ملالہ یوسف زئی: ایک ننھی، ہزار شکوے


ہم بحیثیت قوم ابتدا ہی سے ملالہ یوسفزئی سے شکوہ کناں رہے ہیں۔ کبھی ہمارے پسندیدہ طالبان کے مظالم کے خلاف بات کرنے کا شکوہ تو کبھی تعلیم کے حصول کی ضد پر اڑ جانے کا شکوہ۔ کبھی اس بات کا شکوہ کہ گولی کھا کر زندہ کیوں بچ گئی اور کبھی اس بات کی شکایت کہ علاج کے لئے برطانیہ کیوں چلی گئی کہ اب جدید استعماری سازشی ممالک اس کو مسلم امہ کے خلاف اک مہلک ہتھیار کے طور پہ استعمال کریں گی۔ جن کو کوئی اور شکایت نہیں ہوئی ان کو ملالہ کے جینز پہننے پہ شکایت ٹھہری کہ مشرقی لڑکیوں کی پردہ داری ہی ان کا اصل زیور ہوتا ہے۔ اور تو اور ملالہ کو امن نوبل انعام کا ملنا بھی کسی عالمی سازش کا پیش خیمہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور اس بات کا شکوہ کیا گیا کہ ملالہ نے نوبل انعام عالمی استعمار کے منہ پر مار کر قوم کی مشرقی بیٹی ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دیا۔

ملالہ کے خلاف نیا نویلا شکوہ اس وقت پیدا ہو گیا جب ملالہ نے ووگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ لوگ اکٹھے رہنے کے لئے شادی کیوں کرتے ہیں حالانکہ لوگ بطور پارٹنر بھی تو اکٹھے رہ سکتے ہیں“ ۔ ابھی ان الفاظ نے ملالہ کی زبان سے ٹھیک سے رہائی بھی نہیں پائی ہو گی کہ ہم بطور قوم اپنے خالی دماغوں کے نا آسودہ قید خانوں میں بند ہو کے بیٹھ گئے۔ ہم نے ان الفاظ کو اک نئی استعماری سازش کے ساتھ تعبیر کرنا شروع کر دیا۔ یوں محسوس ہونے لگا جیسے مغربی استعمار ان الفاظ کے ذریعے شادی جیسے مقدس سماجی ادارے کی جڑوں کو کھوکھلا کر کہ مسلم امہ کو جنسی بے راہ روی کے دلدل میں بس دھکیلنے ہی لگا ہے۔

ہم میں سے کسی نے یہ جاننے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی کہ ملالہ کے ان الفاظ کا سیاق و سباق کیا تھا۔ اولاً، ملالہ نے یہ بات بطور انسان اپنی رائے کے اظہار اور شخصی آزادی کے اک دقیق پہلو کے بارے میں سوال اٹھانے طور پہ ادا کیے تھے جن کے فوراً بعد اس نے کہا کہ ”میری امی کہتی ہیں کہ آپ کو اسلامی اور مشرقی روایات کے مطابق شادی کرنی ہی پڑے گی“ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملالہ جدید تعلیم یافتہ مگر مشرقی والدین کی بیٹی ہے۔

ثانیاً، کسی نے یہ تحقیق کرنے کوشش نہیں کی کہ اسلامی شریعت اور فقہ میں شادی کا بنیادی فلسفہ ہے کیا۔ شادی بنیادی طور پر ایک پارٹنرشپ ہی ہے جس کا علانیہ اظہار کر لیا جائے۔ اگر مرد اور عورت باہمی رضامندی سے زندگی کے ساتھی بننا چاہتے ہیں تو ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کی تکمیل ہو جاتی۔ گواہان کی موجودگی اور نکاح خواں کے پاس نکاح کہ اندراج کا مقصد اس پارٹنرشپ کی جزئیات طے کرنا ہے تاکہ زندگی میں کسی اختلاف کی صورت میں تحریری جزئیات کی طرف رجوع کیا جا سکے۔

یار لوگوں نے صرف چھے کلمے پڑھنے کو نکاح سمجھ رکھا ہے۔ ثالثاً، ملالہ یوسفزئی نے جس معاشرے میں انٹرویو دیا ہے اس کا شخصی آزادی کا تصور ہمارے معاشرے میں موجود شخصی آزادی کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔ وہاں باہمی رضامندی کسی بھی پارٹنر شپ کی خشت اول ہوتی ہے۔ باقی تفاصیل فروعی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اور اگر باہمی رضامندی کا بنیادی عنصر ہی مفقود ہو تو باقی سب فروعی تفاصیل ریت کے گھر کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں عموماً نکاح کی پارٹنرشپ میں باہمی رضا مندی کے علاوہ سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ خاص طور پر عورت کی رضا مندی کو تو در خور اعتنا ہی نہیں مانا جاتا۔ اس لحاظ سے ہم ملالہ کے الفاظ کا حقیقی مفہوم کبھی سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔

ہم ملالہ کو نیا عبدالسلام بنانے پر بضد ہیں۔ اب ملالہ جتنا مرضی پاکستانی اور مشرقی بننے کی کوشش کر لے ہم نے اس کی ایک نہیں چلنے دینی۔ کیونکہ ایک بار جب ہم کوئی ارادہ کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنی عقل استعمال کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments