وفا داریاں ثابت کرنے کا موسم


قائداعظم کے ساتھ مل کر پاکستان بنانے میں مذہبی اقلیتوں نہ صرف اپنا کلیدی کردار ادا کیا بلکہ اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ کیونکہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو مذہبی اقلیتوں کو اپنی وفا داری کا ثبوت دینا پڑ جاتا ہے۔ کیوں ہمیں یہ باور کروانا پڑتا ہے اور اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے کے لئے ایسے بے حقیقت بیانات دینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے کہ ہم جنت میں رہتے ہیں۔

کیا اقلیتوں نے اس دھرتی ماں کی کوکھ سے جنم نہیں لیا؟ پھر ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کبھی مذہبی اقلیتیں دہشت گردی یا ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں؟ وہ اپنے ملک کی وفادار ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ پھر کیوں انہیں قانون، معاشرے اور سیاست میں برابری کے حقوق حاصل نہیں۔ ہر میدان میں انہیں نا انصافیوں اور استحصال کا سامنا ہے۔ کیا جنت اس کو کہتے ہیں۔ جنت کا ماحول اور حالات وہ غریب اور بے بس اقلیتی خواتین اور کم عمر بچیاں بخوبی بتا سکتی ہیں جو ہر روز اجتماعی جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

جو جبری شادی اور تبدیلی مذہب کا شکار ہوتی ہیں۔ یا وہ نرسیں بتا سکتی ہیں۔ جن کے سروں پر ظالموں کے مذموم ارادوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے 295 C کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے۔ یا جن پر بلاسفیمی کا الزام لگا کر خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ مسیحی کمیونٹی کے ساتھ دو بڑے شعبے وابستہ تھے، ایک تعلیم اور دوسرا صحت کا شعبہ تھا۔ پہلے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر ان کے ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ جس سے مسیحیوں کی پوری ایک نسل کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوا اور اس شعبے سے ان کی نوکریاں جاتی رہیں۔

اور اب کچھ عرصہ سے صحت کے شعبہ میں بھی ان کے لئے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں۔ تاکہ صحت کے شعبہ سے بھی ان کا کردار ختم کر دیا جائے۔ نوجوان نسل احساس کمتری میں مبتلا ہو گئی ہے کیونکہ انہیں اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کی طرف سے ایڈورڈز کالج پشاور کا فیصلہ خیبر پشتونخواہ کے حق میں دینے سے تمام پاکستانی اور اوورسیز میں مقیم مسیحیوں میں بہت مایوسی پھیلی ہے۔ ان حالات میں اقلیتیں حکومت اور عدلیہ سے کیا انصاف کی امید رکھ سکتے ہیں۔

3 مئی 2021 کو یورپی یونین کی قرارداد منظور ہوئی تو وہی اقلیتی رٹو طوطوں نے مساوی حقوق اور جنت کی رٹ لگانا شروع کردی۔ جس سے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی مسیحیوں میں یہ گرم گرما بحث چھڑ گئی ہے کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق اور آزادی کے دعووں سے یورپی یونین کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ کیا ان کی انٹیلی جنس اتنی کمزور ہے۔ ان کا حال بقول شاعر ؂دل کے لبھانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ بظاہر یہ الفاظ کہنے اور لکھنے میں بڑے آسان ہیں۔

مگر ان الفاظ سے دوسری جمہوری حکومتوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جا سکتی۔ جو برملا کہہ رہی ہیں کہ فنڈنگ کرنے کے باوجود پاکستان مذہبی شدت پسندوں کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایک طرف اگر کوئی حکومت مذہبی اقلیتوں کے لئے کوئی مثبت قدم اٹھانے کی کوشش کرتی ہے تو دوسری طرف حکومت کی غلط پالیسیوں ہی کی وجہ سے مذہبی انتہا پسند اسمبلیوں اور سینیٹ میں موجود اراکین اقلیتوں کے تحفظ کا بل پاس نہیں ہونے دیتے۔

یا ایسی قرارداد دیں پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے ملک میں مختلف مذہبی مسلک اور مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اسی مذہبی تشدد پسندی اور انتہا پسندی ہی کی وجہ سے مذہبی اقلیتیں عتاب کا شکار ہیں۔ کسی بھی ملک کا آئین اس کے معاشرے کی سوچ و فکر اور اس کی طرز زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اور جب آئینی طور پر ہی پاکستان میں اقلیتیں آزاد نہیں تو وہ مذہبی طور پر آزاد کیسے ہو سکتی ہیں۔ بیشک پاکستان نظریات کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا مگر قائداعظم حکومتی امور اور مذہبی امور کو الگ الگ دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی قائداعظم کے نظریہ کے برعکس اقلیتوں کے کلیدی کردار کو فراموش کر کے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دے کر مذہبی تعصب کا آغاز کر دیا گیا۔

اقلیتوں کو آئین میں مساوی حقوق نہ دے کر اقلیتوں کی قربانیوں اور ان کی خدمات اور وفاداریوں کو فراموش کیا گیا ہے۔ جو جمہوریت پر ایک کاری ضرب ہے۔ اور یوں ملک میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے کا موقع فراہم کیا گیا، بیشک موجودہ حکومت نے مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کے لئے کچھ قدم اٹھائے ہیں۔ مگر ایک جمہوری مملکت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے قومی اور صوبائی سطح پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ کمزور معیشت کو مستحکم کرنے کی پالیسیاں نہ اپنانے کی وجہ سے مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔

قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں جرائم کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ صوبہ سندھ، وفاق اور اپوزیشن کے درمیان گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے حکومت آرڈیننس کے ذریعے حکومت چلانے پر مجبور ہے۔ صوبائی خود مختاری اور اختیارات کی کشمکش جاری ہے۔ میرج ایکٹ میں لڑکی کی شادی کی عمر صوبہ سندھ میں 18 سال اور صوبہ پنجاب میں 16 سال ہے۔ شادی کی عمر کے اس تضاد سے سندھ کے کئی منچلوں نے اٹھایا ہے کہ انہوں نے پنجاب میں آ کر کم عمر لڑکیوں سے شادیاں کی ہیں۔

مذہبی اقلیتوں کو ووٹ نہ حق دے کر ایک سازش کے تحت انہیں حکومتی امور سے دور رکھا گیا ہے۔ سلیکٹ شدہ نمائندوں کا قانون سازی میں کردار نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتیں بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لئے اقلیتوں کے نمائندوں کو قومی، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں سلیکٹو نمائندگی دے دی گئی ہے۔ جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کے وفادار ہوتے ہیں۔ جب تک اقلیتوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا جائے گا تب تک پاکستان میں مذہبی اقلیتیں بے بسی کی زندگی گزارتی رہیں گی۔

اقلیتوں کی رائے دہی کے جمہوری حق کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے جس سے اقلیتیں اپنے ووٹوں سے اپنے نمائندے خود چن سکیں اور اقلیتوں کی آبادی کے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا جائے۔ کیونکہ اقلیتوں کے ووٹوں سے منتخب نمائندے ہی ان کے مسائل حل کر نے میں دلچسپی لیں گے۔ سلیکشن کے ذریعے آنے والے نمائندوں نے کبھی بھی اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ اقلیت اتنی ہی محب وطن ہے جتنی اکثریت۔ وہ بھی اتنی ہی پاکستانی ہے جتنی اکثریت۔ وہ بھی اپنے ملک کے لئے قربانیاں دینے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments