیے اس کی یہی خدمت کافی ہے۔

لیکن امیرالمؤمنین اور ان کے ساتھیوں نے صرف اسی امتیاز اور اعزاز پر اکتفا نہیں کیا۔ کابل میں ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے والے یہ لوگ جب شمال کی جانب بھاگے تو سب متحد و متفق بھی ہو گئے، اور بیرونی جانب سے ہر گروہ کو الگ الگ پشتی بان بھی میسر آ گئے۔ امارت اسلامیہ نے اپنے دور حکومت میں مسلسل جنگیں لڑیں۔ جنگ ہر مضبوط سے مضبوط ملک کی معیشت کی کمر توڑ دیتی ہے۔ امارت اسلامیہ نے اپنی معاشی کمزوری باوجود مسلسل اپنا دفاعی حصار مضبوط رکھا اور ان تنظیمی درندوں کو اجازت نہ دی کہ وہ آ کر پھر سے لوگوں کا جینا حرام کر دیں۔

دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ پانچ سال کے لیے ایک حکومت آتی ہے۔ اسے ایک بنا، بنایا نظام ملتا ہے۔ معیشت، تعلیم، انتظامیہ غرض شعبے میں بنیاد سے اٹھانے کے لیے کام نہیں کرنے پڑے انہیں محض اس نظام کو مزید بہتر کرنا ہوتا ہے۔ پانچ سال بعد جب اس سے سوال ہوتا ہے کہ اس نے کیا کیا؟ تو کچھ سڑکیں، کچھ کارخانے، کچھ ڈیم اور سکول اس کے کھاتے میں ملتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کو بھی حکومت کے لیے پانچ سال ملے وہ بھی مسلسل جنگوں میں، مگر اس کے باوجود بھی ایک ترقی پذیر ملک کی طرح کے انہوں نے نتائج دیے۔

ضیاء الدین صاحب کی یہ بات بہت عجیب ہے کہ امارت اسلامیہ نے تعمیر اور ترقی کے شعبے میں کوئی کام نہیں کیا۔ اس وقت تمام تر جزئیات کا احاطہ مشکل لگتا ہے۔ مثال کے لیے چند اقدامات کا تذکرہ کروں گا۔

• افغانستان کی موجودہ کرنسی نوٹ کے اجراء کا فیصلہ امارت اسلامیہ کا ہی تھا اور جرمنی سے یہ معاہدہ افغان مرکزی بینک نے طالبان دور ہی میں کیا تھا۔ اس سے قبل افغانستان میں سردار داود کے جاری کردہ نوٹ چلتے تھے جو اتنے بے وقعت ہوچکے تھے کہ معمولی سودا سلف کے لیے بوریاں بھر کے لے جانے پڑتے تھے۔ موجودہ نوٹ کا ڈیزائن بھی امارت اسلامیہ نے طے کیا تھا۔ ایک سے ہزار افغانی تک 9 نوٹوں کا ڈیزائن افغانستان کے تاریخی مقامات کی تصاویر کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا۔ اس کی نقل نہ بنائی جا سکے، اس کے لیے ایک خفیہ کوڈ میں میر ویس خان کے مزار کی تصویر دی گئی۔ جس میں کرزئی حکومت نے معمولی تبدیلی کروائی۔

• امارت اسلامیہ نے تعلیم کے شعبے میں سب سے بڑھ کر اقدامات کیے۔ دفاع کے بعد دوسرا سب سے بڑا بجٹ تعلیم کے لیے رکھا گیا۔

• پورے ملک میں سکولنگ سسٹم تباہ ہو چکا تھا۔ امارت اسلامیہ نے سکولوں کی مرمت اور دوبارہ تعمیر کر کے انہیں تعلیم کے قابل بنایا۔ اعلی تعلیمی اداروں کو گرانٹ فراہم کیے۔ اس وقت عالمی اداروں نے جو رپورٹ دی اس کے مطابق افغانستان میں دس لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

• افغانستان کے تمام صوبوں کو ملانے کے لیے ایک بڑے شاہراہ کی تعمیر کا فیصلہ بھی امارت اسلامیہ کا تھا۔ کابل سے میدان وردگ اور کابل سے لوگر تک اس شاہراہ کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ کابل سے قندھار شاہراہ پر کام جاری تھا جو امریکی حملے کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا۔

• شہروں کے اندر ٹینکوں اور جنگی گاڑیوں کی آمد و رفت سے جو سڑکیں تباہ ہوئی تھیں ان کی مکمل تعمیر نو کی گئی۔

• اس وقت جب یہ خطہ موبائل نامی ڈیوائس کو جانتا نہیں تھا۔ امارت اسلامیہ کی وزارت مواصلات نے معروف تاجر احسان اللہ بیات کے اشتراک سے موبائل سم کمپنی ”افغان بیسیم“ کی بنیاد رکھی۔ یہ کمپنی آج بھی قائم ہے۔

• شہروں کے اندر سرکاری عمارتیں جو جنگوں سے تباہ ہو گئی تھیں ان کی تعمیر و مرمت کر کے قابل استعمال بنایا۔

• پورے ملک میں سڑکوں پر کام کر کے انہیں قابل استعمال بنایا گیا۔

• ہلمند ضلع بست میں قائم کارخانہ جو جنگوں میں تباہ ہو چکا تھا اس کی تعمیر و مرمت کر کے اسے پیداوار کے قابل بنا دیا گیا۔ جس میں کاٹن کی صفائی، گھی اور صابن کی فیکٹریاں لگائی گئیں۔

• کابل شہر اس وقت تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ حتی کہ بجلی کے تار تک اکھیڑ کر یہ لوگ لے گئے تھے اور کباڑ میں بیچ آئے تھے۔ بجلی فراہمی کی مشینری کے پرزے تک یہ جنگجو لٹیرے سکریپ میں بیچ کھا گئے تھے۔ امارت اسلامیہ نے ماہیپر، نغلو اور سروبی کے ڈیموں کو ملا کر کابل اور مضافات کو بجلی فراہم کی۔ اس کے لیے مشینری فراہم کی۔

• ہلمند کجکی ڈیم سے قندھار کو جو بجلی فراہم ہوتی تھی اس کے کھمبے تک اکھیڑ لیے گئے تھے۔ امارت اسلامیہ نے کجکی ڈیم پر بجلی کی پیداوار بڑھائی اور کھمبوں کی تنصیب کر کے قندھار شہر کو بجلی فراہم کی۔

• امارت اسلامیہ وزارت اطلاعات کے تحت ستر کے قریب ہفت روزہ، ماہنامہ اور روزنامہ رسائل، جرائد اور اخبارات شائع ہونے لگے۔ بی بی سی کا ایک صحافی ایک دن ایک معروف میگزین کے دفتر میں آ کر بیٹھ گیا۔ دفتر میں مدیر اور اس کا عملہ کام میں مصروف تھا۔ صحافی کہنے لگامیں کچھ برس قبل اسی دفتر کو دیکھنے آیا تھا۔ اس وقت یہ منشیات کے عادی افراد کا ٹھکانہ تھا۔ باہر پیشانی پر میگزین کا بورڈ تھا مگر اندر آوارہ کتے سوئے ہوئے تھے۔ اب (امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں ) آیا ہوں تو میگزین پھر سے فعال ہے، یہ بڑی تبدیلی ہے۔

• پل خمری سیمنٹ فیکٹری، قندوز سپینزر کمپنی جو گھی اور قالین بافی کی کمپنی تھی، مزار شریف کی بجلی کمپنی اور دیگر کمپنیاں جو ملک کے طول و عرض میں واقع تھیں، تباہ ہو چکی تھیں انہیں دوبارہ سے پاؤں پر کھڑا کر کے پیداوار کے قابل بنایا گیا۔

• فضائیہ کے شعبے میں تمام ائرپورٹس کی تعمیر نو کر کے رن ویز کو قابل استعمال بنایا۔ ریڈار سسٹم جو ناکارہ ہو گئے تھے ان کی تجدید کی گئی۔

• فضائیہ میں 9 ٹرانسپورٹ طیارے، 16 جنگی طیارے اور 19 ہیلی کاپٹر جو ناکارہ حالت میں تھے انہیں استعمال کے قابل بنایا گیا۔

• ملا عبدالسلام ضعیف کی بحیثیت سفیر پاکستان میں تقرری سے قبل وہ کان کنی، قدرتی وسائل و صنعت کی وزارت میں سیکریٹری رہے۔ شمالی افغانستان میں گیس اور تیل کے بہت سے کنویں جسے جنگجو کمانڈر ذاتی مقاصد کے لیے بڑے بے ہنگم اور غیر پیشہ ورانہ طریقے سے استعمال کرتے تھے۔ ان کی پیداواری صلاحیت بھی تباہ ہو گئی تھی۔ ملا ضعیف نے لکھا ہے ہم نے ان کنووں کو پھر سے بہتر انداز میں کارآمد بنایا۔ نئی ریفائنریاں قائم کیں۔

سرپل میں بجلی کی پیداوار اپنی پرانی حالت پر پہنچا دی۔ گیس کی پائپ لائن شبرغان اور مزار شریف تک بچھا دی۔

اس طرح صرف ہماری وزارت نے قومی خزانے کو 1999 میں 35 لاکھ امریکی ڈالر دیے۔

ایک یونانی کمپنی نے معاہدے کے تحت ہلمند اور قندھار میں سروے کر کے تیل اور گیس کے اہم ذخائر دریافت کیے۔ یونانی کمپنی نے اس وقت دس لاکھ ڈالر کی انویسٹ منٹ سے یہ سروے کیا۔ مذکورہ کمپنی نے اس کے لیے ایک بڑی ریفائنری پر بھی کام شروع کر دیا تھا۔

• کابل، مزار شریف، جلال آباد، ہرات، قندھار میں چار سو سے زائد چھوٹے بڑے صنعتی پراجیکٹس شروع کیے گئے۔

یہ کچھ مثالیں ہیں مختلف شعبوں میں ہونے والے کام کی۔ مجھے ضیاء الدین صاحب سے ہرگز یہ توقع نہیں کہ انہیں ان سارے اقدامات کی کچھ بھی خبر نہیں ہوگی۔ لیکن انہوں نے تحریر میں جس طرح سے امارت اسلامیہ کے پانچ سالہ دور کو محض مذہبی تشدد کا دور کہا وہ افسوسناک رویہ ہے۔

امارت اسلامیہ نے اپنے دور میں جو کام کیے وہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں یقیناً کچھ بھی نہیں۔ امارت کا سالانہ بجٹ 80 لاکھ امریکی ڈالر کے برابر ہوتا تھا۔ جس میں سے ایک ملین ڈالر دفاعی بجٹ ہوتا تھا۔ لیکن یاد رہنا چاہیے کہ یہ محض پانچ سال کی کارکردگی ہے۔ اور پانچ سال سے قبل جو اس ملک پر گزری تھی وہ کسی اور ملک پر گزرتی تو اس کی حالت بھی افغانستان سے مختلف نہ ہوتی۔ امارت اسلامیہ کو ہر شعبہ میں صفر درجے سے کام کا آغاز کرنا پڑا تھا۔

ضیاء الدین صاحب نے اپنی تحریر میں امارت اسلامیہ کے ان اقدامات کو بھی نظر انداز کر دیا جو صرف ہماری ہی خصوصیت قرار دی جا سکتی ہے۔ کرپشن زیرو فیصد، منشیات زیرو فیصد، بدامنی زیرو فیصد، ناجائز اسلحہ رکھنے اور کاروبار کرنے پر مکمل پابندی، امارت اسلامیہ کے اعلی ترین عہدیداروں کا لائف سٹائل افغانستان کے کسی غریب شہری کے برابر رہا۔ یہ خصوصیات ایسی ہیں جس میں آج بھی افغانستان کیا دنیا کے بہت سے ممالک امارت اسلامیہ کے دور کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ضیاء الدین صاحب نے اس وقت ایک کروڑ بچوں کے تعلیم کی بات کی ہے جب ساری دنیا سے کابل انتظامیہ کو اربوں ڈالر امداد کی مد میں مل رہے ہیں۔ آج سے بیس برس قبل اور سالہا سال کی تباہیوں کے بعد دس لاکھ بچوں کو کسی بیرونی امداد کے بغیر تعلیم فراہم کرنا شاید اس سے بڑا کارنامہ تھا۔

اگلا حصہ: جناب ضیا الدین یوسفزئی صاحب! مکالمہ سے گریز نہیں ہونا چاہیے: افغان طالبان کا جواب

اسی بارے میں: افغانستان میں دائمی قیام امن کے لئے طالبان سے چند گزارشات از ضیا الدین یوسفزئی

اکرم تاشفین، معاون مدیر ماہنامہ شریعت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اکرم تاشفین، معاون مدیر ماہنامہ شریعت

اکرم تاشفین صاحب، افغان طالبان کے اردو ترجمان میگزین ماہنامہ شریعت کے معاون مدیر ہیں

akram-tashfin has 2 posts and counting.See all posts by akram-tashfin

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments