ایسی پارلیمان کو عوام سنجیدگی سے کیوں لیں


عارفہ نور میری بہت عزیز دوست ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد بنائی اپنی رائے کے بارے میں مستقل مزاج ہے مگر اس کی فطرت میں منکسرالمزاجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اسی باعث خود کو ہمیشہ چوکس مدیر کے بجائے ”ذات کی سب ایڈیٹر“ کہلوانے کو ترجیح دیتی ہے۔ عرصہ ہوا پرنٹ سے ٹی وی کو سدھار چکی۔ ان دنوں اخبار کے لئے محض ہفتہ وار کالم لکھنے پر اکتفا کرتی ہے۔

منگل کی صبح چھپے اس کے کالم کی ابتدائی سطر جسے ہم صحافتی زبان میں انٹرو (Intro) کہتے ہیں کو دیکھا تو ”دل لہو سے بھر گیا“ والی کیفیت سے دو چار ہوا۔ موضوع اس کالم کا سینٹ کی انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کے حوالے سے نمودار ہوا حالیہ قضیہ تھا۔ ابتداء اپنے کالم کی مگر اس نے یہ اعلان کرتے ہوئے کی کہ ہماری پارلیمان اب Incidental یعنی فروعی ہو چکی ہے۔ سینٹ اور قومی اسمبلی میں جو بھی ہوتا ہے عوام اس سے غافل رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پارلیمان کی کارروائی کو رپورٹ کرتے اور اس پر تبصرہ آرائی کرتے ہوئے صحافی بھی ”سٹار“ متصور ہوتے تھے۔ ٹی وی چینلوں پر سیاست دانوں کے مابین شام سات بجے سے رات گئے تک رچائی دھماچوکڑی نے تاہم پارلیمان ہی کو غیر متعلق نہیں بنایا اس کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والوں کو بھی گمنامی میں دھکیل دیا ہے۔ نجانے مجھے کیوں گماں لاحق ہوا کہ یہ سطریں لکھتے ہوئے اس کے تصور میں میرا چہرہ نمودار ہوا ہوگا۔ اگرچہ میں کسی بھی حوالے سے اس کے ذہن میں آنے کے قابل نہیں ہوں۔

کئی بار اس کالم میں پارلیمان سے اپنی دیرینہ رغبت کا اظہار کرچکا۔ ہوں۔ 1985 سے 2008 تک میں نے اس کے اجلاسوں میں واقعتاً تاریخ ”بنتی دیکھی ہے۔ افتخار چودھری مگر جب“ عوامی تحریک ”کی بدولت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہوئے تو ازخود نوٹسوں کی بھرمار سے منتخب ایوانوں میں بیٹھے افراد میں سے“ جعلی ڈگریوں ”والے ڈھونڈنا شروع ہو گئے۔ ٹی وی سکرینوں پر چھائے ذہن سازوں نے بہت لگن سے ان کی معاونت فرمائی۔ بتدریج یہ تصور اجاگر ہونا شروع ہو گیا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بیٹھے افراد کی بے پناہ اکثریت“ چوروں اور لٹیروں ”پر مشتمل ہے۔ اس تصور کی بدولت یوسف رضا گیلانی کو ایک چٹھی نہ لکھنے کی وجہ سے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے گھر بھیج دیا گیا۔ انہیں فارغ کرتے ہوئے آصف سعید کھوسہ نے“ حیف ہے اس قوم پہ ”کی دہائی بھی مچائی۔ پارلیمان کی اس کے باوجود رہی سہی ساکھ بھی پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد ہوئی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو گئی۔ ٹھوس حقائق سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود مجھ سادہ لوح کو یہ خوش فہمی لاحق رہی کہ 2018 کے انتخابات کے بعد جو قومی اسمبلی معرض وجود میں آئی ہے وہاں بھاری بھر کم تعداد میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے اراکین پارلیمان کو“ سب پے بالادست ”ثابت کرنے کو تل جائیں گے۔ اگست 2018 کو اب تین سال گزرنے والے ہیں۔ پارلیمان مگر میڈیا کو اپنی جانب راغب کرنے میں قطعاً ناکام رہی ہے۔

پارلیمان کی ساکھ لٹ جانے کا حقیقی ذمہ دار میں اپوزیشن کو ٹھہراتا ہوں۔ احتساب بیورو نے اس کے اراکین کی اکثریت کو منیر نیازی کے ایک شعر کے مطابق ”ان کے گھر میں ڈرا“ رکھا ہے۔ وہ سہمے چہروں کے ساتھ ایوان میں داخل ہوتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے آئی متعدد لوز گیندوں پر بھی چھکا لگانے کی جرات نہیں دکھاتے۔ اب تو ان کے مابین جوتیوں میں دال بٹنا بھی شروع ہو گئی ہے۔

پیر کی شام پانچ بجے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ میں حسب عادت اس کی کارروائی دیکھنے کے لئے پارلیمان ہاؤس میں داخل ہوا تو بلاول بھٹو زرداری کے چیمبر کے باہر پارلیمانی رپورٹر کھڑے نظر آئے۔ ان کی موجودگی عندیہ دے رہی تھی کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین طویل وقفے کے بعد پارلیمان میں ”کچھ کرنا“ چاہ رہے ہیں۔ زندگی کی کئی دہائیاں رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے میں کافی ڈھیٹ ہو چکا ہوں۔ چیمبر کے باہر کھڑے ہو کر انتظار کرنے کے بجائے ڈھٹائی سے اندر چلا گیا۔ پیپلز پارٹی والے محترمہ بینظیر بھٹو کے صدقے میرا احترام کرتے ہیں۔ مجھے روکنے کے بجائے سٹاف نے خوش آمدید کہا۔ میں بلاول کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت اپنی جماعت کے کئی سینئر رہنماؤں کے ساتھ مشاورت میں مصروف تھے۔ احتراماً کھڑے ہو کر مجھے اپنے بائیں ہاتھ رکھی کرسی پر بٹھا لیا۔ وہاں سوال یہ زیر غور تھا کہ پیر کے اجلاس میں کس موضوع پر توجہ دی جائے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی پیر ہی کے روز گھوٹکی میں ہوئے ریلوے حادثے کی بابت حقیقتاً پریشان تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اس حادثے کی حقیقی وجوہات کے تعین پر اصرار کیا جائے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہو کر انہوں نے یہ مطالبہ ڈپٹی سپیکر کے روبرو بھی رکھ دیا۔

احسن اقبال مسلم لیگ کے قدآور رہنما ہیں۔ 1997 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے طالب علم رہے۔ کئی معتبر تعلیمی اداروں میں لیکچر بھی دیتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومتوں کے دوران منصوبہ بندی اور داخلہ جیسی اہم وزارتوں کے سربراہ تھے۔ ہماری سیاست کے اسرارورموز سے بخوبی واقف ہیں۔ میڈیا کو پیغام دینے کا ہنر بھی بخوبی جانتے ہیں۔

انہیں بلاول بھٹو زرداری کے بعد مائیک ملا تو چراغ پا ہو گئے۔ ڈپٹی سپیکر سے گلہ کیا کہ ان کی جماعت کی جانب سے بولنے کی اجازت طلب کی جائے تو کرسی صدارت پر بیٹھا ہر فرد نظرانداز کر دیتا ہے۔ یہ حقیقت فراموش کرتے ہوئے کہ عددی اعتبار سے مسلم لیگ (نون) قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

احسن اقبال سے میری بے تکلفی نہیں۔ باہمی احترام کا رشتہ مگر دیرینہ ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ میڈیا کے ذریعے پیغام رسانی کے ہنر سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے وہ جبلی طور پر جانتے تھے کہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو مائیک دینے کے حوالے سے انہوں نے جو انداز اختیار کیا وہ بنیادی طور پر یہ پیغام دے رہا تھا کہ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے مابین اختلافات شدید تر ہو رہے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں میں اب مقابلہ یہ ثابت کرنے کا شروع ہو چکا ہے کہ عمران حکومت کی ”اصل اپوزیشن“ جماعت کون ہے۔ جس مسابقت کا اشارہ احسن اقبال صاحب نے پیر کی شام قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی دیا اس کی حقیقت بعد ازاں ہوئی کارروائی کے دوران بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے احسن اقبال کو ”کاغذی“ لیڈر پکارنے سے مزید واضح ہو گئی۔

ایسے عالم میں گھوٹکی میں ہوئے سانحہ پر توجہ مبذول رکھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ فواد چودھری صاحب نے بھی اپنی دھواں دھار تقریر کے ذریعے مذکورہ حادثے سے توجہ کامل طور پر فروعی امور کی جانب موڑ دی۔ ریلوے کی تباہی کا حقیقی سبب انہوں نے نواز شریف کو قرار دیا۔ نہایت اعتماد سے الزام لگایا کہ برطانوی عہد سے جاری ریلوے کا نظام قیام پاکستان کے کئی برس گزر جانے کے بعد بھی شاندار انداز میں چل رہا تھا۔ 1990 کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی لیکن نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ ان کے خاندان کی ”اتفاق فونڈری“ تھی۔ اسے ”خام مال“ کی صورت لوہا درکار تھا۔ اس کے حصول کے لئے ریلوے کو دانستہ طور پر تباہ کیا گیا۔ جو ریلوے ٹریک قابل استعمال نہ رہے ان کا لوہا اٹھا کر اتفاق فونڈری کی بھٹیوں کی نذر کر دیا گیا۔ گھوٹکی میں پیر کے روز ہوئے حادثے کا اصل سبب لہٰذا وہ دور ہے کیونکہ ”وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا“ ۔

پیر کے روز ہوئے حادثے کا دوش ”اتفاق فونڈری“ پر دھرنے کے بعد فواد چودھری صاحب اپنی طولانی تقریر کے ذریعے تحریک انصاف کے اس بیانیے کو طنزیہ انداز میں دہراتے رہے جو آصف علی زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں کو ”باریاں“ لینے والے ”چور اور لٹیرے“ ٹھہراتا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ایک مرتبہ بھی انہیں یاد دلانے کی زحمت گوارا نہ کی کہ فی الوقت اپوزیشن والے پیر کے روز ہوئے سانحے کی بابت پریشان ہیں جو 55 افراد کی ہلاکت کا باعث ہوا۔

کامل بے بسی کے عالم میں اپوزیشن اراکین لہٰذا سپیکر کے ڈائس کے گرد جمع ہو کر نعرہ بازی میں مصروف ہو گئے۔ اس سے بالآخر تھک کر واک آؤٹ کر دیا۔ حکومت نے اپوزیشن کی عدم موجودگی میں ”ریکارڈ ساز“ قانون سازی کا کارنامہ سرانجام دیا۔ ایسی پارلیمان کو ہمارے عوام سنجیدگی سے کیوں لیں اور اس میں ہوئی کارروائی پر توجہ دینے والے مجھ جیسے مشقتی ”غیر صحافی“ قرار کیوں نہ پائیں کیونکہ وہ ٹی وی سکرینوں کے ”سٹار“ نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments