گھریلو مسائل اور تنازعات۔ حل جلدی نکالیں


ہر فرد کو زندگی میں مسائل اور پریشانیاں کا سامنا رہتا ہے۔ ان پریشانیوں اور مسائل کا تدارک بعض دفعہ حکمت عملی ہوتی ہے تو بعض دفعہ صبر کے بستر پر تکیہ لگا کر بیٹھنے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ ہر شخص جنگ لڑ رہا ہوتا ہے کبھی گھریلو حالات سے، کبھی اندرون سے، کبھی بیرون سے، کبھی معاشرے کے رویوں سے، کبھی اپنی منفی سوچ سے اور کبھی ان مسائل اور پریشانیوں سے جو ہمہ وقت اس کو اپنے گھیرے میں لیے رکھتی ہیں۔ زندگی ہے تو جینے کے لیے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور ان کو سلجھانے کی تدبیر بھی کرنی پڑے گی۔ جب ہی ایک انسان کامیابی کا دعوی کر سکتا ہے جب وہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کر کے اپنے لیے پر سکون راہ نکال لے۔

دنیا کا شاید ہی کوئی فرد ہوگا جس کو کسی نہ کسی موڑ پر مسائل کا سامنا نہ رہا ہو۔ کسی فرد کو مسائل توڑ دیتے ہیں، اس کا حوصلہ اس سے چھین لیتے ہیں، اسے نا امید کر کے رکھ دیتے ہیں، اس کا ایسا حال کر دیتے ہیں کہ انسان جیتے جی مرنے کی دعائیں اور قتل ذات کی تدبیریں کرنے لگتا ہے۔ ہر دفعہ اس کا ذہن پریشان رہتا ہے۔ نہ لباس کا ہوش ہوتا ہے نہ کھانے کی سدھ، نہ کام کا دھیان اور نہ ہی ان رشتوں کا احساس جن کے دائر میں رکھ کر یہ خوش رہ سکتا تھا۔ مسائل نے انسان کو توڑ کے رکھ دیا ہے۔ اتنا کہ اس کے ذہن میں جینے کی امنگ اور زندہ رہنی کی خواہشات پنپ ہی نہیں پاتی بلکہ اس کا ذہن منفی خیال منتشر کا کارخانہ بن جاتا ہے۔ بعض لوگ ان مسائل کا سامنا نہیں کر پاتے اور ان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے۔

جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ بڑا پر آشوب دور ہے اس حوالے سے کہ ہر فرد کے گرد پریشانی نے ہالا بنا رکھا ہے۔ فرد ہی نہیں گھروں کے گھر پریشانیوں میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ ہر گھر میں تنازعات اور رشتوں میں دوری نے جنم لے رکھا ہے۔ قوت برداشت اتنا کم ہو گیا ہے ایک کی بات دوسرے کو برداشت ہی نہیں ہوتی۔ اب نہ بزرگ کی نصیحت اور نہ ماں باپ کی باتوں کو برداشت کیا جاتا ہے۔ گھر میں آئے روز کی تلخیوں نے انسان کو دیگر ذہنی، جسمانی، نفسیاتی مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے۔

گھریلو تنازعات اور تلخیوں سے انسانی ذہن مفلوج ہوکے رہ گیا ہے۔ جب چوبیس گھنٹے ہی ذہن پر جھگڑوں کی تلوار لٹک رہی ہو اور انسان اندر سے گھٹن محسوس کر رہا ہو تو فرحت عنقا ہو جاتی ہے۔ انسان کو جس طرح زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی غذا کی ضرورت ہے اسی طرح ذہنی سکون اور قلبی راحت درکار ہے، اگر یہ میسر نہ ہو تو انسان مختلف قسم کے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر اس نہج پر پہنچ جاتا ہے جہاں جینے کے پودے نہیں پنپ پاتے اور مرنے، وسوسے اور قتل نفس کے پودے خود بخود اگ آتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر ان تنازعات کو بروقت نہ روکا گیا تو انسان سنگین اقدام اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے جو بعض دفعہ خطرناک رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔

گھریلو تنازعات کے بہت ساری وجوہات ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ یہ تنازعہ میاں بیوی میں بھی ہو سکتا ہے، دو بھائیوں کے مابین بھی، والد اور اولاد کے درمیان اور مشہور زمانہ ساس بہو کے بیچ میں بھی۔ ہر جھگڑے کی نوعیت الگ ہے لیکن کام ایک ہی ہے یعنی ذہنی غارت گری، شدید پریشانی اور انتشار میں مبتلا کرنا۔ انسان ہر مسئلے کا حل ڈھونڈ لیتا ہے لیکن روزانہ کی بنیاد پر جو مسائل سر اٹھا رہے ہوں ان کی سرکوبی کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ تنازعے سوچنے، سمجھنے اور تدبیر اختیار کرنے کی قوت کو سلب کرتے ہیں۔ انسان ہمہ وقت ان مسائل پر دھیان دیتا رہے، ان پر لگاتار سوچتا رہے تو پریشانی سے نیم پاگل ہوجاتا ہے۔ مثبت سوچنے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے۔ کوئی کام کو کرنے کا جی نہیں کرتا، نہ اپنا ہوش رہتا ہے نہ اپنے آس پڑوس کا دھیان، عجیب و غریب حالت ہوجاتی ہے۔ اپنی اصل حالت میں لوٹ آنا مشکل اور بعض دفعہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نیم پاگل انسان کسی مسئلے کو نہیں سلجھا سکتا جب کہ اس کی ذہنی ساخت نے خود ایک شدید مسئلے کی شکل اختیار کر رکھی ہو۔

اکثر گھریلو پریشانیاں اور مسائل شادی کے بعد شروع ہو جاتے ہیں۔

انسان کی زندگی کو سنوارنے اور نکھارنے میں بنیادی کردار ایک عورت نبھاتی ہے۔ اگر وہ تربیت یافتہ، سلیقہ شعار اور سگھڑ ہو گی تو نہ صرف مرد کی زندگی کو پر سکون کرتی ہے بلکہ گھر کو بھی جنت کا نمونہ بناتی ہے۔ اس کے ذہن میں فتور ہو، تربیت میں کھوٹ ہو، اس کا رجحان تعمیر کے بجائے تخریب کی جانب ہو، غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت اور اہلیت نہ ہو، جھگڑالو ہو، بدتمیز اور پھوہڑ ہو تو نہ صرف مرد کو ذہنی پریشانیوں اور الجھنوں میں مبتلا کرتی ہے بلکہ گھر کو بھی دوزخ سے بدتر بنا دیتی ہے جہاں رہنا تو درکنار سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ تعلیم ضروری ہے اس میں شک نہیں لیکن ایک عورت کو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ بھی ہونا چاہیے تاکہ مسئلے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔

گھر میں جوں ہی مسائل اور پریشانیاں سر اٹھانا شروع کر دے تو فوراً ان کا تدارک کرنا چاہیے۔ سنپولیا کو قابو میں کیا جا سکتا ہے جب یہ پریشانیاں اژدھا بن جائے تو ان کو انسان قابو میں نہیں کر سکتا پھر یہ انسان کو ہی نگل لیتی ہیں۔ ہر مسئلے کا حل مفاہمت نہیں بعض دفعہ مذمت سے بھی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ شروع شروع میں اگر گھریلو مسائل کو قابو کرنے کے لیے سختی بھی کرنی پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ پائیدار حل کی کوشش کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ چھید والے برتن میں پانی بھرنے کی بے سود کوشش کی جائے جو کبھی بھر ہی نہیں پاتا۔

جس برتن میں پانی رکھا جائے یہ ضروری ہے کہ وہ صحیح و سالم ہو۔ اس میں نقص نہ ہو جب ہی یہ ممکن ہے کہ وہ فائدہ دے پائے گا۔ میاں بیوی میں جھگڑا طول پکڑ رہا ہو اور مفاہمت کی کوئی تدبیر کارگر ہی نہیں ہوتی تو پائیدار حل کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض دفعہ معاملہ التوا میں رکھا جاتا ہے کہ شاید وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملہ سرد پڑ جائے اور حل کی کوئی گنجائش نکل آئے۔ جن زخموں کا بروقت علاج نہ کیا جائے وہ ناسور بن جاتے ہیں۔

جس بیماری کو ابتداء میں نہ روکا جائے وہ خطرناک روپ اختیار کر کے انسان کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ پہلے تو رشتے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اگر اس کے باوجود رشتے نہیں سنبھل رہے تو علیحدگی اختیار کرنی چاہیے پھر وہ میاں بیوی ہو یا وہ گھر جس میں دو تین بھائی اکٹھے رہتے ہوں۔ علیحدہ رہنے سے اگر مسائل حل ہو جاتے ہیں تو مشترکہ خاندان سے بہتر ہے۔ رشتوں کو توڑے بغیر کوشش کرنی چاہیے کہ کسی بھی گھریلو مسئلے کا پائیدار حل سوجھ بوجھ اور آپسی مشاورت سے نکال لیا جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ جس طرح لکڑی کو دیمک لگ جاتی ہے اسی طرح انسان کو مسائل اور پریشانیاں کھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments